اقدار پرستوں اور اقتدار پرستوں کے درمیان جاری کشمکش بہت
پرانی ہے۔ اقدار پرستوں کے لیے معاشرے میں اعلی اقدار کا فروغ اہمیت کا
حامل ہے تاکہ معاشرہ اعلی انسانی اقدار کا حامل ہو سکے۔ اس کے برعکس اقتدار
پرستوں کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے کہ کسی بھی قیمت میں اقتدار پر قبضہ کر کے
اپنے ذاتی مفادات حاصل کیے جائیں یا ذاتی مفادات کا تحفظ کیا جائے۔
اشرافیہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایجنڈا سیٹنگ کو اہمیت دیتی ہے جبکہ
دوسری جانب ایک آزاد اور ذمہ دار صحافی صرف درست اور مستند خبر ہی لوگوں تک
پہچانے کی جستجو میں نظر آتا ہے۔
جب کئی بے گناہوں کی جان لینے والے کا مذہب آپ کے لیے اہم ہے تو پھر اپنی
جان پر کھیل کر کئی لوگوں کی جان بچانے والے کا مذہب آپ کے لیے کیوں اہم
نہیں۔
اشرافیہ کو اپنے ذاتی مفادات کی فکر ہے تو آزاد اور ذمہ دار صحافی کو اعلی
پیشہ وارانہ صحافتی اقدار کی۔
عوام پر حکمرانی کرنے والے کون ہیں؟
حکمرانوں کا کردار کیا ہے؟
حکمرانوں کے قول اور فعل میں تضاد تونہیں؟
کیا واقعی حکمرانوں کا مقصد عوام کے حقوق کے حصول کی جدوجہد کرنا ہے؟
حقائق عوام تک پہچانا ایک آزاد اور ذمہ دار صحافی کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔
اور اس راہ میں ایک آزاد اور ذمہ دار صحافی کو مدعی ہونے کے طعنے بھی سہنا
پڑتے ہیں اور اشرافیہ کی طرف سے برے سلوک کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
مگر اقدار پرست کبھی اقتدار پرستوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتے۔
صحافت، پیشہ وارانہ گفتگو کرنے کا نام ہے۔
صحافت، ذاتی نوعیت کی گفتگو کرنے کا نام نہیں ہے۔
صحافت، کسی کی کردار کشی کرنے کا نام نہیں بلکہ حق کی تصویر کشی کرنے کا
نام ہے۔
صحافت، لوگوں کی نجی زندگی میں جھانکنے کا نام نہیں بلکہ لوگوں کی حقیقی
زندگی ناپنے کا نام ہے۔
صحافت، لوگوں میں افواہ پھیلانے کا نام نہیں بلکہ عوام تک درست اور مستند
خبر پہچانے کا نام ہے۔
صحافت، چرب زبانی نہیں بلکہ حق گوئی کا نام ہے۔
صحافت، بیہودگی نہیں بلکہ ادب کا نام ہے۔
صحافت، پھولوں سے سجی راہ نہیں بلکہ کانٹوں سے بھری راہ کا نام ہے۔
صحافت، معاشرتی فرض کی ادائیگی کا نام ہے۔
صحافت، معاشرے کی بے لوث خدمت کا نام ہے۔
صحافت، معاشرے میں سیاسی شعور پیدا کرنے کا نام ہے۔
صحافت، معاشرے کی قوت کا نام ہے۔
صحافت، ریاست کے چوتھے ستون کا نام ہے۔
صحافت، عوام کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت کا نام ہے۔
صحافت، غیرذمہ داری نہیں بلکہ ذمہ داری کا نام ہے۔
صحافت، تخیل نہیں تحقیق کا نام ہے۔
یہ دل لگی نہیں ہے جناب، صحافت عشق کا دوسرا نام ہے۔ |