میرا خیال ہے اب ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ارتقا کے
عمل سے گُزرتے ہوۓ کاغز اور قلم کی شکل جو آج ہے وہ ہزار سال یا اُس سے
پہلے کچھ اور تھی اور اب بتدریج قلم کی پیڈ اور کتاب اسکرین کی شکل میں
آہستہ آہستہ ڈھل رہی ہے اور زہن میں برسوں کی جمی اب اسی صورت پگھل رہی ہے
اور جو چیز اور جو موبائل سیٹ یا کمپیوٹر کی کوئ بھی شکل ہر وقت ہاتھوں میں
اور ہر عمر اور ہر طبقے کے ہاتھوں میں موجود ہے اس میں ادب کا داخلہ ناگزیر
ہو چُکا ہے اگر ہم نے ادب کو زندہ رکھنا ہے اور اگلی نسل میں منتقل کرنا ہے
اور کیا جا رہا ہے اور جس کو کتاب کا شوق نہیں اُس کو بھی اگر چھوٹی چھوٹی
عبارت اور چند اشعار کے زریعہ ہی سہی اور پرانی انسان دوست اور دانا تہزیب
کو نئ ٹیکنولوجی کے ذریعہ متعارف کروایا جاسکتا ہے اور نئ تہزیب کو مہزب
بنانے کا کام کیا جاسکتا ہے اور بے لگام گھوڑے کو لگام دیا جاسکتا ہے یا
منہ زور گھوڑے کی باگیں کسی جاسکتی ہیں اور سوہنی گَلاں دَسی جاسکتی ہیں
اور اصلاحی باتیں کہی جاسکتی ہیں -
میرا زاتی خیال تو یہی ہے کہ کتاب کی جگہ تو نہیں لی جاسکتی جس کی اپنی
افادیت اور اپنا ہی اثر ہے اور الگ ہی لُطف ہے لیکن نئ نسل کو کتاب سے
روشناس کروانے میں اور ادب سے ایک تعارف میں نئ ٹیکنولوجی کو استعمال کیا
جا سکتا ہے اور اگر اون لائن تحریر اور اون لائن ادب سے کچھ دلچسپی پیدا ہو
گئ تو کتاب پڑھنے اور لکھنے تک بھی رسائ کا امکان پیدا کیا جاسکتا ہے- |