سعادت حسن منٹو اردو ادب کے سب سے متنازع ادیبوں میں سے ایک رہے ہیں جن کی تحریروں پر مختلف اعتراضات کیے جاتے رہے۔ جب سے مینیں سعادت حسن منٹو پر تحریر لکھی ہے تب سے میرے پاس سعادت حسن منٹو پر مسلسل اعتراضات کے پیغام آ رہے ہیں۔ میں بقول ایک قاری کہ ”میں سعادت حسن منٹو کا روحانی فرزند ہوں“ کی حیثیت سے ان اعتراضات اور اُن کے دفاع کے بارے میں بات کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ بلکہ فرضِ عین سمجھتا ہوں۔ سعادت حسن منٹو، ایک نام، جو اردو ادب میں ایک عجب شور کی مانند گونجتا رہا۔ اُنہوں نے جو لکھا، وہ محض فقرے نہیں تھے؛ وہ لہو میں ڈوبی ہوئی حقیقتیں تھیں، جنھیں دنیا نے سرسری نگاہ سے دیکھ کر گزرنے کی کوشش کی، مگر منٹو نے انھیں ٹھہر کر دیکھا، چکھا، محسوس کیا، اور لفظوں میں ڈھال دیا۔ وہ لفظ جنھیں سماج نے فحش کہا، جن پر عدالتوں نے نوٹس لیے، جن سے علما نے گریز کیا اور جنہیں نقادوں نے عیب شمار کیا، وہ دراصل اُس وقت بلکہ اس وقت کی بھی روح کی سچائی ہیں، جنھیں دیکھنے کی ہمت کم لوگوں میں تھی۔ منٹو پر ہونے والے اعتراضات کی بنیاد یہی تھی کہ وہ معاشرے کے اندھیرے گوشے دکھاتا تھا۔ وہ طوائف کی کوٹھری میں گھس جاتا، سپاہی کی وحشت کو عیاں کرتا، مجرم کی آنکھ میں جھانک لیتا، اور تقسیم کے زخموں کو لفظوں سے ادھیڑ دیتا۔ اعتراض کرنے والوں کے لیے یہ سب ناپسندیدہ تھا، وہ چاہتے تھے کہ ادب مہذب ہو، پردے میں لپٹا ہو، رنگین ہو، خوشبو دار ہو۔ مگر منٹو کا قلم ان سب تہذیبی خوشبوؤں سے بے نیاز ہو کر صرف وہ لکھتا رہا جو انہوں نے دیکھا، محسوس کیا، سہا۔ منٹو پر سب سے زیادہ اعتراض اُن کی تحریروں کو فحش قرار دینے پر ہوا۔ اُن کے چھ افسانوں، ”کالی شلوار“، ”دھواں“، ”بو“، ”ٹھنڈا گوشت“، ”کھول دو“ اور ”اوپر نیچے اور درمیان“ پر فحاشی کے الزام میں مقدمات چلائے گئے۔ ان میں سے ابتدائی تین کہانیوں پر مقدمات برطانوی دور حکومت میں قائم ہوئے جبکہ بقیہ تین تحریروں پر پاکستان میں مقدمات درج ہوئے۔ منٹو نے اپنے دفاع میں کہا کہ ”زبان میں بہت کم لفظ فحش ہوتے ہیں۔ طریقِ استعمال ہی ایک ایسی چیز ہے جو پاکیزہ سے پاکیزہ الفاظ کو بھی فحش بنا دیتا ہے۔“ اُن کا موقف تھا کہ ”کوئی بھی چیز فحش نہیں ہے لیکن گھر کی کرسی اور ہانڈی بھی فحش ہو سکتی ہے، اگر ان کو فحش طریقے پر پیش کیا جائے۔“ لوگ بڑے مزے سے کہتے ہیں کہ منٹو کی کہانیاں فحش ہیں۔ کیا یہ فحش ہے کہ ایک ماں اپنی بیٹی کو بچانے کے لیے خود کو پیش کر دے؟ کیا یہ فحش ہے کہ ایک لڑکی، جس کے ہاتھ میں چھوری ہے، مردوں کے درندہ پن سے بچنے کے لیے پاگل بننے کا ڈرامہ کرے؟ کیا یہ فحش ہے کہ ایک لاش، جو مذہب اور قوم کے تعصب سے بلند ہو کر صرف انسان رہ جاتی ہے؟ منٹو تو صرف وہی لکھ رہا تھا جو ہم سب کے اِرد گِرد تھا بلکہ اب بھی ہے، مگر ہم اُسے دیکھنے کی جرأت نہیں رکھتے ہیں۔ منٹو کا مقدمہ صرف عدالت میں نہیں چلا، وہ ہر دل، ہر دماغ، ہر زبان پر جاری تھا۔ اُن پر الزام لگا کہ وہ قلم کے پردے میں عریانی پھیلاتے ہیں، مگر انہوں نے جواب دیا کہ ”اگر میری تحریریں فحش ہیں، تو یہ دنیا فحش ہے۔ میں تو صرف آئینہ دکھا رہا ہوں۔ اس آئینے میں اگر کسی کو اپنا چہرہ بدصورت لگے، تو قصور آئینے کا نہیں، اُس چہرے کا ہے۔“ اُن کی کہانی ”ٹھنڈا گوشت“ کو لے لیجیے۔ کتنی زبانیں اسے گندا کہتی رہیں، مگر وہ دراصل انسانی بےحسی کا نوحہ ہے۔ ”کالی شلوار“، ”بو“، ”کھول دو“، ”خالی بوتلیں، خالی ڈبے“ ہر کہانی انسان کی تہوں کو چیر کر سامنے لاتی ہے۔ یہ کہانیاں چیخ چیخ کر کہتی ہیں کہ ہم سب کے اندر کہیں نہ کہیں ایک اندھیرا چھپا ہے، اور اگر منٹو نے اس اندھیرے کو دکھایا ہے، تو کیا وہ مجرم ہو گیا؟ منٹو پر معاشرتی اقدار کو مجروح کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ خاص طور پر اُن کے افسانوں میں طوائفوں، شرابیوں اور معاشرے کے پِسے ہوئے طبقات کو مرکزی کردار بنانے پر تنقید کی جاتی ہے۔ منٹو کے ناقدین کہتے ہیں کہ ”آخر منٹو کو طوائف ہی کیوں (ہانٹ) کیا کرتی تھی؟“ اس کے جواب میں منٹو نے کہا: ”ایک چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے، میرے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہو سکتی۔ میری ہیروئن چکلے کی ایک ٹکھیائی رنڈی ہو سکتی ہے جو رات کو جاگتی ہے اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اُس کے دروازے پر دستک دینے آ رہا ہے۔۔۔ اُس کے بھاری بھاری پپوٹے جن پر برسوں کی اچٹی ہوئی نیندیں منجمد ہو گئی ہیں، میرے افسانوں کا موضوع بن سکتے ہیں۔ اُس کی غلاظت، اُس کی بیماریاں، اُس کا چڑچڑاپن، اُس کی گالیاں یہ سب مجھے بھاتی ہیں۔۔۔ میں ان کے متعلق لکھتا ہوں اور گھریلو عورتوں کی شستہ کلامیوں، ان کی صحت اور ان کی نفاست پسندی کو نظر انداز کر جاتا ہوں۔“ اُن کا کہنا تھا کہ وہ طوائف کے کردار کو ایک مؤثر ہتھیار بنا کر معاشرے کو آئینہ دکھاتے ہیں۔ مذہبی حلقوں کی طرف سے منٹو پر مُلحِد ہونے کے الزامات بھی لگائے گئے۔ ویسے تو یہ کوءی نءی بات نہیں ہے۔ یہ تو مذہبی حلقوں کا عین فرض ہے۔ بہر حال دلچسپ بات یہ ہے کہ منٹو کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ تخلیق کے وقت خود کو سمیٹ لیتے تھے، افسانہ لکھنے سے پہلے دونوں گھٹنے سکیڑ لیتے، اور سب سے پہلے کاغذ پر ”786“ لکھتے تھے جو حروف ابجد میں بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے۔ منٹو پر کمیونسٹ ہونے کے الزامات بھی لگائے گئے۔ انہوں نے خود ایک جگہ لکھا: ”حکومت مجھے کمیونسٹ کہتی ہے اور کبھی ملک کا بہت بڑا ادیب، کبھی میری روزی کے دروازے بند کیے جاتے ہیں کبھی کھولے جاتے ہیں۔“ بعض ادبی نقادوں کا خیال تھا کہ منٹو کے موضوعات کا دائرہ کار محدود ہے اور انہوں نے فقط جنس، طوائف اور فسادات کے موضوعات پر افسانے لکھے ہیں۔ تاہم ہم جیسے منٹو کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک غلط فہمی ہے اور منٹو نے زندگی کے مختلف پہلوؤں پر لکھا ہے۔ بس دیکھنے والی نظر چاہیے۔ حالانکہ منٹو نے اس پر کہا تھا کہ: ”میں ادب اور فلم کو ایک ایسا میخانہ سمجھتا ہوں، جس کی بوتلوں پر کوئی لیبل نہیں ہوتا۔“ منٹو نے اپنی تحریروں کے دفاع میں کہا کہ ”میری تحریریں آپ کو کڑوی اور کسیلی تو لگتی ہوں گی مگر جو مٹھاس آج آپ کو پیش کی جا رہی ہے اس سے انسانیت کو کیا فائدہ ہوا ہے۔ نیم کے پتے کڑوے سہی مگر خون تو صاف کرتے ہیں۔