شادی کا انمول بندھن

(شادی کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر ایک پر تاثیر تحریر)
رشتے جب اعتما د اور محبت سے آگے بڑھیں تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا

الحمدﷲ میری شادی کو چالیس برس بیت چکے ہیں لیکن وقت گزرنے کااحساس ہی نہیں ہوا۔ ابھی کل کی بات لگتی ہے ۔یہ رشتہ ِ اس قدر چاہت بھرا ہے کہ زمانے کی تلخیاں بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں ۔اچھی رفیق حیات کا ملنا بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہے ٗ جو ہر آزمائش کو اپنے بہترین تعاون سے ایسے ختم کرتی ہے کہ بحیثیت شوہر مجھے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا ۔ شادی کے بعد میرے والدین کے گھر اسے جس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔اسے میری اہلیہ عابدہ اسلم نے نہایت خندہ پیشانی سے نہ صرف برداشت کیا بلکہ اپنے بہترین رویے سے راحت کا سامان بھی پیدا کیا ۔ زندگی کا وہ لمحہ بھی مجھے یاد ہے جب 11نومبر 1984ء کو ہم والدین سے علیحدہ ہوکر مکہ کالونی کی گلی نمبر 8 کے ایک کھنڈر نما گھر میں منتقل ہوئے ٗ جہاں نہ تو پینے کا پانی میسر تھا اور نہ ہی بجلی کا گمان ۔ ہم ایک بار پھر پچھلی صدی کے ماحول میں پہنچ چکے تھے ۔جس خستہ حال کمرے میں ابتدائی چند مہینے قیام پذیر ہوناپڑا ۔اس کی اینٹوں کے درمیان سے مٹی بھی بارش کے پانی کی نذر ہو چکی تھی ۔ باہر سے اندر اور اندر سے باہر صاف نظر آتا ۔لالٹین کی روشنی میں ہم دونوں اپنے ننھے منے بچوں( بیٹی تسلیم ٗبیٹے محمد شاہد ) کے ساتھ خوف کے اس ماحول میں سونے کی کوشش کرتے ۔ہر لمحے یہی دھڑکا لگارہتا کہ کوئی لکڑی کے بیرونی دروازے کو دھکا دے کر اندر نہ آجائے۔خالی جگہ پر پختہ کمرے تعمیر کرنے کے لیے نہ ہمارے پاس سرمایہ تھا اور نہ ہمت ۔ جب ایسی صورت حال درپیش ہو تو آنکھوں میں اندھیرا چھا جاتا ہے ۔ یہاں میں اپنے سسر اور قابل احترام بزرگ صوفی بندے حسن خاں کو دل کی گہرائیوں سے خراج تحسین پیش کروں گا جنہوں نے اپنی جیب سے دو پختہ کمرے تعمیر کروائے اور ہمیں محفوظ طریقے سے رہنے کی سہولت فراہم کی ۔قرض کے یہ پیسے بے شک ہم نے قسطوں میں واپس کردیئے لیکن ان کااحسان میں کبھی نہیں بھول سکتا ۔اب وہ دنیا میں نہیں رہے لیکن میری تہجد کی دعاؤں میں وہ ہمیشہ شامل رہتے ہیں ۔
آج اس بات کو بھی چونتیس سال بیت چکے ہیں ۔اﷲ نے نہ صرف مجھے تمام بنیادی سہولتوں سے آراستہ ایک معقول گھر قادری کالونی نمبر 2 والٹن روڈ لاہور میں عطا کردیا ہے بلکہ ایک بیٹی اور دو بیٹوں ( تسلیم ٗ محمد شاہد ٗ محمد زاہد) سے نوازا ۔دو بیٹے اور بیٹی تسلیم شادی شدہ ہوچکے ہیں بلکہ قدرت نے ان کو اولاد نرینہ اور پیاری بیٹیوں سے بھی نوازا ہے ۔ بنک آف پنجاب سے ریٹائرمنٹ کے بعد میرا تمام وقت اکثر گھر پر ہی گزرتا ہے ۔ میرے پوتے اور پوتیاں میری آنکھوں کا تارا اور دل کا سکون بن کے مجھے کسی قسم کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتے ۔ گھر کے آنگن میں روزانہ نت نئے اور رنگ برنگے پھول کھلتے ہیں اور پوتے پوتیوں کی مسکراہٹوں اور شرارتوں سے گھر کے دردیوار مہک جاتے ہیں ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہی پوتے اور پوتیاں میری زندگی کی علامت ہیں ۔اگر یہ میری زندگی سے نفی کردی جائیں تو شاید میں زندہ نہ رہ سکوں ۔اﷲ تعالی نے بہوؤں کی شکل میں دو بیٹیاں بھی ایسی عطا کی ہیں ٗجو خدمت میں بے مثال اور رشتوں کے احترام میں لاجواب ہیں ۔ جس نے امراؤ جان ادا ڈرامہ دیکھا ہوگا ہو بہو وہی رکھ رکھاؤ ٗوہی سلیقہ اور وہی شائستگی میری بہووں میں موجود ہے۔وہ صبح سے شام تک گھر کو سنوارنے اور ہمارے لیے آسانیاں پیدا کرنے میں مصروف رہتی ہیں ۔انہوں نے اپنے خوشگواررویے سے میرے گھر کو مہکا رکھا ہے ۔ میں نے بے شمار ملازمتیں کیں اور بہت کام کیا ۔اب میں تھک چکا ہوں اب میں کوئی کام نہیں کرنا چاہتا صرف اور صرف اپنے بچوں ٗ پوتے پوتیوں اور نواسوں کی محبت ہی میرے لیے کافی ہے ۔اﷲ تعالی سے دست بستہ دعاگو ہوں کہ وہ میرے اس خوشیوں بھرے گھرانے کو اپنی حفاظت میں رکھے اور وہ تمام خوشیاں جو میری زندگی کا لازمی جزو بن چکی ہیں ان کی حفاظت فرمائے ۔ آمین سما آمین
شادی کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر خواہش ہے کہ میں اپنے قارئین کو شادی کے احوال سے آگاہ کروں تاکہ وہ بھی پرانے وقتوں کی شادی کے حالات کا مشاہدہ کریں جن حالات میں میری بلکہ ہماری شادی انجام پائی اور شہنائیوں کی آواز نے کس طرح مجھے اپنے حصار میں لیا۔ جس کی گونج آج بھی میں اپنے کانوں میں محسوس کرتا ہوں ۔ یہ سب داستان اس کہانی میں موجود ہے جو آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ قارئین اپنی رائے سے بھی مطلع فرما ئیں -:
..................
