تحفظ ناموسِ رسالت اور ہماری ذمہ داری

پاکستان کی داخلی سیاست میں ہر تھوڑے عرصے کے بعد، خصوصاً ایسے مواقع پر جب ملک کو سخت معاشی بحران اور سیاسی انتشار کا سامنا ہو، بعض ایسے معاملات کو جو غیرمتنازع اور اُمت کے اندر اجماع کی حیثیت رکھتے ہوں، نئے سرے سے کھڑا کر دیا جاتا ہے تاکہ عوام کی توجہ کو معاشی اور سیاسی مسائل سے ہٹا کر ان معاملات میں اُلجھا دیا جائے اور غیرمتنازع امور کو متنازعہ بنا دیا جائے۔ اس سلسلے میں الیکٹرونک میڈیا باہمی مسابقت اور بعض دیگر وجوہ سے مسئلے کو اُلجھانے میں اور ان سوالات کو اُٹھانے میں سرگرم ہوجاتا ہے جو نام نہاد حقوق انسانی کے علَم بردار اور سیکولر لابی کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔

ان موضوعات میں ایک قانونِ ناموس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس میں سیکولر لابی اور بیرونی امداد کے سہارے چلنے والی این جی اوز اور انسانی حقوق کے نام پر کام کرنے والے بعض ادارے نہ صرف خصوصی دلچسپی لیتے ہیں بلکہ منظم انداز میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ملک کو تصادم کی طرف دھکیلنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

آج کل ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے حوالے سے ملکی صحافت اور ٹی وی چینل عوام الناس کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مروجہ قانون ایک انسانی قانون ہے۔ یہ کوئی الٰہی قانون نہیں ہے، اس لیے اسے تبدیل کرکے شاتمِ رسولؐ کے لیے جو سزا قانون میں موجود ہے، اسے ایسا بنا دیا جائے جو ’مہذب دنیا‘ کے لیے قابلِ قبول ہوجائے (حالانکہ اس ’مہذب دنیا‘کے ہاتھوں دنیا کے گوشے گوشے میں معصوم انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے، اسی ’مہذب دنیا‘ نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر پوری دنیا میں دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے جس سے لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور اب بھی ہزاروں کو محض شبہے کی بنیاد پر گولیوں اور میزائل کا نشانہ بنایا جارہا ہے)۔ واضح رہے کہ موصوفہ کا معاملہ ابھی عدالتِ عالیہ میں زیرسماعت ہے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ایک طوفان برپا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

گورنر پنجاب نے بھی اپنے اخباری بیان میں اسی بات پر زور دیا کہ یہ ایک انسان کا بنایا ہوا قانون (بلکہ العیاذ باللہ ان کے الفاظ میں: ’کالا قانون‘) ہے اور اسے تبدیل کیا جانا چاہیے۔ وہ اپنے منصب کے دستوری تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے جیل میں پہنچ گئے اور ملزمہ کے ساتھ ایک پریس کانفرنس تک منعقد کرڈالی جو ملک میں نافذ دستور اور نظامِ قانون کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف تھی۔ ہم چاہیں گے کہ اس موضوع پر انتہائی اختصار کے ساتھ معاملے کے چند بنیادی پہلوؤں کی طرف صرف نکات کی شکل میں اشارتاً کچھ عرض کریں۔

مسئلے کا سب سے اہم اور بنیادی پہلو وہی ہے جسے ایک صوبائی گورنر نے متنازعہ بنانا چاہا ہے، یعنی شاتمِ رسولؐ کی سزا کیا انسانوں کی طے کی ہوئی شے ہے، یا یہ اللہ کا حکم ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت کی واضح ہدایات اور نصوص ہیں، نیز کیا یہ حکم اسلام کے ساتھ خاص ہے یا یہ الٰہی قانون تمام مذاہب اور تہذیبوں کی مشترک میراث ہے۔ مناسب ہوگا کہ قرآن کریم یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنے سے قبل یہ دیکھ لیا جائے کہ کیا قبلِ اسلام اس نوعیت کا کوئی الہامی یا الٰہی حکم پایا جاتا تھا یا نہیں۔

