عشرہ ٔ محرم اور صحابہ کرام رضي اللہ عنہم کا احترام

عشرۂ محرم ميں عام دستور رواج ہے کہ شيعي اثرات کے زير اثر واقعات کربلا کو مخصوص رنگ اور افسانوي و ديو مالائي انداز ميں بيان کيا جاتا ہے۔ شيعي ذاکرين تو اس ضمن ميں جو کچھ کرتے ہيں وہ عالم آشکارا ہے، ليکن بدقسمتي سے بہت سے اہل سنت کے واعظان خوش گفتار اور خطيبان سحر بيان بھي گرمئ محفل اور عوام سے داد و تحسين وصول کرنے ليے اسي تال سر ميں ان واقعات کاتذکرہ کرتے ہيں جو شيعيت کي مخصوص ايجاد اور ان کي انفراديت کا غماز ہےاس سانحہ ٔ شہادت کا ايک پہلو صحابہ کرام رضي اللہ عنہم پر تبرا بازي ہے جس کے بغير شيعوں کي " محفل ماتم حسين رضي اللہ عنہ " مکمل نہيں ہوتي۔ اہل سنت اس پستي و کمينگي تک تو نہيں اترتے تاہم بعض لوگ بوجوہ بعض صحابہ پر کچھ نکتہ چيني کرلينے ميں کوئي مضائقہ نہيں سمجھتے، مثلا ايک "مفکر" نے تو يہاں تک فرماديا کہ قليل الصحبت ہونے کي وجہ سے ان کي قلب ماہيت نعوذ باللہ نہيں ہوئي تھي۔ حالانکہ واقعہ يہ ہے کہ تمام اعليٰ و ادني ٰ صحابہ کا فرق مراتب کے باوصف بحيثيت صحابي ہونے کے يکساں عزت و احترام اسلام کا مطلوب ہے۔ کسي صحابي کے حقوق ميں زبان طعن وتشنيع کھولنا اور ريسرچ کے عنوان پر نکتہ چيني کرنا ہلاکت وتباہي کو دعوت دينا ہے۔

صحابي کي تعريف ہر اس شخص پر صادق آتي ہے جس نے ايمان کي حالت ميں نبي ٔ اکرم ﷺ کو ديکھا ہو اور قرآن و حديث ميں صحابہ ٔ کرام کے جو عمومي فضائل و مناقب بيان کيے گئے ہيں، ان کا اطلاق بھي ہر صحابي پر ہوگا۔

حافظ ابن حجررحمۃ اللہ عليہ نے الاصابہ مين صحابي کي جس تعريف کو سب سے زيادہ صحيح اور جامع قرار ديا ہے، وہ يہ ہے:

((وَاَصَحُّ مَا وَقَفتُ عَلَيہِ مِن ذٰلِکَ أَنَّ الصَّحَابِيَّ مَن لَقِيَ النَّبِيَّ ﷺ مُؤمِناً بِہٖ وَمَاتَ عَلَي الاِسلَامِ، فَيَدخُلُ فِيمَن لَقِيَہُ مَن طَالَت مُجَالَسَتُہُ لَہُ أَو قَصُرَت وَ مَن رَوٰي عَنہُ أَو لَم يَروِ وَمَن غَزَا مَعَہُ أَو لَم يَغزُ وَ مَن رَاَٰہُ رُؤيَۃً وَلَو لَم يُجَالِسہُ وَ مَن لَم يَرَہُ بِعَارِضِ کَالعَمٰي)) (الاصابۃ في تمييز الصحابۃ : 158/1، طبع دارالکتب العلميۃ: 1995ء)

"سب سے زيادہ صحيح تعريف صحابي کي جس پر ميں مطلع ہوا وہ يہ ہے کہ "وہ شخص جس نے ايمان کي حالت ميں حضور ﷺ سے ملاقات کي اور اسلام ہي پر اس کي موت ہوئي۔" پس اس ميں ہر وہ شخص داخل ہے جس نے نبي ﷺ سے ملاقات ( قطع نظر اس سے کہ )اسے آپ کي ہم نشيني کا شرف زيادہ حاصل رہا يا کم، آپ سے روايت کي يا نہ کي۔ آپ کے ساتھ غزوے ميں شريک ہوا يا نہيں ور جس نے آپ کو صرف ايک نظر ہي سےديکھاہو اور آپ کي مجالس ، ہم نشيني کي سعادت کا موقع اسے نہ ملا ہواور جو کسي خاص سبب کي بنا پر آپ کي رؤيت کا شرف حاصل نہ کرسکا ہو جيسے نابينا پن۔"