میری ’’شادی خانہ آبادی‘‘ 6اپریل 1978ء کو ہونا قرار پائی۔ میں سب سے پہلے اس شخصیت کے بارے میں بتانا ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے میری شادی کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان صاحب کا نام توفیق احمد خان تھا۔ وہ واپڈا میں ملازم اور بستی سیدن شاہ اپر مال لاہور کے رہائشی تھے۔ جہاں میرے ہونے والے سسر صوفی بندے حسن خان بھی اپنی فیملی کے ساتھ رہتے ۔ دفتری ذمہ داریوں کے بعد توفیق احمد خان شام کو مونگ پھلی اور ریوڑیاں فروخت کرنے کے لئے آیا کرتے ۔ ہماری بھی اُن سے پہچان اسی حوالے سے تھی۔ سردیوں کی کوئی شام ایسی نہ جاتی جب وہ پھیری لگانے کے لئے لاہور کینٹ کے ریلوے کوارٹروں میں نہ آتے۔ اُن کی کراری آواز سنتے ہی بچے بڑے گھروں سے نکل آتے ۔ حسب توفیق اُن سے مونگ پھلی اور ریوڑیاں خریدتے اور جی بھرکے کھاتے۔ یوں توفیق احمد خاں کی ہر گھر میں شناسائی تھی ۔ان کی یہی شناسائی آگے چل کر میرے والدین کے ساتھ دوستی میں بدل گئی۔
میں ان دنوں ’’تعلیم بالغاں‘‘ (جو لوکل گورنمنٹ کا ذیلی ادارہ تھا)‘ میں بطور اردو سٹینوگرافر ملازم تھا جسکا دفتر 90 ریوازگارڈن میں تھا۔میں ہر صبح سات بجے لاہور کینٹ کے ریلوے کوارٹروں سے سائیکل پر سوار ہوکر مال روڈ پر سفر کرتا ہوں اپنے دفترپہنچتا ۔ ایک دن مال روڈ پر پہنچا تو توفیق خاں بھی سائیکل چلاتے ہوئے میرے ساتھ آن ملے وہ بھی واپڈا ہاؤس اپنی ملازمت پر جارہے تھے۔ انہیں دیکھ کر میں نے سلام کیا۔ انہوں نے بھی اپنی شفقت سے نوازا۔ کافی دور تک ہم ساتھ ساتھ چلتے رہے اور گفتگو کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اسی دوران وہ لمحہ بھی آپہنچا ٗجسے میری زندگی کا بہترین اور قیمتی لمحہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ چچا توفیق نے مجھ سے شادی کے بارے میں پوچھا۔ کب شادی کر رہے ہو؟ میں نے سنی ان سنی کر دی۔ انہوں نے پھر بات دہرائی اور پوچھا کیا شادی کا ارادہ نہیں ؟ میں نے جواب دیا چچا میری شادی کا فیصلہ کرنے کا اختیار میرے والدین کو ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس کے رسم و رواج کو دیکھتے ہوئے مجھ جیسا کوئی بھی نوجوان خود فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ۔ اگر آپ نے بات کرنی ہے تو میرے والدین سے کریں وہی ہاں یا ناں میں جواب دینے کی پوزیشن میں ہیں۔ اسی دن جب میں دفتر سے فارغ ہو کے گھر پہنچا تو صبح والی بات کو معمول کا حصہ سمجھ کر بھول گیا ۔یہ واقعہ اس وقت میرے ذہن میں پھر تازہ ہو ا ٗ جب چچا توفیق ہمارے گھر تشریف لے آئے۔ ان کی آمد پر میرے والدین بھی حیران ہوئے۔ یہ حیرانگی جلد ہی ختم ہو گئی اور تمام صورت حال ان پر آ شکار ہو گئی۔ جب توفیق خان نے ایک خوبرو لڑکی کا ذکر چھیڑا اور اُس کے والدین کی خوب تعریفیں کیں ۔ میرے والدین چونکہ بہت پہلے ہی سے رشتے کی تلاش میں تھے اس لیے وہ توفیق خان کی باتوں میں گہری دلچسپی لینے لگے ۔اب تک والدین کو کوئی لڑکی پسندنہیں آئی تھی اور جستجو میں تھے کہ کوئی اچھی وضع دار اور خوبصورت لڑکی اچھے خاندان سے مل جائے تو بیٹے کی شادی کریں ۔