یہودیت اور عیسائیت میں
یہودی اور عیسائی مذہب کی مقدس کتابوں عہدنامہ قدیم اور عہدنامہ جدید پر نظر ڈالی جائے تو عہدنامہ قدیم میں واضح طور پر یہ الفاظ ملتے ہیں:
you shall not revile God (Exodus 22: 28)
اس کا مفہوم یہ ہوگا: ’’تو خدا کو نہ کوسنا‘‘ اور بُرا بھلا نہ کہنا‘‘ (ملاحظہ ہو، کتاب مقدس پرانا اور نیا عہدنامہ، لاہور ۱۹۹۳ء، بائبل سوسائٹی، ص ۷۵)۔ عہدنامہ قدیم میں آگے چل کر مزید وضاحت اور متعین الفاظ کے ساتھ یہ بات کہی گئی: اور جو خداوند کے نام پر کفر بکے ضرور جان سے مارا جائے۔ ساری جماعت اسے قطعی سنگسار کرے خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی جب وہ پاک نام پر کفر بکے تو وہ ضرور جان سے مارا جائے۔ (ایضاً احبار، باب ۲۴:۱۵۔۱۷، ص ۱۱۸)
انگریزی متن کے الفاظ بھی غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے:
And he that blasphemeth the name of the Lord, he shall surely be put to death, and all the congregation shall certainly stone him: as well as the stranger, as he that is born in the Land, when he blashphemeth the name of the Lord, shall be put to death. (Leveticm 24: 11-16).
میثاقِ جدید کے یہ الفاظ بھی قابلِ غور ہیں:
Wherefore I say unto you, all manner of sin and blasphemy shall be forgiven unto men: but to blasphemy against the Holy Christ, shall not be forgiven unto men. (Mathen 12:31).
اس کا مفہوم یہ ہوگا: ’’اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ آدمیوں کا ہر گناہ اور کفر تو معاف کیا جائے گا مگر جو کفر روحِ مقدس کے بارے میں ہو، وہ معاف نہ کیا جائے گا‘‘ (متی باب ۱۲: ۳۱، کتاب مقدس، مطبوعہ بائبل سوسائٹی، انارکلی لاہور،۱۹۹۳ء، میثاقِ جدید،ص ۱۵)

قرآن و سنت کی رو سے
اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو شخص بغاوت (treason) کرتا ہے، قرآن کریم نے اس کی سزا کو واضح الفاظ میں بیان کیا ہے چنانچہ فرمایا گیا:
اِنَّمَا جَزآؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَ اَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ط ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o (المائدہ ۵:۳۳)جو لوگ اللہ سے اور اس کے رسولؐ سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلاوطن کردیے جائیں۔

سورۂ مجادلہ میں بھی اس طرف اشارہ کیا گیا، چنانچہ فرمایا:
اِِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ کُبِتُوْا کَمَا کُبِتَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَقَدْ اَنْزَلْنَآ اٰیٰتٍم بَیِّنٰتٍ ط وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ o (المجادلہ ۵۸:۵) جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل کیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے لوگ ذلیل کیے گئے تھے اور ہم نے صاف اور کھلی آیتیں نازل کر دی ہیں جو نہیں مانتے ان کو ذلت کا عذاب ہوگا۔

گویا الٰہی قانون میں توہینِ رسالت (blasphemy )کی سزا بنی اسرائیل کے لیے، عیسائی مذہب کے پیروکاروں کے لیے، اور اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یکساں طور پر مجرم کا قتل کیا جانا ہے۔

ایک لمحے کے لیے اس پہلو پر بھی غور کرلینا مفید ہوگا کہ کیا ایسی سزا کا نفاذ ایک ایسی ہستیؐ کے مزاج، طبیعت اور شخصیت سے مناسبت رکھتا ہے جسے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے تمام عالَموں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہو، جو خون کے پیاسوں کو قبائیں دینے کا حوصلہ رکھتا ہو، جو اپنے چچاؓ کے قاتلوں کو بھی معاف کردینے کا دل گردہ رکھتا ہو۔ بات بڑی آسان سی ہے۔ سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے تابناک ابواب میں سے فتح مکہ کے باب کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے ہر ممکنہ ظلم مکّی دور میں آپؐ پر کیا، حضرت یوسف ؑ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آپؐ نے ان سب کو معاف کر دیا، لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ___ لیکن بات یہاں رُک نہیں گئی ___ اس عظیم معافی کے باوجود وہ چار افراد جو ارتداد اور توہینِ رسالتؐ کے مرتکب ہوئے پیش کیے گئے تو ان کے قتل کا فیصلہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا اور ان تین مردوں اور ایک خاتون کو موت کی سزا دی گئی۔ ان میں سے خاتون قریبہ جو ابن اخلی کی لونڈی تھی مکہ کی مغنیہ تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور ہجو پر مبنی گیت اس کا وتیرہ تھے۔ (ملاحظہ ہو: بخاری، فتح مکہ اور شبلی نعمانی کی سیرت النبیؐ، جلد اوّل، اعظم گڑھ، مطبع معارف، ۱۹۴۶ء، ص ۵۲۵)

