سیاست، صحافت اور کثافت

پہلے بھی لکھا جا چکاکہ صحافت عبادت ہے ،شرط مگر یہ کہ کثافت سے پاک ہو۔ صحافی کا قلم معاشرے کی اصلاح کے لیے اُٹھتا ہے اور موادِبَد کے لیے نشتر کا کام کرتا ہے۔ اِس لحاظ سے یہ شعبہ انتہائی پاکیزہ ہے جو ہمارے نزدیک عین عبادت ہے لیکن ہمارے ہاں تو صحافت میں کثافت ہی کثافت ہے جس نے اِس شعبے کو اتنا بدنام کیا کہ اب صحافی کا قلم اپنا اعتبار کھوتا جا رہا ہے۔ انگلیوں پہ گِنے چند لکھاریوں کو چھوڑ کر باقی سب جھوٹ کی آڑھت سجائے ’’بکاؤ مال‘‘ جِن کا اپنا اپنا قبلہ اور اپنا اپنا کعبہ۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ صحافت میں یہ کثافت الیکٹرانک میڈیا کے اُن اینکرز کی وجہ سے آئی جو ریٹنگ کے شوق اور اپنے ممدوح کی خوشنودی کی خاطر جھوٹ بولتے اور چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھاتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود اُنہی میں سے ایک ہے جو 2002ء کے انتخابات میں نمودار ہوا ور پھر اپنے جھوٹ کے سہارے میڈیا پر چھاتا چلا گیا۔

قصور میں معصوم بچی زینب کے ریب اور قتل کے حوالے سے شاہد مسعود نے ایسے خوفناک انکشافات کیے کہ سپریم کورٹ کو اَز خود نوٹس لینا پڑا۔ شاہد مسعودنے اپنے پروگرام میں کہا کہ اگر اُس کا کہا جھوٹ ثابت ہو تو اُسے پھانسی دے دی جائے۔ سپریم کورٹ میں پیشی کے پہلے موقعے پر حامد میر سمیت کئی اینکرز نے اُسے معافی مانگنے کو کہا لیکن وہ اپنی بات پر اَڑا رہا۔ اُس مغرور ومتکبر انسان نے یہ تک نہ سوچا کہ کل کلاں جب اُس کے جھوٹ کا پردہ فاش ہو گاتو شعبۂ صحافت کی کیا حیثیت رہ جائے گی۔ جب انکوائری ہوئی تو ڈاکٹر شاہد مسعود کا کہا صریحاََ جھوٹ نکلا۔

20 مارچ کو سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر یہی متکبر انسان سپریم کورٹ کی منتیں تَرلے کرتا اور معافیاں مانگتا نظر آیا لیکن چیف جسٹس صاحب نے انتہائی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’اِس میں بڑا تکبّر ہے ۔اِس نے جِس غرور سے بات کی تھی ،اُسی پر جے آئی ٹی بنائی گئی لیکن اب بھی یہ ہاتھ ہلا ہلا کر باتیں کر رہا ہے‘‘۔ بعد ازاں شاہد مسعود نے کہا کہ وہ شرمندہ ہے اور دِل کی گہرائیوں سے معافی کا طلبگار۔ جس پر چیف جسٹس صاحب نے کہا ’’ڈاکٹر صاحب ! میں آپ کے دِل کی گہرائیوں کو خوب جانتا ہوں، بہت عرصے سے آپ کے دِل کی گہرائیوں کو سُن رہا ہوں‘‘۔پھر عدالت نے اینکر کا معافی نامہ قبول کرتے ہوئے اُس کے پروگرام پر 3 ماہ کی پابندی لگا دی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی گندی مچھلیوں کو تو نشانِ عبرت بنا دینا چاہیے۔ وہ تین ماہ بعد پھر اپنے جھوٹ کا سہارا لے کر لوگوں کو گمراہ کرتا نظر آئے گا۔ اُس پر پیمرا نے پہلے بھی 45 دنوں کی پابندی لگائی تھی لیکن جونہی پابندی کا عرصہ تمام ہوا، وہ ایک دفعہ پھر جھوٹ کی آڑھت سجا بیٹھا۔اِس لیے ہماری استدعا ہے کہ اُس پر تاحیات پابندی لگائی جائے۔اگر سپریم کورٹ ایسا نہیں کر سکتی تو الیکٹرانک میڈیا مالکان اُس پر ٹی وی چینلز کے دروازے بند کر دیں۔