چچا توفیق گفتگو کر کے واپس چلے گئے تو دوسری صبح بستی سیدن شاہ سے ایک چلتا پھرتا حجام آ گیا جو بگل میں چھوٹی سی صندوقچی اٹھائے ہر چھوٹے بڑے کی حجامتیں اور شیو کیا کرتا تھا کوارٹروں کے لوگ کسی درخت کے سائے میں زمین پر بیٹھ کر ہی حجامت کروا لیتے ۔ والد صاحب بھی اس حجام کے پکے گاہک تھے انہوں نے حجام سے میرے رشتے کے بارے میں بات کی ۔ حجام نے کہا جس لڑکی کے بارے میں آپ بات کررہے ہیں ٗ میں اس کے والدین کو اچھی طرح سے جانتا ہوں۔ وہ نہایت وضع دار گھرانہ ہے اور لڑکی کے والدین بھی دین دار اور مہذب لوگ ہیں۔وہ اپنے بہترین اخلاق اور کردار کے اعتبار سے پورے محلے میں مشہور ہیں ۔ ہر کوئی ان کی عزت کرتا ہے۔ لڑکی کے والد فوج سے ریٹائرڈ ہیں۔ ان کا گھر میں بڑا رعب دبدبہ اورکنٹرول ہے کسی بچے کی مجال نہیں کہ ان کے حکم کی سرتابی کرے۔ یہ تمام باتیں والد صاحب پر خاصا اثر کر گئیں ۔ انہوں نے یہی باتیں میری والدہ کو جا کر سنائیں تو وہ بھی خوش ہوئیں لیکن یہاں ایک مسئلہ پنجابی اور اردو سپیکنگ کا آن پڑا ۔
والدہ نے والد صاحب کو سمجھایا کہ دیکھو ہم پنجابی ہیں اور لڑکے کی شادی اردو سپیکنگ فیملی میں کیسے کرسکتے ہیں‘ ان کی تہذیب ٗ کلچر اور رہن سہن الگ تھلگ ہے ۔ دو الگ الگ قومیت کے لوگ کس طرح اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ ذہنی مطاقت کس طرح پیدا ہو سکے گی؟ دراصل والدہ کے پیش نظر یہ بات تھی کہ عام طور پر ہندوستانی لوگ پان بہت کھاتے ہیں اور گھر کے در و دیوار پان کی پچکاریوں سے بھرے ہوتے ہیں جبکہ ان کے چہروں کی رنگت بھی عام لوگوں کی نسبت کالی (سیاہ) ہوتی ہے۔ ان حالات میں ان کا لڑکا (یعنی میں) کیسے نباہ کر سکے گا؟ کہیں یہ نہ ہو کہ بعد میں کوئی مشکل پیش آئے۔ ہم ان دنوں ہماری رہائش لاہور کینٹ کے ریلوے کوارٹر نمبر (C-30)میں تھی۔ اس کے اردگرد تمام لوگ پنجابی ہی تھے۔ ایک دو گھر انے اردو سپیکنگ کے تھے جو والدہ کے تصورات کے عین مطابق تھے۔ جب میں نے امی کی باتیں سنیں اور گرد و نواح میں رہنے والے اردو سپکینگ لوگوں کو دیکھا تو بہت گھبرایا کہ واقعی کہیں ایسے ہی کالے پیلے لوگ میرے پلے نہ پڑ جائیں۔ ایسا ہو گیا تو میری زندگی اجیرن ہوجائے گی ۔ میں نے تصورات کی دنیا میں اپنی بیوی کاجو تصور باندھ رکھا ہے اس کا کیا بنے گا؟ شادی سال دو سال کا معاملہ نہیں ہوتا‘ زندگی بھر کا ساتھ ہوتا ہے۔ مجھے جب بھی کوئی پڑوسن خالہ ملتی تو مجھے ڈراتی ۔دوسرے لفظوں میں محلے داروں نے مجھے مذاق بنا لیا ۔ یہ وہ وقت تھا جب ایک گھر کی شادی پورے محلے کی خوشیاں سمجھی جاتی تھیں اور تمام لوگ نئے کپڑے سلوا کے نہ صرف شریک ہوتے بلکہ دولہے پر نئے نوٹ بھی نچھاور کرتے ۔جب کسی کے گھر نئی دولہن آتی تو اسے دیکھنے کے لیے قطار در قطار چلے آتے ۔ چچا توفیق نے میرے والدین سے ہونے والی ملاقات کااحوال لڑکی کے والدین تک پہنچایا اور انکی رضامندی حاصل کرکے پھر ہمارے گھر تشریف لائے۔ میرے والد ین سے پوچھا کہ آپ لوگ کب لڑکی دیکھنے آ رہے ہیں؟ میرے والد جو پہلے ہی نیم رضامند تھے وہ لڑکی دیکھنے کے لئے تیار ہو گئے اور طے شدہ دن وہ سب لڑکی والوں کے گھر جاپہنچے ۔
....................