“ اُن کا موقف تھا کہ وہ معاشرے کے زخموں کو بے نقاب کر رہے ہیں نہ کہ فحاشی پھیلا رہے ہیں۔ ”ٹھنڈا گوشت“ کے مقدمے کے دوران انہوں نے کہا کہ ”اس کہانی کا مقصد انسانوں کو یہ بتانا ہے کہ جب وہ وحشیانہ سلوک کرتے ہیں تو وہ اپنی انسانیت سے الگ نہیں ہو جاتے۔“ وقت نے منٹو کو وہ جگہ دے دی ہے جس کے وہ حقدار تھے۔ آج جب معاشرہ اس قدر کھل چکا ہے کہ ہر شے سامنے ہے، تب جا کر منٹو کو سمجھنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ اُن کا دفاع اب الفاظ سے کم، اور وقت کی عدالت سے زیادہ ہو رہا ہے۔ ہر نیا قاری، جو منٹو کو پڑھتا ہے، وہ اُن کے حق میں ایک خاموش گواہی دے دیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ منٹو نے جو کہا، وہ انہوں نے نہیں، اُس زمانے نے کہا یا شاید یہ زمانہ اُس زمانے سے زیادہ کہہ رہا ہے۔ انہوں نے صرف سنا، محسوس کیا، اور ہمیں سنا دیا۔ منٹو کہتے ہیں کہ: ”اگر ہم صابن اور لیونڈر کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان موریوں اور بدروؤں کا ذکر کیوں نہیں کر سکتے جو ہمارے بدن کا میل پیتی ہیں۔ اگر ہم مندروں اور مسجدوں کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان قحبہ خانوں کا ذکر کیوں نہیں کر سکتے جہاں سے لوٹ کر کئی انسان مندروں اور مسجدوں کا رخ کرتے ہیں۔۔۔ اگر ہم افیون، چرس، بھنگ اور شراب کے ٹھیکوں کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان کوٹھوں کا ذکر کیوں نہیں کر سکتے جہاں ہر قسم کا نشہ استعمال کیا جاتا ہے؟“ منٹو کا دفاع، درحقیقت، اُن کی ہر کہانی خود کرتی ہے۔ اُن کی تحریروں میں نہ کوئی لفاظی ہے، نہ شاعرانہ مبالغہ۔ اُن کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ سیدھے، سادے، اور بےرحم ہیں۔ اُن کی بےرحمی دراصل حقیقت کی بےرحمی ہے، جسے وہ چھپا کر نہیں رکھ سکتے۔ وہ سچ کو مٹھاس میں نہیں لپیٹتے، نہ اسے خوشنما بناتے ہیں۔ وہ جیسے ہے، ویسے ہی لکھ دیتے ہیں۔ اور یہی انداز اُن کے مخالفین کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ آج پاکستان میں منٹو کی شائع ہونے والی کتابوں میں وہی افسانے شائع کیے جا رہے ہیں جن پر مقدمات چلائے گئے تھے۔ جیسا کہ ایک مضمون میں لکھا گیا ہے: ”ان کے فحش ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ وقت نے کیا ہے۔“ منٹو کی تحریروں پر اعتراضات کرنے والوں کے خیالات کے باوجود، آج منٹو کو اردو ادب کا ایک عظیم افسانہ نگار تسلیم کیا جاتا ہے اور انہیں پاکستان کے سب سے بڑے سول ایوارڈ ”نشان امتیاز“ سے بھی نوازا گیا۔ منٹو کو آج بھی پڑھا جاتا ہے، کیونکہ وہ زندہ ہیں۔ زندہ، اپنی بےباکی میں، اپنی سچائی میں، اپنے فقرے کی بےرحمی میں۔ اور جو سچ لکھے، وہ شاید کبھی مر نہیں سکتا۔ اُن کی بےرحمی کا عالم یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: ”یہ میرا خاص انداز، میرا خاص طرز ہے جسے فحش نگاری، ترقی پسندی اور خدا معلوم کیا کچھ کہا جاتا ہے۔ لعنت ہو سعادت حسن منٹو پر، کم بخت کو گالی بھی سلیقے سے نہیں دی جاتی۔“ ”اگر میری تحریروں سے معاشرے میں فحاشی، اُریانی اور بے حیاءی پھیلتی ہے، تو ایسا ہونے دو!“ |