پرانے اور روایتی طرز کے بھٹوں کی جگہ ماڈرن زگ زیگ فائرنگ ٹیکنالوجی بھٹے

 امید ہے کہ یہ نیپالی طرز کے ماحول دوست بھٹے پاکستان میں آلودگی کنٹرول کرنے کیلئے ایک بہترین متبادل ثابت ہونگے

ڈیک: اس وقت نیپال، بنگلہ دیش اور انڈیا کے بھٹوں میں زِگ زیگ ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے،اس ٹیکنالوجی کی بدولت وہاں کے بھٹے 70 فیصد کم دھواں چھوڑتے ہیں، کوئلہ بھی 25 سے 30 فیصد کم استعمال ہوتا ہے اور پکی ہوئی اینٹوں کی مقدار اور تعداد بھی زیادہ نکلتی ہے

ڈیک:آئندہ پانچ سالوں میں3 مرحلوں میں بھٹہ مالکان کے ساتھ مل کر کام کیا جائے گا ، فرسٹ فیز میں فری40 ماڈل بھٹے ،سیکنڈ فیز میں 300 مزید ماڈل بھٹے مساوی پارٹنرشپ پربنائے جائیں گے جبکہ تھرڈ فیز میں زیرو انٹرسٹ پر بینکوں سے بھٹہ مالکان کوقرضے دلوائے جائیں گے

اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ’آلودگی ‘ہے جس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں اپنا اثر دکھا رہی ہیں ،کہیں سیلاب و طوفان اور زلزلے شدت اختیار کر گئے ہیں تو کہیں زراعت بری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ کرہ ارض اور اس پر بسنے والی مخلوقات کو 4طرح کی آلودگی سے زیادہ خطرہ ہے،جن میں فضائی آلودگی،زمینی آلودگی،شور کی آلودگی اورآبی آلودگی سر فہرست ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ترقی کے حصول کی جنگ میں حضرت ِ انسان نے ترقی تو خوب پائی،مگرصاف ماحول اور آب وہوا کوترقی کی بھینٹ چڑھا دیا۔اگر ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھا جائے تو دیہات اور گاؤں اپنی تازہ آب و ہوا اورپر سکون ماحول کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے ۔لیکن تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، فیکٹریوں، صنعتوں، لکڑی، کوئلہ اور بڑی بڑی گاڑیوں کے دھوئیں نے جہاں بڑے شہروں کی فضا کو آلودہ کیا وہیں دیہات اور گاؤں بھی اس فضائی آلودگی کا تیزی سے شکار ہوئے ہیں جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔گاڑیوں کا دھواں، صنعتی مائع اخراج، ایندھن کے جلنے، جوہری اخراج، کان کنی کے اخراج، کرم کش زرعی ادویات کے غیر مناسب استعمال، تمباکو نوشی اور گردو غبار سے فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی کو دنیا میں صحت عامہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ ادارہ کی ایک نئی تحقیق کے مطابق دنیا میں مرنے والے ہر آٹھویں فرد کی موت کی وجہ فضائی آلودگی ہے اور دنیا میں ہر سال 55 لاکھ لوگ فضائی آلودگی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ان ہلاکتوں میں بیشتر اموات فیکٹریوں کے دھوئیں، لکڑی اور کوئلے کے زیادہ استعمال کرنے کی وجہ سے ہوتیں ہیں۔اسی طرح فضائی آلودگی کا ایک بڑا ذریعہ ہمارے قرب وجوار میں بننے والے اینٹوں کے بھٹے بھی ہیں۔آپ جیسے جیسے شہر سے دور جاتے جائیں یااکثر جگہ آبادی کے بیچوں بیچ آپ کو اینٹیں پکانے والے بھٹوں کی چمنیوں سے سیاہ دھواں اٹھتا دکھائی دے گا،بچپن میں یہ میرے لیے کافی حیران کن نظارہ تھا ۔تب میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھی کہ یہ حیران دکھنے والا دھواں کس قدر ہماری صحت کا دشمن ہے کیونکہ بھٹوں پر اینٹیں پکنے کے دوران مختلف قسم کی گیسیں خارج ہوتی ہیں جن میں کاربن مونو آکسائیڈز اور سلفیورک آکسائیڈ شامل ہیں جو آنکھوں،دمہ،کھانسی،سینہ،الرجی،سانس ، کینسر اور گلے کی بیماریوں کے مرض کا باعث ہے،نیز ایسی فضائی آلودگی بالخصوص بچوں کی ذہنی اور جسمانی بڑھوتری کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