میں ہر شام کو دفتر سے چھٹی کے بعد کرکٹ کھیلنے فورٹریس سٹیڈیم کے قریب کھلی جگہ پر چلاجاتا جہاں میرے علاوہ ریلوے کوارٹروں‘ کچی آبادی‘ قربان لائن ٗ گنگا آئس فیکٹر ٗ شورہ کوٹھی اور بستی سیدن شاہ سے بھی بے شمار لڑکے کرکٹ کھیلنے آیا کرتے تھے۔ پہلے تو اُن کی آمد کا تجسس کا کبھی نہیں ہوا لیکن جب سے بستی سیدن شاہ کی لڑکی سے شادی کی بات چلی تو وہاں کے لڑکوں کی آمد میرے لئے خوشی کا باعث بننے لگی گویا ایک انجانا سا رشتہ استوار ہوتا نظر آنے لگا۔ بستی سیدن شاہ کی ہر گلی اور ہر مکان کو یہی تصور کر کے دیکھتا کہ شاید میری ہونے والی رفیقِ حیات انہی میں سے کسی ایک گھر میں رہتی ہے۔ کبھی کبھی مجھے خود اپنی اس حرکت پر شرمندگی کا احساس ہوتا لیکن اٹھتی ہوئی نگاہوں کو روکنا میرے بس میں نہیں تھا۔ اﷲ تعالی نے عورت اور مرد کے مابین جو کشش رکھی ہے اس کا کچھ حصہ میرے بھی جسم میں ودیعت کرچکا تھا ۔ جب بھی دربار حضرت میاں میر ؒ جاتے ہوئے بستی سیدن شاہ گزر ہوتا تو ہونے والی بیوی کو دیکھنے کی جستجو ضرور دل میں پیدا ہوتی ۔

لڑکی دیکھنے کے بعد جب گھر والے واپس آئے تو سب کے چہروں پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔ ان کے کھلتے ہوئے چہرے‘ یقینا میرے لئے مسرت کا باعث تھے۔ یہ جس کہانی کا آغاز کرنے گئے تھے اُس کہانی کا ہیرو تو میں ہی تھا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بات کھل ہی گئی۔ وہ لڑکی والدین کی توقعات سے کہیں زیادہ خوبصورت اور نیک سیرت نظر آئی بلکہ لڑکی کے والدین بھی نہایت مہذب اور وضع دار نکلے۔مجھے یاد ہے جب والدہ نے کہا لڑکی نے سیاہ رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے ان سیاہ رنگ کے کپڑوں میں لڑکی کا چہرہ چاند کی طرح چمک رہا تھا میں نے تو اسی وقت فیصلہ کرلیا تھا کہ میں تو اسے ہی اپنی بہو بناؤں گی ۔ چنانچہ اس خوبرو لڑکی کو جلد سے جلد گھر لانے کا اہتمام ہونے لگا۔
..................
مجھے بھی پیسے جمع کرنے کی وارننگ دے دی گئی۔انہی دنوں تعلیم بالغاں سے نوکری چھوڑ کر میں فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان 3-Aٹیمپل روڈ لاہور میں ملازمت اختیار کر لی۔ جہاں میری تنخواہ پہلے سے زیادہ تھی اوور ٹائم بھی آسانی سے لگ جاتا ۔اس سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اپنی شادی کے لئے 300/-روپے ماہانہ کی کمیٹی ڈال لی جس کی کل مالیت 3000/-روپے تھی جبکہ والدین نے بھی خود پر جبر کر کے کئی کمیٹیاں شروع کر دیں ۔
اسی دوران ایک حیران کن صورت حال یہ بھی پیش آئی کہ لڑکی کی والدہ اور بھائی ٗ پنجابیوں میں رشتہ کرتے ہوئے اسی طرح خوفزدہ تھے‘ جس طرح ہمیں انجانہ سا خوف محسوس ہورہا تھا۔ لڑکی کی والدہ بھی گومگو کا شکار تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ اگر بڑی بہن کے گھر میں دو بیٹیاں چلی جائیں تو ٹھیک رہیں گی لیکن لڑکی کے والد اپنے فیصلے پر چٹان کی طرح ڈٹے رہے ۔جب مجھے دیکھنے کا مرحلہ آیا تو عورتوں میں برادر نسبتی مشتاق صاحب کی اہلیہ نے مجھے زیادہ پسند کیا جبکہ پسندیدگی کے اعتبار سے مردوں میں میرے سسر ہی پیش پیش تھے۔ باقی لوگ بجھے بجھے سے نظر آئے ۔ شاید ان پر اردو سپیکنگ اورپنجابی تعصب کا عنصر غالب تھا۔ الحمداﷲ میرے برادر نسبتی کی تعداد 9 تھی لیکن ان میں سے صرف مشتاق صاحب ہی بڑے تھے ٗ باقی سب کا شمار قابل ذکر افراد میں نہیں تھا۔ چند روز بعد یہ خوش کن خبر ملی کہ لڑکی والوں نے بالحاظ مجموعی طور پر مجھے پسند کر لیا ہے۔ حالانکہ میں خود بھی اپنے آپ کو پسند نہیں کرتا تھا۔ پتلا دبلا‘ لمبا لمبا سا نوجوان تھا‘ جگہ جگہ سے جسم کی ہڈیاں بخوبی دیکھی جا سکتی تھی۔ اپنے آ پ کو موٹا کرنے کے لئے بہت سی خوراکیں کھا ئیں لیکن بے سود ۔ کبھی اپنے لمبے لمبے ہاتھوں اورپاؤں کو دیکھتا (کیونکہ میرے سائز کی جوتی بھی کسی عام دوکان سے نہیں مل پاتی) ۔ بعد میں یہی مشکل میرے سسرال کو بھی درپیش آئی ۔کبھی بالوں میں بنے ہوئے چاند تارے پریشان ہوتا۔ یہ خامیاں اکثر مجھے احساس کمتری کا شکار کرتیں۔میرا یہی خیال تھا کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ کوئی مجھے پسند کرے ۔میں مشکور ہوں اپنے سسر صاحب کا جنہوں نے مجھ جیسے کمزور اورناتواں داماد کو صرف اس لیے پسند کرلیاکہ میں اس وقت سرکاری ملازم تھااور مہینے بعد مجھے ا س وقت کے مطابق معقول رقم بطور تنخواہ مل جاتی تھی ۔ شاید میری یہی خوبی پسند آگئی ۔
منگنی کے بعد دونوں بڑوں نے فیصلہ کیا کہ فریقین میں سے ہر کوئی نمود نمائش سے بچ کر اپنی مالی استطاعت کے مطابق ہی اہتمام کر ے۔ بارات کے استقبال کی تاریخ 6اپریل 1978ء بروز جمعرات طے پا گئی اور ولیمہ 7 اپریل کو ہونا قرار پایا۔ ان دنوں میں فیملی پلاننگ میں ملازم تھا۔ جہاں سے شام پانچ بجے واپسی ہوتی۔ پھر شام ہونے سے پہلے مجھے کرکٹ کھیلنے کا جنون بھی تھا۔شادی سے ایک ہفتہ پہلے قاسم پورہ لاہور کینٹ میں‘ میچ کھیلتے ہوئے میں نے آٹھ چوکوں کی مدد سے 60سکور کیا جو میری زندگی کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ ٹیم کا ہر کھلاڑی میری کارکردگی پر خوش تھا بلکہ کئی دوست تو میری اس شاندار کارکردگی کو شادی کے تناظر میں دیکھ رہے تھے۔
میرے بڑے بھائیوں محمد اکرم لودھی اور محمدرمضان لودھی نے شادی کے دن سنگترے رنگ کی پگڑیاں باندھی تھیں۔ اصولاً تو مجھے بھی دولہا بنتے وقت ایسی ہی پگڑی باندھنا تھی لیکن میں نے انکار کر دیا اور جناح کیپ پر سہرا باندھنے کا فیصلہ کیا۔ والدین نے بھی میری بات مان لی اور ڈیڑھ سو روپے میں جناح کیپ خرید لی گئی۔ دل تو یہی چاہ رہا تھا کہ شادی والے دن ’’کوٹ پینٹ‘‘ پہنوں لیکن جیب اس کی اجازت نہیں دے رہی تھی چنانچہ بارات والے دن کے لیے بسکٹی رنگ کا شلوار قمیض سلوایا گیا جس کے پائنچے اس وقت کے فیشن کے مطابق ٗ قابل ذکر حد تک بڑے تھے۔ آج چالیس سال بعد جب اس شلوار قمیض کو دیکھتا ہوں تو ہنسی چھوٹ ہے۔ اپنی شادی کی سہانی یادوں کو تازہ کرنے کے لئے وہ سوٹ میں نے سنبھال رکھا ہے۔ پھر جوں جوں شادی کا دن نزدیک آ رہا تھا۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جا رہی تھیں بلکہ انجانا سا خوف بھی مجھ پر طاری تھا۔
شادی کا دن:
شادی چونکہ جمعرات کے دن طے ہوئی لیکن اس زمانے میں ہفتہ وار چھٹی جمعہ کو ہوا کرتی تھی‘ اس لئے میں نے سات دن کی چھٹی اپلائی کردی ۔ فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن میں ٗمیں چیئرمین بیگم منظور قادر کے ساتھ منسلک تھا ۔ جو پاکستان کے ممتاز قانون دان اور لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس منظور قادر کی اہلیہ تھیں۔ انہوں نے مجھے جمعرات کی چھٹی دینے سے انکار کر دیا اور حکم یہ دیا کہ جمعرات کی صبح دفتر میں دفتر آؤں اور حاضری لگا کر واپس چلاجاؤں ۔ میں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن ساری کوششیں بے سود رہیں۔ وہ اسی بات پرمصر رہیں ۔ چنانچہ ملازم کی حیثیت سے مجھے ہی سر تسلیم خم کرنا پڑا اور ہفتے سے پیر تک تین دن کی چھٹی لے کر گھر آ گیا۔ گھر میں عارف والا سے ماموں‘ خالائیں‘ اور دیگر رشتے دار بھی پہنچ چکے تھے۔ گھر چھوٹا ہونے کی بناء پر ایک دو مزید مکان خالی کروانے پڑے۔ قائم الدین کے کوارٹر کے ساتھ بنا ہوا ایک کچا کمرہ بھی مہمانوں کے لیے حاصل کر لیا گیا۔ جس میں مچھروں کی تعدادکا اندازہ نہیں تھا۔ یہ مچھر اپنی جسامت کے اعتبار سے مکھی کے برابر تھے جب کاٹتے تو انسانی جسم سے آدھی بوتل خون نکال لیتے۔ یہ امام مسجد حافظ خیر دین کا ہجرہ تھا۔ یہ کمرہ راولپنڈی سے آنے والے مہمانوں کے لئے مخصوص کردیاگیا۔
موسم انتہائی خوشگوار تھا‘ نہ زیادہ سردی تھی اور نہ ہی گرمی۔ دن میں تھوڑی سی گرمی ہوتی ۔ رات کو موسم خوشگوار ہوجاتا ۔بدھ کی رات میں جس کوارٹر میں سویا۔ وہ میری منہ بولی بہن کا گھر تھا جس میں میرے علاوہ کرکٹر اقبال مہدی‘ ان کے بھائی انتظار بھی سو رہے تھے۔
6اپریل کی صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی مہمانوں کے ناشتے کا اہتمام کیا گیا۔ یہ ناشتہ گڑ کی چائے اور میٹھے رسوں پر مبنی تھا۔ جو بطور خاص دھرم پورہ کی ایک بیکری سے منگوائے گئے تھے‘ چونکہ ان رسوں نے پورے لاہور کی نمائندگی کا حق ادا کرنا تھا۔ اس لئے ذائقے اور کوالٹی کا خاص خیال رکھا گیا۔ چنگیروں میں بھر کر یہ رس چائے کے بڑے پیالوں کے ساتھ مہمانوں کو پیش کیے گئے جو انہوں نے پیٹ بھر کے کھائے ۔ناشتہ پیش کرنے کے بعد میں اپنے دفتر جانے کی تیاری کرنے لگا۔ جب سائیکل پر سوار ہو کر مال روڈ پہنچا تو بڑا عجیب سا لگ رہا تھا۔ رسم ورواج کے مطابق جس شخص کی شادی ہونا قرار پاتی ہے وہ تو ایک ہفتہ پہلے ہی ہاتھوں میں مہندی لگاکر زمین پر پاؤں بھی آہستگی سے رکھتا ہے۔ ادھر میری حالت یہ تھی کہ میں ٹھیک دو اڑھائی گھنٹے بعد دولہا بننے والا تھا لیکن سڑکوں پر جہاں گردی میں مصروف تھا۔ انہی سوچوں میں گم ٗ میں فیملی پلاننگ کے دفتر واقع ٹمپل روڈ پہنچا ٗ حاضری لگائی اور کچھ دیر اپنی سیٹ پر موجود رہ کر چیئرمین بیگم منظور قادر کی اجازت سے ساڑھے نو بجے گھر کی جانب چل پڑا۔
قصہ مختصر مجھے ہینڈ پمپ کے نیچے بٹھا کر نہلایا گیا۔ پھر پہننے کے لیے وہاں ہی کپڑے دے دیئے گئے ۔ کپڑے پہن لیے تو مجھے سہرا بندی کے لیے ایک کرسی پر بیٹھا دیا گیا۔ یہیں پر مجھے ٹوپی پہنائی گئی پھر اس پر سہرا باندھ دیا گیا۔ سہرے کی جھالروں سے چلتے پھرتے لوگ مجھے ایسے دکھائی دے رہے تھے جیسے میں جالی دار کھڑکی کے اُس پار کھڑا ہوں اور لوگ کھڑکی کے دوسری جانب چل پھر رہے ہیں۔ کرنسی نوٹوں کے ہار پہنائے گئے‘ نقد سلامیاں دی جانے لگیں۔ آہستہ آہستہ ہاروں کی تعداد اس حد تک بڑھ گئی کہ ان کو اٹھانا بھی میرے بس میں نہ رہا چنانچہ ہاروں کا بوجھ کچھ کم کردیاگیا۔ بارات کی روانگی کا وقت آیا تو مجھے کار میں بیٹھنے کا حکم ملا ۔ باراتی رنگ برنگے اور نئے کپڑے پہنے پیدل ہی میاں میر پل کے نیچے سے بستی سیدن شاہ کی جانب گامزن ہو گئے۔ ریلوے پھاٹک اور میاں میر پل کے اوپر سے گزر کر میں باراتیوں کے ساتھ جا ملا جہاں بینڈ باجے والے میری آمد کے پہلے ہی سے منتظر تھے۔ مجھے دیکھتے ہی بینڈ فضا میں موسیقی کی دھنیں بکھیرنے لگا اور جب ہم اس گلی میں داخل ہونے لگے جہاں میرے سسرال کا گھر تھا تو بینڈ والوں نے دھن کی طرز بدل کر گانا شروع کر دیا کہ ’’بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے‘‘۔ اس گانے کے بول مجھے بے حد پسند تھے لیکن اس لمحے بات ہی کچھ اور تھی ۔گلوگار جس محبوب کا ذکر کررہا تھا اس کا روپ آج میں نے دھار رکھا تھا ۔ مجھے یہاں قدم قدم پر چچا توفیق کی وہ باتیں یادآ رہی تھیں جو انہوں نے مجھ سے کی تھیں۔ آج میں ان باتوں کو حقیقت کے روپ میں دیکھنا چاہتا تھا۔ ایک احاطے میں بارات کے بیٹھنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ لکڑی کے تخت پوش پردری بچھا کر گاؤ تکیے رکھے گئے تھے۔ اعزاز کے طور پر مجھے اس پر بٹھایاگیا جبکہ باقی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
