آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ کی میڈیا سے متعلق ایک گروپ
سے ملاقات میں ہونے والی '' آف دی ریکارڈ'' بات چیت کے امور سے متعلق مختلف
باتیں سامنے آنے کی صورتحال میں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل
میجر جنرل آصف غفور نے 'جی ایچ کیو' میں پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔انہوں نے
کہا کہ چند روز قبل آرمی چیف کی صحافیوں سے ہونے والی ملاقات کے بعد سامنے
آنے والے 'باجوہ ڈاکٹرائین' کو صرف اور صرف سکیورٹی کے تناظر میں دیکھا
جائے کیونکہ اس کا بنیادی مقصد پاکستان کو امن کی طرف لے جانا ہے۔ترجمان نے
کہا کہ پاک فوج کا این' آر او 'سے کوئی تعلق نہیں، سیاسی جماعتیں اور مختلف
ادارے آپس میں ملکرکیا کرتے ہیں اس کا پاک فوج سے تعلق نہیں، تمام ادارے
اپنا اپنا کام کررہے ہیں، پاکستان اس وقت زیادہ مضبوط ہوگا جب ہر ادارہ
آئین اور قانون کیدائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریگا ، انتخابات کرانا اور
اس کا ٹائم فریم آئین میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرمی نے الیکشن کا اعلان
نہیں کرنا، الیکشن کمیشن نے کرنا ہے، اس میں تمام لوگوں کا کردار ہے اور
انتخابات کے حوالے سے ہر وہ کام کریں گے جو آئین کے تحت کہا جائے گا۔میجر
جنرل آصف غفور نے واضح کیا کہ آرمی چیف نے کبھی نہیں کہا کہ اٹھارویں ترمیم
مجموعی طور پر اچھی نہیں، اٹھارویں ترمیم میں کئی معاملات کو ڈی سینٹرلائز
کرنے سمیت کئی چیزیں اچھی ہیں ۔ اس سے اچھی کوئی بات ہو ہی نہیں ہو سکتی کہ
ہر صوبہ اپنے معاملات کا خود ذمہ دار ہو لیکن انہیں ایسے فیصلے کرنے کے
قابل بھی ہونا چاہیے۔ پاکستان کے لئے سب سے پہلا چیلنج سی پیک ہے جسے ہمیں
مکمل کرنا ہے، جو پاکستان کو امن کی طرف جاتا دیکھنا نہیں چاہتے وہ اس چیز
کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں اور جو ان کے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ ہیں وہ خفیہ
ادارے اور سیکیورٹی فورسز ہیں۔ لائن آف کنٹرول کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے
انہوں نے کہا کہ بھارت نے 2017 میں ایل او سی پر سب سے زیادہ خلاف ورزیاں
کیں اور 2018 کا آغاز بھی 2017 سے مختلف نہیں، بھارت کو ایل او سی پر سیز
فائر خلاف ورزیاں ختم کرنی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت غیر ذمہ دار
ریاست کا کردار ادا کررہا ہے، پاکستان کی امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا
جائے، خطے میں امن کی راہ ہموار کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی ہے، خطے میں
امن کیلئے پاکستان کے کردار کو مثبت انداز سے دیکھنا چاہیے، پاکستان کو شک
کی نگاہ سے دیکھا گیا تو پاکستان کی امن کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔
ترجمان پاک فوج کا یہ کہنا مبنی بر حقیقت ہے کہ ''پاکستان اس وقت زیادہ
مضبوط ہوگا جب ہر ادارہ آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام
کریگا''۔یعنی ابھی ادارے آئین اور قانون کے دائرہ کار میں کام نہیں کر رہے۔
ملکی اداروں کا آئین و قانون کے مطابق چلنا ایک اشد ضرورت کے طور پر درپیش
معاملہ ہے۔پریس کانفرنس میں چند صحافیوں نے اپنے سوالوں میں کہاچچکہ ''
اگرچہ یہ فوج کے دائرہ کار میں نہیں ہے تاہم اس بارے میں فوج کا نقطہ نظر
سامنے آنا قوم کے لئے بہت ضروری ہے''۔ایسے چند صحافیوں کے اس طرح کے سوالات
اس حقیقت کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ ملک میں '' زور زبر دستی'' یہ سوچ عام