یہ محض ایک واقعے سے استدلال نہیں، نبی اکرمؐ کے ایک قانونی فیصلے کا معاملہ ہے جو اُمت کے لیے ہمیشہ کے لیے حجت ہے۔

قرآن و سنتِ رسولؐ کے ان نصوص کے بعد قرآن اور حدیث کو سند اور حجت ماننے والا کوئی شخص کس طرح یہ کہہ سکتا ہے کہ شاتمِ رسولؐ کی سزا قتل کے علاوہ کچھ اور ہوسکتی ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر اُمت مسلمہ کا اجماع ہے۔ چنانچہ وہ اہلِ سنت ہوں یا اہلِ تشیع، ۱۵ سو سال میں اس مسئلے پر کسی کا اختلاف نہیں پایا جاتا۔ اس سلسلے میں فقہائے اُمت میں علامہ ابن تیمیہ کی الصارم المسلول علی شاتم الرسولؐ، تقی الدین سبکی کی السیف المسلول علی من سب الرسولؐ، ابن عابدین شامی کی تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیرالانامؐ ان چند معروف کتب میں سے ہیں جو اس اجماعِ اُمت کو محکم دلائل اور شواہد کے ساتھ ثابت کرتی ہیں۔

پاکستان کے تناظر میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سیکولر لابی عموماً اس معاملے میں اپنا نزلہ مولویوں پر ہی گراتی ہے کہ یہ ان کا پیدا کردہ مسئلہ ہے ورنہ جو لوگ روشن خیال، وسیع القلب اور تعلیم یافتہ شمار کیے جاتے ہیں، وہ اس قسم کے معاملات میں نہ دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ایسے مسائل کی توثیق کرتے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ اس حوالے سے صرف دو ایسی شخصیات کا تذکرہ کردیا جائے جنھیں سیکولر لابی کی نگاہ میں بھی ’روشن خیال‘، ’وسیع القلب‘ اور’ تعلیم یافتہ‘ تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ مغربی قانون اور فلسفہ قانون پر ان کی ماہرانہ حیثیت بھی مسلّم ہے۔ گویا کسی بھی زاویے سے انھیں مولویوں کے زمرے میں شمار نہیں کیا جاسکتا، یعنی بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور تصورِ پاکستان کے خالق اور شارح علامہ ڈاکٹر محمد اقبال۔

اس خطے میں جب غازی علم الدین شہید نے ایک شاتمِ رسولؐ کو قتل کیا تو ملزم کا وکیل کوئی ’مولوی‘ نہیں وہی ’روشن خیال‘ برطانیہ میں تعلیم پانے والا، اصول پرست اور کھرا انسان محمد علی جناح تھا جس نے کبھی کوئی جھوٹا یا مشتبہ مقدمہ لڑنا پسند نہیں کیا اور اپنے ملزم کے دفاع میں اور ناموسِ رسولؐ کے دفاع میں اپنی تمام تر صلاحیت کو استعمال کیا۔ اور جب غازی علم الدین کی تدفین کا مرحلہ آیا تو ’روشن دماغ‘ علامہ اقبال نے یہ کہہ کر اسے لحد میں اُتارا کہ’’ایک ترکھان کا بیٹا ہم پڑھے لکھوں پر بازی لے گیا‘‘۔

سوچنے کی بات صرف اتنی سی ہے کہ کیا یہ دو ماہر قانون دان ’حریت بیان‘، ’قلم کی آزادی‘ ، ’انسان کے پیدائشی حقِ اظہار‘ سے اتنے ناواقف تھے کہ ’جذبات‘ میں بہہ گئے۔

نوٹ:
َ َ ڈاکٹر انیس احمد صاحبَ َ کا یہ مضمون ماہنامہ َ َ ترجمان القرآن َ َ کے دسمبر کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر ہم اسے یہاں پیش کر رہے ہیں۔ مضمون کی طوالت کےباعث اس کو ایک ہی کالم کے بجائے اصل مضمون میں دئے گئے اس کے ذیلی عنوانات کے تحت اس کو حصوں میں شائع کیا جارہا ہے۔ جو لوگ اس مضمون کو براہ راست اور ایک ہی نشت میں پڑھنا چاہیں ان کے لئے یہاں اس مضمون کا لنک دیا جارہا ہے۔
https://www.tarjumanulquran.org/2010/12_december/ishraat001/1.htm
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520096 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More