نکاح کے لئے قریبی مسجد کے امام ٗ مولوی یوسف کو بلایاگیا۔ مجھے اس وقت تعجب ہوا جب میں نے نکاح خواں کی زبان سے تینوں کلمے غلط سنے۔ خدا کے فضل سے مجھے چھ کے چھ کلمے یاد تھے۔ میں نے انہیں درمیان میں ٹوکا کہ مولوی صاحب کلمہ اس طرح نہیں پڑھا جاتا بلکہ اس طرح پڑھا جاتا ہے۔ آپ غلط پڑھ رہے ہیں۔یہ سن کر مولوی صاحب پریشان ہوئے اورمیرے پیچھے پیچھے پڑھنے لگے۔ میں نے فوراً مداخلت کی کہ مولوی صاحب پہلے آپ پڑھیں‘ میں آپ کے بعد میں پڑھوں گا۔ نکاح تومیرا ہے خدانخواستہ آپ کا تو نہیں ہے۔ بہرکیف جب کلمے پڑھ لئے گئے تو مولوی یوسف صاحب نکاح کی شرائط پڑھ کر سنانے لگے۔ اس کے جواب میں یقینا مجھے ’’ہاں‘‘ کرنی تھی لیکن میں نے سپنس کی خاطر دانستہ خاموشی اختیار کیے رکھی ۔ دوسری مرتبہ پھر ایسا ہی ہوا تو لڑکی کے والد نے میرے والدکو دیکھا لڑکا تو ہاں نہیں کر رہا۔ پھر کچھ لمحے سرگوشیاں ہوئیں۔ اسی اثناء میں والد صاحب نے مجھے غصے کے عالم میں جب گھورا تو میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ اب اپنی عزت جاتی ہوئی نظر آ رہی تھی فوراً بلند آواز میں تین مرتبہ قبول کیا قبول کیا کہہ دیا۔ تب جا کر سب کو قرار آیا۔ یوں بن دیکھے بن سمجھے اور بن جانے دو انسان ایک مضبوط رشتے میں باندھ دیئے گئے۔ کیونکہ یہ وہ رشتہ ہے جو مشرق میں عام طور پر زندگی کی سانسوں کے ساتھ ہی ختم ہوتا ہے۔
نکاح کے بعد مبارک مبارک کی آوازیں بلند ہونے لگیں‘ چھوارے فضا میں بکھرنے لگے اور کچھ ہی دیر بعد زردے اور پلاؤ پر مشتمل کھانا شروع ہو گیا۔ حسب معمول لوگ تو کھانے پر ٹوٹ پڑے لیکن میں کھانے کی بجائے گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ جہاں کھانا کھلایا جا رہا تھا اس کے بالمقابل وہ کچا سا گھر تھا جو میرا اب سسرال بن چکا تھا ۔ چار کمروں پر مشتمل یہ گھر عام گھروں ہی جیسا تھا لیکن لپائی ہونے کی وجہ سے تھوڑا منفرد اور خوبصورت دکھائی دے رہا تھا۔ مکان کے کسی کسی حصے پر رنگ برنگی روشنی پھیلانے والی مرچوں کی لڑیاں لٹک رہی تھیں جو رات کو ضرور روشن ہوتی ہوں گی۔ میرے سسر چونکہ فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد انارکلی میں دوائیوں کی سپلائی کا کام کرتے تھے اس لئے محدود آمدنی کے مطابق گھر کو جس حد تک صاف اور شفاف رکھا جا سکتا تھا‘ رکھا گیا تھا۔ باہرہی سے گھر پر سرسری نظر مار کر واپس اپنی جگہ پر آ بیٹھا۔ زیادہ تر باراتی کھانا کھا کر چلتے بنے کہ تیرا اب خدا ہی حافظ۔ جبکہ میں تو اس وقت تک جانے کے لئے تیار نہیں تھا جب تک دولہن کا ہاتھ مجھے نہ پکڑا دیا جاتا۔ شام کے پانچ بجنے والے تھے دولہن کی روانگی کا وقت آ پہنچا۔ مجھے بھی والدین کے ہمراہ گھر کے اندربلوا یا گیا۔ چند رسومات ادا کی گئیں پھر دولہن کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا گھر کے بیرونی دروازے تک پہنچا۔ یہاں سے مشتاق صاحب نے دولہن کو کندھوں پر اٹھا کر گاڑی میں جا بٹھا یا۔ میری والدہ اور میں بھی اسی گاڑی میں پہلے سے موجود تھے۔ میں چوری چوری پہلو بچا کر نئی نویلی دولہن کو دیکھ رہا تھا کہ شائد کوئی جھلک نظر آ ئے لیکن ہر بار نگاہیں ناکام ہو کر لوٹ آتیں۔ اس وقت کار میں لگے ہوئے ٹیپ ریکارڈ پر بار بار ایک ہی گانا چل رہا تھا۔ جس کے بول ’’مجھے تیری محبت کا سہارا مل گیا ہوتا‘‘ یہ گانا برسر موقع ہونے کی بناء پر مجھ پر کچھ زیادہ ہی اثر دکھا رہا تھا کیونکہ جس حسین سہارے کی مجھے اس لمحے تلاش تھی وہ مجھے مل چکا تھا۔