ویسے تو بھٹوں سے نکلنے والا دھواں خطرناک ہو تا ہے مگر کچھ بھٹہ مالکان پیسے بچانے کے چکر میں انسانی جانوں سے کھیلنے سے بھی باز نہیں آتے۔ اگر بھٹہ مالکان کوئلے کو ہی بطور ایندھن استعمال کریں تو وہ اتنا نقصان دہ نہیں جتناربڑ، ٹوٹے ہوئے جوتے، توڑی یا بھوسہ کو استعمال کرناہے۔یعنی بعض بھٹہ مالکان بھٹے پر کوئلے کے علاوہ ربڑ، ٹوٹے ہوئے جوتے، توڑی یا بھوسہ اور لکڑی کا بھورا اینٹیں پکانے کے لیے استعمال کرتے ہیں جس سے بھٹے سے نکلنے والا دھواں چار گنا زیادہ زہریلا ہو جاتا ہے صرف یہی نہیں بلکہ ایسے بھٹے میں بننے والی اینٹیں مکمل طور پر نہیں پکتی جس کے نتیجے میں عمارتوں میں نقصانات کا خطرہ رہتا ہے۔چونکہ کوئلہ انہیں تقریباً نو ہزار روپے ٹن ملتا ہے جبکہ بْورے کا ریٹ تقریباً تین سو روپے من ہے۔ربڑ اور ٹوٹے ہوئے جوتے استعمال کرنے والے بھٹہ مالکان جتنے میں ایک ٹن کوئلہ خریدتے ہیں اتنے میں اڑھائی لاکھ اینٹیں بنا لیتے ہیں۔اسی لیے وہ پیسہ بچانے کے لیے انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالنے سے گریز نہیں کرتے۔
ایسے بھٹہ مالکان کے لیے حکومت پاکستان نے بہت سے قوانین مرتب کئے،مگر پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں قوانین تو بنا دئیے جاتے ہیں مگر ان پر عمل ہوتا نظر نہیں آتا۔ بھٹوں کے حوالے سے ماحولیات ایکٹ 1934ء میں منظور ہوا تو فضائی آلودگی پھیلانے والے بھٹوں کو 100 سے 500 روپے تک کا جرمانہ کیا جاتا تھا۔ زہریلا دھواں اگلنے والے بھٹوں کو عدالت پہلی بار6 ماہ کی وارننگ دیتی تھی جبکہ دوسری بار قانون کی خلاف ورزی کرنے والے بھٹوں کے کیس (این ای کیو ایس) لیگل سیشن لاہور بھیجے جاتے تھے۔ بعدازاں پنجاب ماحولیات ایکٹ 2012 بل سامنے آیا جس کے تحت اینٹیں بنانے والے بھٹہ خشت جن پر 40فیصد سے زیادہ کالا زہریلا دھواں اگلا جا رہا ہو ایسے بھٹہ مالکان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔بھٹے سے نکلنے والے دھوئیں کو مخصوص آلہ سے ماپا جاتا ہے۔ خلاف ورزی کرنے والے بھٹوں پر کچھ دن تک رپورٹ تیار کر کے بھٹہ مالک کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے نیز زہریلا دھواں اگلنے والے بھٹوں کو عدالت پہلی بار 6 ماہ کی وارننگ دیتی ہے جبکہ دوسری بار قانون کے خلاف ورزی کرنے والے بھٹوں کے کیسز (این ای کیو ایس) نیشنل انوائیرمنٹ کوالٹی سٹینڈرڈ لیگل سیشن لاہور بھیج دیتی ہے۔جہاں خلاف ورزی کرنے والے بھٹے مالک کو پچاس لاکھ روپے تک کا جرمانہ اور دو سال تک سزا ہو سکتی ہے۔