تنظیم کے لیڈر امیرِ حمزہ شاہ گزشتہ 3برسوں سے مسلسل جیل
میں بند ہیں۔ حکومت کی طرف سے ان پر لگائے گئے تمام تر فرضی الزامات کے تحت
جرم بے گناہی کی سزا کاٹنے کے باوجود ان کی رہائی عمل میں نہیں لائی جارہی
ہے اورکل امرگڑھ تھانے میں حبس بے جا میں ہیں۔ ان کے اہل خانہ کو ان کی
رہائی میں ٹال مٹول کیا جارہا ہے۔ ادھر منظور احمد کلوبھی گزشتہ2برسوں
سےجیل میں بند ہیں۔ اس دوران گزشتہ ماہ ان کے بزرگ اور عمر رسیدہ والد بھی
دنیائے فانی سے رخصت کر گئے۔ ان کوان کی آخری رسومات میں بھی شرکت کی اجازت
نہیں دی گئی حالانکہ ان کا"پی ایس اے''کالعدم قراردیاجاچکاتھاجبکہ محمد
یوسف لون،میرحفیظ اللہ،رئیس احمد میر، محمد یوسف فلاحی،سلمان یوسف،عبدالغنی
بٹ، عبدالسبحان وانی،شیخ محمدرمضان،شکیل احمدیتو،محمدامین آہنگر،مفتی
عبدالاحد ،فاروق احمدبٹ،محمد شعبان خان،عبدالحمید پرے،غلام حسن
شاہ،نذیراحمدمانتو، حاکم الرحمان، عبدالرشید، بشیر احمد صالح، محمد اشرف
ملک، غلام محمدتانترے ،عبدالواحدمیر،اعجازاحمدبہرو،آصف گل،فیاض
احمدکمہار،وسیم احمد فراش، عبدالرشید،توصیف خان،ہلال احمد پال کو بھی گزشتہ
کئی برسوں سے پابند سلاسل کیاگیاہےحالانکہ جن فرضی الزامات کے تحت ان
قائدین وکارکنان کوگرفتارکیاگیا تھاان تمام کیسوں سے وہ عدالتوں سے بری
قراردئے گئے ہیں۔اس کے بعد ان قائدین وکارکنان کوجیلوں میں رکھنے کاکوئی
جوازنہیں بنتالیکن اس کے باوجود محبوبہ سرکار اس قدرخوفزدہ ہے کہ ان بے
گناہوں کوجیل سے رہاکرنے کیلئے آمادہ نہیں بلکہ تحریک حریت کے قائدین
وکارکنان کو مختلف فرضی کیسوں میں پھنسا کر جیلوں میں بند کرنے کی ظالمانہ
پالیسی پرعمل پیراہے جس کی تازہ مثال یہ ہے کہ تحریک حریت کے غلام قادربٹ
کپواڑہ جو کہ سینٹرل جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے کو وادی سے باہر
جیل منتقل کردیاہے ۔
ادھر26سال قبل23مارچ1992کو سرحدی حفاظتی فورس کی166ویں بٹالین نے بمنہ میں
چھاپہ مارکر قابض سیکورٹی فورسزنے سرینگرشہر کے خانقاہ معلی سے تعلق رکھنے
والے اخوان المسلین کے ایک کمانڈر محمد صدیق صوفی کو اپنے ایک ساتھی جاوید
احمد شالہ کے ہمراہ حراست میں لیا اورآج تک ان کاکوئی نام ونشان باقی نہیں
جہاں سے ان کاپتہ چل سکے۔اس چھاپے میں ماس مومنٹ کی سربراہ فریدہ بہن جی کے
والد محمد یوسف بیگ ،شوہر،برادر اور ایک بیٹے کو بھی گرفتار کیا گیا۔ اس
دوران محمد یوسف بیگ کی لاش3دن بعد برآمد ہوئی جبکہ باقی گرفتار شدگان کو
قریب ایک ماہ کے بعد رہا کیا گیا ،مگر محمد صدیق صوفی اورجاویداحمد شالہ
بدستورحراست میں ہی رہے۔ فورسزنے محمد صدیق صوفی کوکبھی رہانہیں کیااورنہ
یہ بتایاکہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔ محمد صدیق صوفی کی حراستی گمشدگی کے بعداہل
خانہ نے دومرتبہ ہائی کورٹ کادروازہ کھٹکھٹایا،تاہم فورسزنے جواب دینے کی
کوئی زحمت گوارہ نہیں کی اورعدالت انصاف دینے کی بجائے ابھی تک خاموش ہے۔
گزشتہ ماہ فوجی سربراہ جنرل بپن راوت نے کہاکہ پاکستان کاایٹم بم ایک دھوکہ
اورسراب ہے،ہمیں جب بھی سرحدپار کرنے کاحکم ملاتوہم تاخیرنہیں کریں گے ۔قبل
ازیں وہ کہہ چکے ہیں کہ بھارتی فوج طاقت کامظاہرہ کرنے سے کبھی نہیں
ہچکچائے گی ۔جواب میں وزیرخارجہ خواجہ آصف نے کہا: بھارت اگرہماراعزم
آزمانا چاہتاہے توہم حاضرہیں ۔یہ محض کھوکھلی دہمکیاں ہی نہیں ہیں بلکہ
بھارت کی حکمران جماعت میں ایسے عناصرغلبہ پاچکے ہیں جو تنازع کشمیر طاقت