دولہن کو لے کر جب ہم گھر پہنچے تو دہلیز پر تیل گرا کر قرآن پاک کے سائے میں ہم دونوں کو اندر لایا گیا۔ پھر دونوں کو ایک ہی شیشے میں چہرہ دیکھنے کے لئے کہا گیا۔ جب میری پہلی نظر بیگم کے چہرے پر پڑی تو مجھے گول مٹول سا چہرہ نظر آیا ۔ چھوٹے سے گھر میں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ آج مجھے اپنی مرحومہ بہن نصرت بہت یاد آرہی تھی جو بچپن میں ہی ہم سے بچھڑ گئی تھی ۔ اگر وہ آج ہمارے درمیان ہوتی تو یقینا شادی کی رسمیں ادا کرتی ۔
اگلی صبح ولیمہ تھا اور ولیمے میں شرکت کے لئے سسرالی رشتے دار بھی آئے ہوئے تھے ۔ میں برادر نسبتی مشتاق کو ہی اپنا رشتے دار سمجھتا تھا۔ کیونکہ اسے کئی بار پہلے بھی مل چکا تھا ٗوہ گلبرگ ہائی سکول ہی کا طالب علم تھا جہاں میں بھی پڑھتا رہا ہوں ہم چونکہ گھر سے پیدل چل کر سکول پہنچتے لیکن مشتاق صاحب سائیکل پر گھنٹی بجاتے ہمارے پاس سے گزر جاتے تو ہمیں اس پر رشک آتا کہ کاش ہمارے پاس بھی سائیکل ہوتی ۔ بہرکیف ولیمے کے بعد جب دولہن کو واپس لے جانے کا مرحلہ آیا تو دانستہ اس خیال سے میں گھر سے نکل گیا کہ کہیں سسرالی رشتے دار مجھے بھی اپنے ساتھ نہ لے جائیں ۔مجھے اس وقت اطمینان ہوا جب میرے علم میں یہ بات آئی کہ میرے سسرال میں دولہا دولہن کے ساتھ واپس سسرال نہیں جاتاجبکہ ہمارے پنجابی گھرانے میں ایسا رواج موجود تھا اور ہر صورت دولہے کو ولیمے کے بعد دولہن کے ساتھ ہی سسرال جانا پڑتا ۔
قصہ مختصر شادی کا وہ خواب جو ہم لڑکپن سے ہی دیکھا کرتے تھے اﷲ تعالی کے فضل و کرم اور چچا توفیق کی مہربانی سے پورا ہوگیا ۔ اس وقت چچا توفیق اور میرے سسراور ساس اس دنیا میں نہیں اور میرے والدین بھی اس جہان فانی سے رخصت ہوچکے ہیں لیکن ان کے لگائے ہوئے پودے کی چھاؤں میں آج میرا خوشیوں سے بھرا گھرانہ خوشگوار زندگی بسر کررہا ہے ۔ میں 64 سال اور بیگم 58 سال کی بہاریں دیکھ چکی ہیں ۔ پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی چہل پہل اور شرارتیں گھر میں خوب رونق کا باعث بنتی ہیں ۔جو ہم دونوں کی زندگی کا بہترین محاصل ہیں ۔ زندگی کتنی باقی ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتا لیکن میں یہ بات پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ شادی کے بعد زندگی میں جتنی بھی دشواریاں حائل ہوئیں عابدہ بیگم کاکردار ہمیشہ دانش مندانہ ہی رہا وہ بہترین رفیق بن کر مجھے مشورہ دیتی رہی اور میں مشکلات کے اس سمندر سے کامیابی سے نکلتا چلاگیا ۔ مجھے اس بات کابھی فخر ہے کہ میرا سسرالی خاندان ایسا روایت پسند ہے کہ اس گھر سے آنے والی دولہن موت کی صورت میں ہی شوہر سے جدا ہوتی ہے وگرنہ حالات کتنے ہی مشکل اور پریشان کیوں نہ ہوں وہ ہمت نہیں ہارتی ۔یہ خوبیاں صوفی بندے حسن خان کی تمام بیٹیوں میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔اﷲ تعالی اس گھرانے پر اپنی رحمتوں کاسایہ فگاں رکھے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784931 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.