اس ليے اہل سنت کا خلفاء اربعہ ابوبکر وعمر اور عثمان و علي رضي اللہ عنہم اور ديگر ان جيسے اکابر صحابہ کي عزت و توقير کو ملحوظ رکھنا ليکن بعض ان جليل القدر اصحاب رسول کي منقبت و تقديس کا خيال نہ رکھنا يا کم از کم انہيں احترام مطلوب کا مستحق نہ سمجھانا جن کے اسمائے گرامي مشاجرات کے سلسلے ميں آتے ہيں جيسے حضرت معاويہ، حضرت عمرو بن العاص، حضرت مغيرہ بن شعبہ رضوان اللہ عليہم اجمعين ہيں، يکسر غلط اور رفض و تشيع کا ايک حصہ ہے۔ اہل سنت کو اس نکتے پر غور کرنا چاہيے کہ خلفائے راشدين کي عزت و توقير تو کسي حد تک معقوليت پسند شيعہ حضرات بھي ملحوظ رکھنے پر مجبور ہيں اور ان کا ذکر وہ نامناسب انداز ميں کرنے سے بالعموم گريز ہي کرتے ہيں البتہ حضرت معاويہ ، عمروبن العاص رضي اللہ عنہما وغيرہ کو وہ بھي معاف نہيں کرتے اگر صحابہ کرام کے نام ليوا بھي يہي مؤقف اختيار کرليں ، تو پھر محبان صحابہ اور دشمنان صحابہ ميں فرق کيا رہ جاتاہے؟ اور ان صحابہ کو احترام مطلوب سے فروتر خيال کرکے ان کے شرف و فضل کو مجروح کرنا کيا صحابيت کے قصر رفيع ميں نقب زني کا ارتکاب نہيں ہے؟ کيا س طرح نفس صحابيت کا تقدس مجروح نہيں ہوتا؟ اور صحابيت کي ردائے عظمت (معاذ اللہ) تارتار نہيں ہوتي؟

بہرحال ہم عرض يہ کررہے تھے کہ قرآن و حديث ميں صحابہ ٔ کرام کے جو عمومي فضائل و مناقب مذکور ہيں وہ تمام صحابہ کو محيط و شامل ہيں اس ميں قطعاً کسي استثناء کي کوئي گنجائش نہيں ہے اور ان نصوص کي وجہ سے ہم اس امر کے پابند ہيں کہ تمام صحابہ کو نفس صحابيت کے احترام ميں يکساں عزت و احترام کا مستحق سمجھيں، اس سلسلے ميں يہ حديث ہر وقت ہمارے پيش نظر رہني چاہيے۔

حضرت ابو سعيد خدري رضي اللہ عنہ بيان کرتے ہيں کہ نبي ﷺ نےفرمايا:

((لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ)) (صحيح البخاري، فضائل اصحاب النبي ﷺ، ح : 3673 وصحيح مسلم، فضائل الصحابۃ، ح:2541۔2540)

"ميرے صحابہ پر سب وشتم نہ کرو( يعني انہيں جرح و تنقيد اور برائي کا ہدف نہ بناؤ) انہيں اللہ نے اتنا بلند رتبہ عطا فرمايا ہے) کہ تم ميں سے کوئي شخص اگر احد پہاڑ جتنا سونا بھي اللہ کي راہ ميں خرچ کردے تو وہ کسي صحابي کے خرچ کردہ ايک مُد (تقريباً ايک سير) بلکہ آدھے مُد کے بھي برابر نہيں ہوسکتا۔"
Khalid Shahzad Farooqi
About the Author: Khalid Shahzad Farooqi Read More Articles by Khalid Shahzad Farooqi: 44 Articles with 49100 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.