کے ذریعے حل کرنے کاارادہ رکھتے ہیں۔وہ نہروکی عقل پربھی ماتم کرتے ہیں کہ
انہوں نے تقسیم ہندکے بعدپورے جموں وکشمیرپرقبضہ کیوں نہیں کیا ۔وہ نہرو کے
اس عمل پربھی اپناسرپیٹ رہے ہیں کہ اقوام متحدہ میں جاکرفاش سفارتی غلطی کی
جس کاخمیازہ بھارت آج تک بھگت رہاہے۔تاریخ سے ناواقف ان اندھے متعصب ہندوؤں
کویہ علم نہیں کہ اگرنہرواقوام متحدہ میں جاکربڑی طاقتوں کے سامنے جنگ بندی
کی دہائی نہ دیتا توآج بھارت نہ صرف کشمیرسے محروم ہوتا بلکہ کئی ٹکڑوں میں
بٹ چکاہوتا۔دراصل اقوام متحدہ میں اس وقت پاکستان کے قادیانی وزیر خارجہ
ظفراللہ خان نے ایک سازش کے تحت کشمیرکے مسئلے پر جنگ بندی قبول کرکے
پاکستان کی کمرمیں خنجرگھونپاکیونکہ وہ اپنے برطانوی مربی آقاؤں کے اشارے
پرعمل کررہے تھے۔
بھارت کی داخلی سیاست میں بھی پاکستان مخالف کارڈ بھارت جنتا پارٹی کیلئے
خاصاکارآمدثابت ہوا۔ گجرات کے الیکشن میں پاکستان کے خلاف جم کر تقریریں کی
گئیں ۔افسوسناک بات یہ ہے کہ کانگرس کے لیڈر راہول گاندھی بھارت کی
سیکولرجماعتوں اوراقلیتوں کواپنے گرداکٹھاکرنے کی بجائے قدامت پسندہندوؤں
کواپنی طرف راغب کرنے کیلئے مندروں میں گھنٹیاں بجارہے ہیں۔ آجکل قدامت
پسندوں کے دل جیتنے کیلئے کانگرس اوربی جے پی میں مقابلہ جاری ہے۔سنیئر
تجزیہ نگاروں کاکہناہے کہ حکمران جماعت اپنے وعدوں کے مطابق عام لوگوں کی
سدھارنہیں لاسکی۔معاشی حالات میں قابل ذکربہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔گجرات
کے ریاستی الیکشن میں لوگوں نے بی جے پی کوغیر متوقع طورپربہت کم ووٹ
دیئے۔گزشتہ عام الیکشن میں بی جے پی کے حق میں جولہراٹھی تھی اورعام لوگ
جومودی کونجات دہندہ اورمسیحاسمجھتے تھے وہ جھاگ کی طرح بیٹھ چکی ہے۔ سیاسی
پنڈتوں کاکہناہے کہ مودی کو بھارتی عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کیلئے کوئی
بڑاحربہ استعمال کرناپڑے گاتاکہ اگلے عام الیکشن میں ایک بارپھرمنتخب
ہوسکیں۔ایودھیامیں رام مندر کی اگرعدالت نے اجازت عطا کر دی توپھرالیکشن
مہم چمک جائے گی بصورتِ دیگرپاکستان کے خلاف کنٹرول لائن پر سرجیکل
اسٹرائیک کی جاسکتی ہے۔
کنٹرول لائن پرجوحالات ہیں وہ پاکستان کامیڈیاٹھیک طرح سے نہیں دیکھ رہا۔
غالباًحکومت کاخیال ہے کہ کہ اس طرح دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے
یاپھرپاکستان کے اندرسرگرم انتہاء پسندگروہ اس کافائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ان کے
کیمپ دوبارہ آبادہوسکتے ہیں اورچندہ مہم میں جان پڑسکتی ہے ۔اب تک ہزاروں
لوگ بے گھرہوچکے ہیں،سینکڑوں میل کے علاقے میں نظام زندگی معطل ہے۔ ماضی
میں دونوں ملکوں کی فورسزایک دوسرے کونشانہ بناتی تھیں لیکن اس بار
آزادکشمیرکے عام شہریوں ،ان کے مکانات اوراسکولوں کوہدف بنایاجارہا ہے۔
تعلیمی ادارے کب سے بند ہوچکے،بے شمارشہری زخمی ہیں۔ کئی شہری سرکاری
اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔باوثوق ذرائع کے مطابق بھارت نے کنٹرول لائن پر
ٹینک پہنچادیئے ہیں۔دونوں ممالک واضح طورپرحالت جنگ میں ہیں۔ کشمیرکی
صورتحال کہیں زیادہ گھمبیرہے اوروہاں ایک شوپیاں کے بعد دوسرا سانحہ
منتظرہے۔ درپیش حالات حکومت،تمام اداروں اور سیاسی جماعتوں کی سنجیدہ
اورفوری توجہ کے متقاضی ہیں۔اوّلین ضرورت باہمی اتحادہے جس کی طرف شاذہی
کسی کی توجہ دکھائی دیتی ہے۔ |