خاموشیوں میں ایک آواز ہے جو کبھی سنی نہیں جاتی، ایک فریاد ہے جو لفظوں سے باہر ہے، اور ایک خلا ہے جو مکمل وجود کو نگل جاتا ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جہاں انسان کا سب کچھ لُٹ چکا ہوتا ہے، اور جو باقی بچتا ہے وہ محض سانسوں کا بوجھ ہوتا ہے۔ بظاہر زندگی رواں دکھائی دیتی ہے، مگر اندر کوئی ٹوٹا ہوا سا بوسیدہ کمرہ ہوتا ہے جس میں صرف یادیں رہ گئی ہوتی ہیں۔ اور ان یادوں کا بوجھ، وقت کے ساتھ ہلکا ہونے کے بجائے اور گہرا ہو جاتا ہے۔ وہ لمحے جو کبھی خوشبو تھے، اب دھند کی صورت یادوں میں بسیرا کیے بیٹھے ہیں۔ کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ مدھم نہیں پڑتیں، بلکہ اور واضح ہو جاتی ہیں۔ جیسے جیسے دن گزرتے ہیں، وہ یادیں تصویروں کی طرح آنکھوں کے سامنے آتی ہیں، کبھی دھندلی، کبھی بےحد روشن۔ اور ہر بار دل ایک نیا زخم کھا لیتا ہے، جیسے وہ واقعہ ابھی ابھی پیش آیا ہو۔ کبھی کبھی محبت ایسی جگہ لے آتی ہے جہاں واپس مڑنے کا کوئی رستہ نہیں ہوتا۔ اُس کے بعد کچھ ایسا چھِن جاتا ہے جو دوبارہ حاصل نہیں ہوتا۔ نہ نئی محبت سے، نہ وقت کے مرہم سے۔ روح میں ایک خلا جنم لیتا ہے، ایک عجیب سنّاٹا، جسے لفظ بیان نہیں کر سکتے۔ کوئی جتنا بھی کہے، جتنا بھی لکھے، وہ اندر کی ٹوٹ پھوٹ لفظوں میں نہیں سما سکتی۔ کچھ کیفیات صرف محسوس کی جا سکتی ہیں اور جب وہ کیفیت حد سے بڑھ جائے تو انسان خود کو پہچاننا چھوڑ دیتا ہے۔ وجود سے اپنی ہی ذات کا رشتہ کٹنے لگتا ہے۔ ہر دن ایک نیا بوجھ لے کر آتا ہے، اور ہر رات ایک نئی محرومی۔ انسان باہر سے جوں کا توں دکھائی دیتا ہے، مگر اندر ایک سنسان قبرستان سا آباد ہوتا ہے، جہاں جذبات دفن ہو چکے ہوتے ہیں۔ وہ شخص جو کل ہنستا تھا، اب محض خاموشی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اور وہ خاموشی، دراصل، چیخ ہوتی ہے، مگر ایسی چیخ جس کی کوئی صدا نہیں۔ انسان جتنا کچھ کہنا چاہتا ہے، اُتنا ہی زیادہ خاموشی اُسے گھیر لیتی ہے۔ وہ الفاظ جو کبھی جذبات کے اظہار کا ذریعہ تھے، اب بوجھ بن جاتے ہیں۔ ہر جملہ بے معنی لگتا ہے، جیسے لکھنے کا مقصد ہی کھو گیا ہو۔ ایک وقت آتا ہے جب تحریر بھی تھک جاتی ہے، اور دل قلم سے کہتا ہے: ”اب کچھ نہ لکھ، یہ دکھ اب سمجھائے نہیں جاتے۔“ محبت جب بے وفائی میں نہ بدلے بلکہ اچانک چھِن جائے، جیسے کسی نے ہوا سے آکسیجن چُرا لی ہو، تو انسان سانس لیتے ہوئے بھی مرنے لگتا ہے۔ وہ کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں پاتا، کیونکہ سننے والا کوئی باقی ہی نہیں رہتا۔ جو سمجھ سکتا تھا، وہی تو چلا گیا۔ اب صرف بے معنی جملے رہ جاتے ہیں، اور ایک طویل خاموش جدائی۔ کچھ لوگ جاتے ہیں، مگر اُن کا جانا صرف جسمانی نہیں ہوتا۔ وہ اپنے ساتھ کچھ ایسا لے جاتے ہیں جو اصل میں ہمارا ہوتا ہے: ہمارا سکون، ہماری خوشی، ہماری پہچان۔ اور پھر جو باقی رہتا ہے، وہ محض ایک سایہ ہوتا ہے۔ ایک ادھورا وجود، جو صرف ماضی کی بازگشت میں جیتا ہے، ہر لمحہ اسی ایک سوال کے ساتھ: ”کیا واقعی وہ سب کچھ ختم ہو گیا؟“ نہ نیندیں باقی رہتی ہیں، نہ خواب۔ نہ دل کسی نئی مسکراہٹ کو قبول کرتا ہے، نہ کسی نئے چہرے پر ٹھہرنے کو تیار ہوتا ہے۔ انسان خود سے خفا ہو جاتا ہے، زندگی سے لاتعلق۔ اور اُس لمحے، محبت کی شدت صرف جدائی نہیں بن جاتی، بلکہ اپنی ذات سے بیزاری میں بدل جاتی ہے۔ زندگی کی سب سے بڑی اذیت یہ نہیں کہ کوئی تمہیں چھوڑ جائے، بلکہ یہ ہے کہ وہ تمہارے اندر سے وہ سب کچھ لے جائے جو تمہیں (تم) بناتا تھا۔ اور تم رہ جاؤ ایک بےچہرہ، بےروح جسم کی صورت، جو جیتا ہے، پر جینا نہیں جانتا۔ جب کوئی روح تک چھین لے، تو پھر فریاد بھی بےجان ہو جاتی ہے۔ آنکھیں نم ہوتی ہیں، مگر اشک خالی لگتے ہیں۔ زبان پر شکوہ ہوتا ہے، مگر وہ بھی ادھورا۔ دل چاہتا ہے کہ سب کچھ لکھ دیا جائے، بیان کر دیا جائے، مگر جیسے الفاظ ساتھ نہیں دیتے۔ جیسے دل کی گہرائی میں جو طوفان ہے، وہ کاغذ پر نہیں اُتر سکتا۔ محبت کی اصل قیمت شاید یہی ہے کہ جب وہ چلی جائے تو ہم میں کچھ باقی نہ رہے۔ جو کچھ تھا، وہ سب اُسی کے ساتھ رخصت ہو جائے، اور جو ہم رہ جائیں، وہ محض ایک سایہ ہوں، ایک خاموشی ہوں، ایک ادھورا جملہ ہوں، جس کا مفہوم اب کوئی نہیں سمجھتا۔ جن لوگوں سے ہماری روح کا رشتہ ہو، اُن کا چلے جانا محض جدائی نہیں ہوتا۔ وہ گویا اندر سے ہمیں خالی کر دیتے ہیں۔ جیسے ایک دیا جو روشن تھا، اُسے بجھا کر کوئی چلا جائے اور ساتھ ہی اندھیرے کو قید کر جائے۔ وہ اندھیرا پھر زندگی کی ہر چیز میں پھیل جاتا ہے، لفظوں میں، مسکراہٹوں میں، خوابوں میں۔ ایسے وقت میں انسان نہ خود سے بات کر پاتا ہے، نہ دنیا سے۔ ہر سوال، ہر جواب اُس ایک شخصیت کی طرف لے جاتا ہے جو اب موجود نہیں۔ اور اُس کی غیر موجودگی ایک شور کی صورت دل کے اندر بسا رہتا ہے۔ ایک شور جو خاموشی کے پردے میں لپٹا ہوا ہے، مگر مسلسل گونجتا ہے۔ یہ شور ہی تو وہ صدا ہے جسے سننے والا اب کوئی نہیں۔ اور پھر، شاید اسی لمحے انسان تحریر کی طرف پلٹتا ہے۔ وہ کاغذ پر اپنے جذبات اتارتا ہے، اپنی بےبسی، اپنی تڑپ، اپنی تنہائی۔ مگر اُس کا قاری کوئی مخصوص فرد نہیں ہوتا۔ یہ تحریر ہر اُس دل کے لیے ہوتی ہے جو تڑپا ہے، جو بے وفائی سے نہیں بلکہ بےخبری سے زخمی ہوا ہے۔ جو کسی کو چاہ کر بھی کچھ نہ کہہ سکا، اور صرف خاموشی میں اُس کی یاد کو اپنی آواز بنا بیٹھا۔ میں جب لکھتا ہوں، تو یہ میرے لیے صرف لکھنا نہیں ہوتا۔ یہ میری آواز ہوتی ہے، وہ آواز جو لفظوں کے پردے میں چھپ گئی ہے۔ میری ہر سطر ایک درد کی صدا ہے، اور میرا ہر جملہ اُس دل کے لیے ہے جو خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ اور اگر کوئی پوچھے، کہ یہ سب کس کے لیے ہے، تو شاید میں کچھ نہ کہہ سکوں۔ لیکن اگر وہ کہیں دل کے کسی کونے میں چھپا بیٹھا ہو، تو پہچان لے گا کہ یہ آواز اُسی کی یاد میں بلند ہوئی ہے۔ یہ تحریر اُن سب دلوں کی آواز ہے جو تڑپتے ہیں، مگر خاموش رہتے ہیں۔ یہ اُن کے لیے ہے جو خود میں نہیں رہے، کسی اور کے بعد۔ اور پھر ایک پرانا سنا ہوا شعر یاد آتا ہے کہ: ”کتنا لکھوں تیری یاد میں کوءی دم نہیں میری فریاد میں روح بھی مجھ سے میری چھین کے لے گءی میں میں نہ رہا تیرے بعد میں۔“ |