صرف ڈاکٹر شاہد مسعود ہی نہیں اور بھی کئی اینکر ایسے ہیں جو اپنے ممدوحین کی مدح میں رطب اللساں رہتے ہیں۔ سچ اور کڑوا سچ تو یہی کہ پاکستان میں جھوٹ میں سے سچ نتھارنا اب تقریباََ ناممکن ہوچکا ۔ یہ سب ہمارے اہلِ سیاست کی دَین ہے جو محض حصولِ اقتدار کی خاطر جھوٹ پہ جھوٹ بول کر قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ کپتان کا یوٹرن تو اب اتنا مشہور ہو چکا کہ ایک دفعہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ جہاں سڑک پر یوٹرن ہو ،وہاں عمران خاں کی تصویر لگا دی جائے، لوگ خود ہی سمجھ جائیں گے۔ لال حویلی والے شیخ رشید احمد کی پیشین گوئیوں کا سب کو علم ہے ۔اُسے تو اﷲ تعالےٰ نے سچ بولنے کی توفیق ہی نہیں دی۔ آصف زرداری کی کرپشن کے قصّے جابجا اور میاں نوازشریف بھی پاناماکیس میں نااہل ہوچکے، البتہ اُن کی نااہلی ابھی تک متنازع ہے کیونکہ اُنہیں پاناما نہیں اقامہ پر نااہل کیا گیا۔ پاناما کا کیس ابھی تک احتساب عدالت میں ہے جس میں اکابرینِ نوازلیگ کے مطابق تاحال کچھ بھی ثابت نہیں ہوسکا۔ جے آئی ٹی کی طرف سے بھیجی گئی رپورٹ کو بنیاد بنا کر نیب نے جو ریفرنس دائر کیا تھا ،اُس کے فیصلے کے لیے چھ ماہ کی مدت مقرر کی گئی تھی جو تمام ہو چکی اور ملا ’’کَکھ‘‘ بھی نہیں۔ اِسی لیے نیب نے ’’فَٹا فَٹ‘‘ ضِمنی ریفرنس تیار کیا اور سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو فیصلے کے لیے مزید 2 ماہ کی مہلت دے دی۔ میاں نوازشریف نے کہا’’ نیب ریفرنسزکا حال دلیپ کمار کی فلم جیسا ہے کہ بیوی کو جب پیار نہ ملا تو اُس نے دلیپ کمار کے بیڈروم کو ہی آگ لگا دی۔ نئے ریفرنس میں پہلے ریفرنس کا خول چڑھا دیا گیا ۔ نیا ریفرنس دائر کرنے کی کیا ضرورت تھی ،جب پہلے کچھ نہیں نکلا ۔ پہلے چھ ماہ میں کونسی چیز ثابت ہوئی جو ڈیڑھ ماہ میں ثابت ہو جائے گی‘‘۔

میاں نوازشریف اور مریم نواز اپنے ہر خطاب میں یہی کہتے رہتے ہیں کہ پاناما کیسز میں میاں نوازشریف کا نام تک نہیں تھا لیکن اُنہیں اُس اقامے کو بنیاد بنا کر نااہل کر دیا گیا جس کا کوئی مدعی نہیں۔ عمران خاں نے پہلے تو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کی تعریف وتوصیف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے اور مٹھائیاں بانٹیں لیکن بعد میں یہ کہتے نظر آئے کہ نااہلی کا فیصلہ کمزور بنیادوں پر تھا، اِسی لیے میاں نوازشریف کو باہرنکلنے کا موقع مل گیا۔ اب تو سپریم کورٹ بھی کمزور فیصلے کی قائل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ شیخ رشید نااہلی کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فرمایا ’’ پاناما کیس میں معاملہ لندن فیلٹس کا تھا ،نااہلی اقامہ پر ہوئی۔ پاکستان میں تو الیکشن لڑنا بہت مشکل ہوگیا ہے ۔کاغذاتِ نامزدگی بھرنا ہی مشکل کام ہے۔ فلیٹس کی بجائے اقامہ پر نااہل کرکے طے کر دیا گیا کہ غلطی کی سزا نااہلی ہو گی۔ اگر شیخ رشید قصوروار ثابت ہوئے تو نااہل ہو جائیں گے‘‘۔ اگر غلطی کو بنیاد بنا کر شیخ رشید کو نااہل کر دیا جاتا ہے تو ہم کہیں گے ’’خَس کم ،جہاں پاک‘‘۔ قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے ریمارکس سے کم اَز کم یہ تو ثابت ہو گیا کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کی بنیاد واقعی کمزور تھی لیکن یہاں مسٔلہ یہ آن پڑا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف صرف اﷲ سے ہی اپیل کی جا سکتی ہے اور وہ جو نظرِ ثانی کی اپیل ہے وہ تو بَس ’’اَیویں ای‘‘ ہوتی ہے کیونکہ وہ اپیل ، اُسی بنچ کے سامنے دائر کی جاتی ہے ،جس نے فیصلہ کیا ہوتا ہے۔ اِس لیے لامحالہ یہ اپیل مسترد ہی ہوتی ہے ۔

حرفِ آخر یہ کہ ایم ایم اے ایک دفعہ پھر بحال ہو چکی۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے اِس کی بحالی کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہو سکی تھیں لیکن دینی جماعتیں اب ایک دفعہ پھر ایم ایم اے کے پرچم تلے عام انتخابات میں حصّہ لینے جا رہی ہیں۔ 2002ء میں ایم ایم اے نے محیرالعقول کامیابی حاصل کی تھی لیکن وہ کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکی جس کی واحد وجہ جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی سوچوں میں بُعد تھی۔ جماعت اسلامی کے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے باوجود مولانا فضل الرحمٰن ڈَٹے رہے اور اِس طرح ایم ایم اے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔ اب مولانا فضل الرحمٰن کو ایم ایم اے کا صدر منتخب کر لیا گیا ہے اور ہمارے لیے انتہائی محترم بھائی لیاقت بلوچ اِس کے جنرل سیکرٹری۔ ہم اُن کی کامیابی کے لیے دُعا گو ہیں۔

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 642577 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More