اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو کرامات سے نوازتا ہے جس سے ان
کی تکریم اور ان کے مقام ِ قرب کا پتہ چلتا ہے اور دوسروں کے لئےاس میں
روشن دلیل ہوتی ہے۔ کراما ت در حقیقت خلافِ فطرت اور آلہ کی مدد کے بغیر
ہوتی ہے جس سے انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ بر صغیر پاک و ہند میں اسلام جن
کے وجود مسعود سے پھیلا اس عظیم ہستی کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار کرامتوں سے
نوازا ۔ جن کے دامن حق پرست سے وابستہ ہوکر ایک قول کے مطابق تقریباً نوے
لاکھ افراد مسلمان ہوئے۔ میری مراد قدوۃالاولیاء ، زبدۃالاصفیاء ،قطب
المشائخ حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز حسن چشتی سنجری رحمۃاللہ علیہ ہیں۔
جس وقت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ ہند میں تشریف لائے اس وقت پرتھوی
راج چوہان کا راج تھا خواجہ غریب نواز رحمۃاللہ علیہ کا سرزمین ہند میں
تشریف لانا ، اپنے اخلاق و کردار سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہِ راست پر
لانا اور لوگوں کا جوق در جوق مسلمان ہونا اسے پسند نہ آیا اور اپنے مذہب
(بت پرستی) اور بالخصوص اپنی حکومت کیلئے خطرہ سمجھتے ہوئے ان کی بقاء کی
خاطراس نے کئی پابندیا ں عائد کیں۔ جن میں سے ایک انا ساگر سے پانی لینے کا
معاملہ تھا۔
چنانچہ حضور خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے ایک خادم ’’انا ساگر‘‘ سے
پانی بھرنے گئے تو خلاف معمول وہاں سپاہیوں کا پہرا تھا۔ جب خادم نے گھڑے
میں پانی بھرنا چاہا تو سپاہیوں نے روک دیا اور سختی کی اور کہا کے راجہ کا
حکم ہے کہ اب تم اس پانی کو ہاتھ نہیں لگاسکتے ،تالاب کے پانی کو گندہ مت
کرو۔ خادم نے کہا کہ پانی تو جانوروں پر بھی بند نہیں کیا جاتا ہم تو پھر
بھی انسان ہیں تو سپاہوں نے کہا کہ تم تو جانوروں سے بھی بد تر ہو۔
خادم نے آکر جب اپنے مرشد و رہبر کو سارا ماجرا سنایا توآپ نے فرمایا
سپاہیوں سے کہو اس مرتبہ ایک گھڑاپانی بھر لینے دو پھر ہم اپنا کوئی اور
انتظام کر لیں گے۔ آپ کے حکم پر خادم دوبارہ پانی لینے گیا تو سپاہیوں نے
مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ آج گھڑا بھر لو پھر اس کے بعد تمہیں یہاں سے پانی
لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ چنانچہ خادم نے حضرت کے حکم کے مطابق وہ گھڑا بھر
لیا۔ راجپوت سپاہوں کے ساتھ ساتھ مسلمان خادم پر بھی حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے
جب انہوں نے دیکھا کہ ’’انا ساگر ‘‘ تالاب کا سارا پانی ایک چھوٹے سے برتن
میں سما گیا ہے۔جس تالاب کا پانی لینے پر انہوں نے مسلمانوں پر پابندی
لگائی تھی اس کا پانی خالی ہوچکا ہے۔ اس قوم کے نزدیک یہ جادوگری کا ایک
عظیم مظاہرہ تھا جب کہ در حقیقت یہ ایک عظیم بزرگ کی ایک کرامت تھی جس پر
انسانی عقل آج بھی محوِ حیرت ہے۔ جسے دیکھ کر ہزاروں لاکھوں کی زندگی میں
انقلاب برپا ہوگیا۔
چنانچہ حیرانگی کے عالم میں آپ کے خادم آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور
آپ کو سارا واقعہ سنایا۔ پورے شہر اجمیر میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ انا ساگر
تالاب خشک ہونے کی خبر سب کے لئے حیران کن تھی ۔ پرتھوی راج مسلمانوں کے
بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ہر حال میں روکنا چاہتا تھا۔ مشیروں نے مشورہ دیا
کہ اس مسلمان فقیر کا مقابلہ ہندو جا دوگر ہی کر سکتے ہیں لیکن اس سے پہلے
شہر اجمیر کے چند معززین انا ساگر تالاب کی سابقہ پوزیشن بحال کرنے کی
استدعا لے کر آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اگر تالاب کا پانی
اسی طرح خشک رہا تو بہت سارے انسان پانی پئے بغیر مر جائیں گے اور جانور
بھی ہلاک ہونے لگیں گے۔
خواجہ خواجگاں ، حامئ بیکساں، خواجہ غریب نواز رحمہ اللہ نے اسلام کی
رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: یہ تو حق کے نافرمانوں کے لئے
ایک چھوٹی سی جھلک ہے ورنہ ہمارا مذہب تو کسی کتے کو بھی پیاس سے تڑپتا ہوا
نہیں دیکھ سکتا۔ یہ فرماکر آپ نے حکم دیا کہ برتن کا پانی تالاب میں واپس
ڈال دیا جائے۔جب گھڑے کا پانی آپ کے حکم سے تالاب میں ڈالا گیا تو لوگ
دیکھ کر حیران رہ گئے کہ تالاب ایک بار پھر پانی سے لبا لب بھرا ہوا ہے۔
اللہ تعالٰی اپنے اولیاء کو یونہی کرامتیں عطا فرماتا ہے جبکہ دوسری طرف
خواجہ غریب نواز رحمۃاللہ علیہ کی طرف سے پرتھوی راج اور اس کے ساتھیوں کے
لئے اس میں یہ ایک بڑا پیغام تھا جسے سمجھنے کے بجائے وہ سر کشی پر اتر
آئے اور مقابلہ میں آگئے ۔ |