ان قوانین کی موجودگی کے باوجودبھٹوں سے نکلنے والا دھواں ناصرف ماحول کو آلودہ کر رہا ہے بلکہ مسائل میں روز بروز اضافہ کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے 2سال سے پاکستان کے بڑے شہر اکتوبر، نومبر اور دسمبرمیں سموگ کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔نیز آئے روزاینٹوں کے درجنوں بھٹے تحصیل فیروزوالا‘ مریدے، شرقپور ہالا،ساندان،کھنڈو، ہالااولڈ، بھٹ شاہ ،مناواں سمیت دیگر علاقوں کے متعلق خبریں اخبارات کی زینت بنتی نظر آتیں ہیں کہ ان علاقہ جات میں رہائش پذیر افراد سانس، دمہ،سینے کے امراض ہیپاٹائٹس،جلد ،آنکھ کی بیماریو ں میں مبتلا ہو رہے ہیں،اور دن بدن یہ صورتحال مزید ابتر ہوتی جار ہی ہے۔ یہ بھی انکشاف سامنے آیا تھا کہ مذکورہ بھٹوں پر کم سن بچوں کے علاوہ افغانی مزدورں کی بڑی تعداد کام کرتی ہے جوخودبھی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہیں، بھٹہ مالکان کم اجرت پرغریب خاندانوں سے بیگار لیتے ہیں۔بھٹوں سے اٹھنے والا دھواں نا صرف انسانی زندگی کے لیے خطرناک ہے بلکہ اس سے درختوں کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے۔ زرعی سائنسدانوں کے مطابق اینٹوں کے بھٹوں کے باعث آم کے باغات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ حالیہ تحقیق کے مطابق بھٹوں سے نکلنے والا سیاہ دھواں سلفر ڈائی آکسائیڈ، ہائیڈروجن فلورائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ جیسی زہریلی گیسوں کا آمیزہ ہوتا ہے۔ یہ گیسیں جہاں دیگر زرعی فصلوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں وہیں آم کے باغات کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا موجب بنتی ہیں۔انہی تمام مسائل کے حل اور شکایات کو ختم کرنے کے لیے محکمہ ماحولیات حکومت پنجاب پچھلے کچھ عرصہ سے بھٹوں کو جدید ٹیکنالوجی میں منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔اس سوچ کو عملی جامہ پہننانے میں صوبائی وزیر محکمہ تحفظ ماحول پنجاب بیگم ذکیہ شاہنواز نے اہم کردار ادا کیا۔ 13مارچ 2018کومحکمہ تحفظ ماحولیات کے دفتر قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ڈائریکٹر جنرل ماحولیات چوہدری آصف اقبال کی سربراہی میں آل پاکستان بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن سے میٹنگ کا اہتمام کیا گیا۔جس میں 10 ہزار 300 بھٹوں کو ماڈرن بھٹہ زگ زیگ فائرنگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس دوران پرانے بھٹوں کی جگہ جدید بھٹوں کو متعارف کرانے کے حوالے سے مختلف خدشات، مسائل اور دیگر پہلوؤں کو زیر بحث لایا گیا۔اجلاس میں بیگم ذکیہ شاہنواز نے فوری طور پر ہدایات جاری کیں کہ صوبہ بھر میں ساڑھے 10 ہزار پرانی ٹیکنالوجی کے غیر معیاری آلودگی کا باعث بننے والے اینٹوں کے بھٹوں کو فورا بند کر دیا جائے نیز نئے تعمیر ہونے والے روایتی بھٹوں کی تعمیرکو بھی فوری روک دیا جائے اور کوئی بھٹہ مالک محکمہ تحفظ ماحول سے اجازت لیے بغیر بھٹہ تعمیر نہ کرے کیونکہ تحفظ ماحول ایکٹ 1997ء کے تحت ماحولیاتی منظوری لینا اس ایکٹ کے سیکشن 12کے تحت ضروری ہے اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ آلودگی کو ختم کرنے کے لیے پاکستان میں پہلا ماحول دوست بھٹہ خشت قائم کردیا گیا ہے ۔جو’’زگ زیگ فائرنگ پریکٹس اینڈ برکس پروڈکشن ‘‘کے زیر انتظام رائے ونڈ میں قائم کیا گیا ہے۔ رائے ونڈ میں بنواکرام برکس پر اس نئی ٹیکنالوجی کی تنصیب سے پاکستان بھر کے بھٹہ خشت مالکان کو ایک نئی راہ ملے گی۔انہوں نے ایسوسی ایشن سے اس بات پر اتفاق کیا کہ حکومت نئی ماحول دوست ٹیکنالوجی پر بھٹوں کی منتقلی کے معاملہ پر مکمل تعاون کرے گی اوراس ضمن میں ہر طرح کی امداد فراہم کی جائے گی۔اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ نومبر اور دسمبر کے مہینہ میں سموگ سے بچاؤ کیلئے پرانی ٹیکنالوجی کے بھٹوں کو دو ماہ کیلئے بند رکھا جائے گا نیز انہوں نے آل پاکستان بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے صدرشعیب خان نیازی کی نئے زگ زیگ ٹیکنالوجی ماڈل بھٹہ لگانے پر ان کی اور ان کی ایسوسی ایشن کی خدمات کو سراہا۔ شعیب خان نیازی نے صوبائی وزیر ماحول کو بتایا کہ نئی ٹیکنالوجی بھٹہ سے ناصرف ایندھن میں 30سے40فیصد تک بچت ہورہی ہے بلکہ اچھی کوالٹی کی اینٹیں بھی زیادہ مقدار میں بن رہی ہیں۔ اس ٹیکنالوجی سے چونکہ ایندھن بہتر طریقہ سے استعمال ہوتا ہے لہذا آلودگی میں بھی کمی ہوتی ہے اور ایندھن کی بھی بچت ہوتی ہے۔ نیز انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر تربیت یافتہ انجینئر فراہم کر دیئے جائیں تو کم وقت میں بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کر لیا جائے گا۔ شعیب خان نیازی نے اس ٹیکنالوجی پر اعتماد کا اظہار کیا کیونکہ ان کی ٹیکنیکل ٹیم کھٹمنڈو کا دورہ کرکے تمام تیکنیکی عوامل پر غور کرچکی ہے اور اس ٹیکنالوجی کا ایک بھٹہ رائے ونڈ میں تعمیرکے بعد اپنا کام سر انجام دے رہا ہے۔

واضح رہے کہ توانائی کے بحران اور ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لئے نیپال کے تعاون سے پاکستان میں پہلا ماحول دوست بھٹہ خشت رائیونڈ روڈ پر قائم کیا جا چکا ہے جس کا افتتاح 18جنوری 2018کو بیگم ذکیہ شاہ نواز نے کیا تھا ،افتتاح سے قبل ماہرین پر مشتمل ٹیم نے بارہااسکی کارکردگی کو چیک کیا تھا افتتاح کے موقع پر واضح کیا گیا تھا کہ محکمہ تحفظ ماحول کی جانب سے ٹرائل پر چلنے والے اس بھٹے کا مسلسل تجزیاتی جائزہ لیا جاتارہا اس کی کامیابی کے بعد اب پنجاب کے سارے بھٹوں کو نئی ٹیکنالوجی پر شفٹ کر دیا جائے گا۔ یہ جدید ٹیکنالوجی خصوصی طور پر نیپال سے منگوائی گئی ہے ۔بہت سے مالکان نیپال سے پہلے سے ہی ان بھٹوں کی آپریشنل ٹریننگ حاصل کرچکے ہیں۔ اس کے ذریعے نہ صرف اے کلاس اینٹوں کا حصول ممکن ہو سکے گا بلکہ اس میں جلنے والا ایندھن مکمل طور پر جل کر ہمیں اقتصادی میدان میں سہارا دینے کا باعث بنے گا اس ماحول دوست بھٹے کامقصدسارے بھٹوں کوبھٹہ ایسوسی ایشن کے تعاون سے پرانی طرز کے بھٹوں سے نئی ماحول دوست بھٹہ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنا ہے اس کے استعمال سے فضا میں کاربن کااخراج کم سے کم ہوگا اور دھواں بھی سیاہ نہیں ہوگا۔ اس میں 40 سے60 فیصد تک لاگت کم آتی ہے اور پیدا وار بہت زیادہ ہوتی ہے۔سیکرٹری تحفظ ماحول ریٹائرڈکیپٹن سیف انجم نے افتتاح کے موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ آئندہ پانچ سالوں کے لیے پائلٹ پروگرامز کے ذریعے ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جن میں برک کلن کی آلودگی پر بھی کام کرنا شروع کر دیا گیا ہے آئندہ پانچ سالوں میں3 مرحلوں میں بھٹہ مالکان کے ساتھ مل کر کام کیا جائے گا ۔ فرسٹ فیز میں فری40 ماڈل بھٹے ،سیکنڈ فیز میں 300 مزید ماڈل بھٹے مساوی پارٹنرشپ پربنائے جائیں گے جبکہ تھرڈ فیز میں زیرو انٹرسٹ پر بینکوں سے بھٹہ مالکان کوقرضے دلوائے جائیں گے غرضیکہ آ ئندہ پانچ سالوں میں فل گرانٹ اور میچنگ گرانٹ دی جائے گی نیز ہر طرح کی فنی معاونت بھی فراہم کی جائے گی۔ محکمہ بہت عرصے سے فضا میں آلودگی پیدا کرنے والے بھٹوں کو جدید اور بہترین لائحہ عمل دینے اور اس حوالے سے متبادل طریقہ کار وضع کرنے سے متعلق سرگرم عمل رہا ہے۔افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نیپالی سفیر مس بندیا کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمارا دوست ملک ہے یہاں ماحولیاتی آلودگی سب بڑا مسئلہ ہے بھٹہ خشت ایک صنعت کی شکل میں موجود ہے جس کے مسائل میں مزید اضافہ ہوتا جارہا تھا بھٹہ خشت کو کوئلے کی کھپت سے بچانے کے لئے گیس کے ذریعے نئی ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی ہے۔ان دیکھنا یہ ہے کہ نیپال کے تعاون سے محکمہ تحفظ ماحول اور بھٹہ ایسوسی ایشن پاکستان میں جو اقدام کرنے جا رہی وہ کس حد تک ماحول دوست ثابت ہو گا اور کیا پاکستانی عوام بھی نیپالیوں کی طرح سکھ کا سانس لے سکے گی ۔امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں موجودتقریبا 20 ہزار سے زائد بھٹوں کوزگ زیگ فائرنگ ٹیکنالوجی پر منتقل کر کے ماحولیاتی آلودگی کو بڑی حد تک کنٹرول کر لیا جائے گا۔

باکس:اینٹیں عمارتوں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔پاکستان جنوبی ایشیا میں اینٹیں بنانے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔پاکستان میں تقریباََ 20 ہزار اینٹوں کے بھٹے ہیں جو ایک سال میں 45 ارب اینٹیں بناتے ہیں جبکہ20ہزار میں سے سب سے زیادہ یعنی 10ہزار 3سوبھٹے صرف پنجاب میں پائے جاتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق تقریباََ50 لاکھ مزدور ان بھٹوں پر کام کرتے ہیں۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان کا شمار ایشیاء کے آلودہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ اس وقت نیپال، بنگلہ دیش اور انڈیا کے بھٹوں میں زِگ زیگ ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے۔اس ٹیکنالوجی کی بدولت وہاں کے بھٹے 70 فیصد کم دھواں چھوڑتے ہیں۔ کوئلہ بھی 25 سے 30 فیصد کم استعمال ہوتا ہے اور پکی ہوئی اینٹوں کی مقدار اور تعداد بھی زیادہ نکلتی ہے۔زِگ زیگ بھٹہ پاکستانی بھٹے سے ملتا جلتا ہے۔پاکستانی بھٹے میں مناسب تبدیلیاں کر کے صرف 25 لاکھ کی لاگت سے اسے زگ زیگ بھٹے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ریسرچ کے مطابق اگر حکومت بھٹہ مالکان کو 50 فیصدامدادی رقم دے دے تو 20 سے 25 ارب روپے میں پاکستان کے 20ہزار بھٹے زگ زیگ بھٹوں میں بدل جائیں گے۔

باکس:نیپال کے ماحول دوست بھٹے