کی جا رہی ہے کہ ملک میں فوج کی مکمل بالادستی ناگزیر ہے اور فوج ہی ملک کے
ہر معاملے کو اچھے طریقے سے چلا سکتی ہے۔ترجمان کا یہ کہنا کہ '' ہر صوبہ
اپنے معاملات کا خود ذمہ دار ہو لیکن انہیں ایسے فیصلے کرنے کے قابل بھی
ہونا چاہیے'' اس حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا فوج صوبوں کی اہلیت
کا فیصلہ کرے گی یا ان کے طرف سے اہل یا نا اہل ہونے کے سوال اٹھاتے ہوئے
'' اہل یا نااہل'' ہونے کے فیصلے کرائے جائیں گے؟دریں اثناء قومی سلامتی کے
مشیر ناصر خان جنجوعہ نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ''
پاکستان کو غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز کا سامنا ہے،ریاست اندر سے کمزور ہو
تو خطرات کا سامنا ہوتا ہے،پہلے ریاست کو کھوکھلا اور بعد میں طاقت کے
استعمال سے تباہ کیا جاتا ہے''۔انہوں نے کہا کہ'' ہمیں اپنے مستقبل اور
آئندہ نسلوں کے لئے ایماندارہونا پڑے گا،بہت کم لیڈر اور جماعتیں فیڈریشن
کے لئے مثبت کردار ادا کر رہی ہیں''۔ملک کے لئے امن اور اقتصادی صورتحال کے
بہتر ہونے کی ضرورت بیان تو کی جاتی ہے لیکن اس حقیقت سے آنکھیں چرائی جاتی
ہیں کہ کیا یہ اہداف سیاسی استحکام کے بغیر حاصل کئے جا سکتے ہیں؟
یہ حقیقت مستقل روایت بن چکی ہے کہ پاکستان میں قانون نہیں بلکہ حکم چلتا
ہے۔اسی تناظر میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ ملک کے اہم اداروں کی طرف سے سب سے
مضبوط ایک ادارے کے '' احکامات و ہدایات '' کے مطابق ہی معاملات چلائے اور
یکسو کئے جا رہے ہیں۔سیاستدان کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں،یہ یا کوئی اور بھی
ایسا جواز نہیں ہے کہ فوج ملک کی پالیسیاں بنائے اور ملک کو چلائے، جیسے اب
ہو رہا ہے۔پاکستان عوام نے بنایا تھا،پاکستان پر عوام کا حق ہی برتر ہے ،
لیکن اس وقت تک نا صرف عوامی مفاد سب سے نچلے درجے پر ہے بلکہ اب عوام کی
محب وطنی بھی کمتر درجے میں شمار کی جانے لگی ہے۔فوج کی حاکمیت میں ملک بری
طرح متاثر ہو تا چلا آ رہا ہے۔ کوئی بھی جواز فوج کو ملک پر حاکمیت سجائے
رکھنے کا حق نہیں دیتا، ایسا کرنا ملک کو حقیقی معنوں میں کمزور کرنا ہے
اور عوام کو بدستور معاشی بدحالی اور کمتر درجے کی زندگی کے حال میں
رکھناہے۔عوام ارباب اختیار سے یہ بھی معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا حکومت کی
کمانڈنگ پوزیشن کو متاثر ،کمزور کرنا اور ملک میں سیاسی عدم استحکام کی
کوششیں غیر ملکی سازشیں ہیں یا اس کے محرکات ملک میں بالادستی کے لئے جاری
کشمکش کے حوالے سے ہے؟
گزشتہ دنوں میڈیا میں کچھ اندازے لگانے کی کوشش کی گئی کہ آئندہ پانچ سال
بعد ملکی صورتحال کس طرح کی ہو گی۔محسوس تو یوں ہوتا ہے کہ خرابیوں کے چلن
میںپانچ سال بعد بھی ملک کی صورتحال میں بہتری کے کوئی اشارے نہیں
ہیں۔کیونکہ ہمارے ملک کے ارباب اختیار ملک میں ایسا نظام وضع کرنے میں
(دانستہ یا نادانستہ) ناکام ہیں جو ملکی استحکام اور ترقی کی بنیادی شرط
ہوتا ہے۔طبقاتی بالا دستی کے حامل پاکستانیوں کی سماجی زندگی بدستور یورپ
سے بھی شاندار رہے گی،ان کے لئے عالمی معیار کا صحت اور تعلیم کا نظام بھی
میسر رہے گااوران کی آئندہ کی کئی نسلوں کا مستقبل شاندار اور تابناک رہے
گا۔ہاں شہریوں کی اجیرن زندگی مزید دبائو،دشواریوں اور مصائب کا شکار رہے
گی۔ملک کا نظام چلانے والوں کے شاہانہ اخراجات، ملک میں اداروں کے درمیان
اختیارات کی کھینچا تانی ،سیاسی سازشوں کے اخراجات میں مزید گراں اضافہ اور
دہشت گردی سمیت مختلف موضوعات کا اضافی بوجھ خواص کے بجائے عوام پر لاد دیا
جائے گا- |