بھٹہ ٹیکنالوجی میں نیپال بھی پاکستان سے آگے ہے۔نیپال کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا تھا جو اینٹوں کے بھٹوں سے اٹھنے والے دھواں سے شدید مسائل میں مبتلا تھے۔وہاں 2015 میں آنے والے زلزلے سے بیشتر بھٹے تباہ ہو گئے تھے جن کو دوبارہ تعمیر کیا جا رہا ہے۔ تاہم اس بار انھیں ماحول دوست بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔اب ان بھٹوں سے سیاہ کی بجائے سرمئی دھواں اٹھتا ہے ،کیونکہ کوئلہ اب بہتر طریقے سے جلتا ہے اور کم آلودگی پھیلتی ہے۔ان زگ زیگ ٹیکنالوجی سے مزین بھٹوں میں کچی اینٹوں کو درمیان فاصلہ رکھا جاتا ہے تاکہ ہوا کو ان کے درمیان گزرنے کا موقع ملتا رہے۔اس کے علاوہ زیادہ آکسیجن کی وجہ سے آگ تیزی سے بھڑکتی ہے جس سے زیادہ کوئلہ جلتا ہے اور اینٹیں اچھی طرح پکتی ہیں۔اینٹوں کے ایک بھٹے کی دوبارہ تعمیر پر ڈیڑھ لاکھ ڈالر کا خرچ آتا ہے۔گزشتہ برس تک نیپالی افراد کے پھیپھڑے ہفتے میں 6دن زہریلے بخارات سے بھرے رہتے تھے،وہ لوگ جب کھانستے تو بلغم کے ساتھ کالے ذرات تھوکتے تھے جس کی شرح اب بہت کم ہو گئی ہے اسی لیے اب وہاں کے لوگ سوچتے ہیں کہ ایک ماحول دوست بھٹہ طویل المدتی منصوبے میں کاروبار کے لیے بہت بہتر ہے اب جبکہ صحت کے حوالے سے فوائد نمایاں ہیں اب کوشش کی جارہی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کا دائرہ پھیلایا جائے۔

باکس:نسیم الرحمن شاہ ترجمان محکمہ تحفظ ماحول پنجاب نے بتایا کہ اس وقت تقریباً10ہزار3سو اینٹوں کے بھٹے پنجاب کے مختلف اضلاع میں کام کررہے ہیں ،یہ اینٹوں کے بھٹے ہیئت کے حساب سے چھوٹے پراجیکٹ ہونے کے باوجود بہت زیادہ آلودگی پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔یہ روایتی بھٹے تقریباً ایک جیسی ٹیکنالوجی پر مشتمل ہیں ان کی چمنی تقریباً60فٹ اونچائی کی ہے اور پاکستان بننے سے لے کر اب تک ان میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں لائی جاسکی جس کی وجہ سے نہ تو ان کی آلودگی کنٹرول کرنے کیلئے کوئی متبادل انتظام ہوا جبکہ یہ بھٹہ مالکان کے لیے زائد اخراجات کا باعث بھی ہیں۔اس کے تکنیکی قابل عمل حل کی تلاش کے لیے ماضی میں مختلف آپشنز پر غور بھی کیا گیا اور کام بھی کیا گیا مگر اس ضمن میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔تاہم اب بھٹہ خشت مالکان ایسوسی ایشن نے حکومت اور آئی سی موڈ کے تعاون سے کھٹمنڈو (نیپال)کا دورہ کیا اور وہاں پر نئے زگ زیگ ٹیکنالوجی والے بھٹوں کا جائزہ لیا۔ ان نیپالی بھٹوں کی آلودگی پاکستان کے روایتی بھٹوں سے تقریباً 70فیصد کم ہے اور ان کی فیول کارکردگی بھی تقریباً 40فیصد بہتر ہے ،اس ماحول دوست بھٹے کامقصدسارے بھٹوں کو نئی ٹیکنالوجی پر منتقل کرنا ہے کیونکہ اس سے اے کلاس اینٹیں تیار ہوتی ہیں اورفیول مکمل طور استعمال ہوتا ہے اس طرح ماحول میں کاربن کااخراج کم سے کم ہوتا ہے اور دھواں بھی سیاہ نہیں ہوتا۔ اس میں 40 سے60 فیصد تک لاگت کم آتی ہے اور پیدا وار بہت زیادہ ہوتی ہے ۔لہذا یہ نیپالی طرز کے زگ زیگ بھٹے آلودگی کنٹرول کرنے کیلئے ایک بہترین متبادل ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کا تجربہ پہلے ہی نیپال میں کیا جاچکا ہے۔
 

Ishrat Javed
About the Author: Ishrat Javed Read More Articles by Ishrat Javed: 70 Articles with 92506 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.