زندگی

شیکسپیئر نے کہا تھا کہ دنیا ایک سٹیج ہے ۔ہرانسان سٹیج پر آتا ہے ،اپنا کردار ادا کرتا ہے اور چلا جاتا ہے ۔یہ کردار مختلف طرح ہوتے ہیں ۔کچھ کردار بہت مختصر وقت کے لیے ہوتے ہیں ۔ کچھ کردار کئی دہائیوں پر محیط ہوتے ہیں ۔ہر انسان کا کردار اس کی پوری زندگی پر مشتمل ہوتا ہے ۔ ہر انسان کے کردار مختلف مراحل ہوتے ہیں ۔ ان مراحل میں اس کا بچپن ، اس کا لڑکپن ،اس کی جوانی اور اس کا پڑھاپا شامل ہوتا ہے ۔ہر انسان کا سٹیج دوسرے انسان سے کسی حد تک مختلف ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہر سٹیج مکمل طور مختلف ہوتا ہے تو ایسا ممکن نہیں ہے ۔ کیونکہ کچھ والدین کو تقریباً ایک جیسا سٹیج دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔مگر اکثر والدین ایسا کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں ۔ کیونکہ ان کی محبت اور توجہ کا مرکز اولاد میں کوئی ایک بن جاتا ہے ، عموما ً اکثر والدین کی سب سے چھوٹی اولاد ’’لاڈلی‘‘ ہوا کرتی ہے۔لیکن والدین کا اپنے بچے کو لاڈلا کرنا دنیا کی سٹیج پر ایک کردار ہے ۔ والدین کا کردار جب ختم ہوتا ہے تو لاڈلے کا کردار شروع ہوتا ہے ۔ کیونکہ وہ لاڈلا ہوتا ہے اس لیے اسے کردار ادا کرنے میں کافی مشکلات آتی ہیں ۔ دنیا ایک ایسا سٹیج ہے جہاں پر کوئی کسی کا کردار ادا نہیں کر سکتا ۔ ہر کسی کو اپنا کردار ادا کرنا ہے ۔ ہر قیمت پر ادا کرنا ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ ہر لاڈلے انسان کو بچپن میں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے ۔ والدین جب مشکل حالات سے دو چار ہوتے ہیں تو اس کا اثر تقریباً اولاد پر بھی ہوتا ہے ۔ اولاد اپنی استعطاعت کے مطابق ان حالات کو محسوس کرتی ہے ۔ ان حالات میں والدین کو شش کرتے ہیں کہ ان کی چہیتی اولاد پر سب سے کم اثر پڑے ۔ مگر ان کی یہ کوشش بھی ناکام ہو جاتی ہے ۔کیونکہ اس بچے کاسٹیج ہی مشکل حالات کو محسوس کرنا ہے ۔ اپنے پیاروں کے دکھ درد کو سب سے محسوس کرنا اس کے کردار میں شامل ہے ۔ دنیا کے اس سٹیج پر جب ایک بچہ قدم رکھتا ہے تواس کے والدین خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ ان کی آنکھوں میں امید کے دیے روشن ہو جاتے ہیں ۔کہتے ہیں نا کہ امید پہ دنیا قائم ہے ۔ اسی طرح والدین پنگھوڑے میں لیٹی اپنی اولا د سے بہت سی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں ۔ جب بچہ تھوڑا سا بڑا ہو تا ہے تو اسے دو طرح کی باتیں بتائی جاتی ہیں ۔ ایک تو بچے نے تقریباً ایک گھنٹہ قریبی مسجد کے قاری صاحب کے پاس دینی تعلیم حاصل کرنی ہوتی ہے ۔ دوسرا اس کے بیگ میں کتابیں بھر کر اسے سکول بھیج دیا جاتا ہے ۔ والدین کے لیے وہ لمحہ یاد گار ہوتا ہے کہ جب ان کی اولاد پہلے دن سکول کا رخ کرتی ہے ۔اسے بتایا جاتا ہے کہ بس اب تمہارا کام پڑھنا ہے ۔ پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب ۔یہ نعرہ بچے کے دل و دماغ میں بٹھایا جاتا ہے ۔ مگر بچے من کے سچے ہوتے ہیں ۔ ان کا ایک اپنا ہی نعرہ ہوتا ہے ۔ کھیلوں گے ، کودو ں گے تو بنوں گے نواب ۔ دنیا کی سٹیج پربچے کا کردار ابھی زیادہ کھیل کود اور تھوڑی پڑھائی پر مشتمل ہوتا ہے ۔ کیونکہ لاڈلا ہر محاظ پر اپنے لاڈلے پن کی جنگ جیت نہیں سکتا ہے ۔ کیونکہ اگر وہ نہیں پڑھتا ہے توپٹائی اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔ اس سٹیج پر انسان کو بس اتنا معلوم ہوتا ہے کہ پڑھائی کرنے میں اس کی بہتری ہے ۔نہیں تو زندگی اجیرن ہے ۔ لہذا اسے بادل نخواستہ پڑھنا پڑتا ہے ۔ جب انسان لڑکپن میں داخل ہوتا ہے ۔ سٹیج اور کردار ذرا بدل جاتے ہیں ۔ ماحول کی ہوا لگتی ہے ۔گھر میں رعب جھاڑنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ مگر یہ کوشش ناکام ہو جاتی ہے ۔ کیونکہ رعب جھاڑنے کا عہدہ صرف بڑوں کے پاس ہوتا ہے ۔ لہذا بغاوت کرنے کے لیے جی مچلتا ہے ۔ مگر بغاوت بھی کچل دی جاتی ہے ، کیونکہ بغاوت کو سچ ثابت کرنے کے لیے کچھ گواہ چاہیے ہوتے ہیں ۔سٹیج پر پڑھائی کا دوسرا مرحلہ سٹارٹ ہو جاتا ہے ۔ یہ کردار لاڈلے کے لیے مزید مشکلات کا سامان لاتا ہے ۔ کیونکہ صرف سکول کے باہر ’’مار نہیں پیار‘‘ لکھا ہوتا ہے ۔ جب باہر سے کوئی چھاپہ مار ٹیم آجائے تو تب ہی ٹیچر کے ہاتھ ڈنڈا غائب ہوتا ہے ۔ ان سٹیج پر انسان کے لیے خوشی کے وہ لمحے یاد گار ہوتے ہیں جب تمام طلباء کی دعائیں رنگ لاتی ہیں اور ایک سخت ٹیچر سکول سے دو کی رخصت پر ہوتا ہے اور اس سے اگلے دن اتوار ہوتی ہے ۔ یقین مانیے زندگی کے یہ پل بہت شاندار ہوتے ہیں ۔ بچپن سے لڑکپن تک خوشی بنا مانگے مل جاتی ہے ۔ کسی دوست کی مزاحیہ بات کرنے سے سارا دن اس کی مزاحیہ بات کو یاد کرتے کرتے بہت اچھا گزر جاتا ہے ۔کبھی دوستوں کے ساتھ مل پارٹی کرنے میں دلی خوشی محسوس ہوتی ہے ۔پارٹی صرف نام کی پارٹی ہوتی ہے ۔ اس میں پارٹی جیسا کچھ بھی نہیں ہوتا ہے ۔ مگر خوشی کا احساس خالص ہوتا ہے ۔ کبھی کھیل میں ایک دوسرے کو داد دینا بہت اچھا لگتا ہے ۔ اچھی کا رکردگی دکھانے پر داد ملنے پر خوشی کا ایسا احساس ہوتا ہے جو لفظوں میں بیاں ہو ہی نہیں سکتا ۔ خوشی کے ان سچے احساسات کے ساتھ انسان ایک دوسرے سے جلنا ، حسد کرنا ، جھوٹ بولنا اور دوسری معاشرتی برائیاں سیکھ جاتا ہے ۔ چونکہ ہر انسان کا سوچنے، سمجھنے اور محسوس کرنے کا طریقہ الگ ہوتا ہے ۔ اس لیے ہرانسان اپنے اندر کچھ احساسات کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتا ہے ۔ اسی سٹیج پر انسان کو انسانیت کا سبق ملتا ہے ۔ اسے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اسے انسانیت کے دکھ ، درد کو سمجھنا ہے یا جیسے دنیا چلتی ہے ویسے اس نے بھی چلنا ہے ۔جب خد ا خدا کرکے سکول سے رخصتی کا پروانہ ملتا ہے۔ انسان سکھ کے سانس صرف چند دن ہی لے پاتا ہے ۔میرے لحاظ سے یہ دن انسان کے احساسات کے آخری دن ہوتے ہیں ۔ کیونکہ ان دنوں کے بعد انسان کے کانوں میں مقابلہ (کمپی ٹیشن) کی گونج سنائی دینا شروع ہو جاتی ہے ۔ انسان کے دماغ میں یہ بات کوٹ کوٹ کر بھر دی جاتی ہے کہ بھئی اگر اپنی زندگی میں کچھ کرنا چاہتے ہو تو مقابلے کا حصہ بنو۔کمپی ٹیشن کس سے کرنا ہے ؟ انسانوں سے کمپی ٹیشن کرنا ہے ؟تب پھر انسان کی سٹیج پر بھاگ دوڑ کا کردار شروع ہو جاتا ہے ۔ضروری نہیں ہے کہ ہر انسان اپنی زندگی میں ان حالات سے دو چار ہوتا ہوں۔ دنیا کی سٹیج پر انسان کی اصل ایکٹنگ شروع ہو جاتی ہے ۔ کالج کی زندگی میں شائد کچھ سکون ہو، مگر اس سٹیج پر دوسروں کے کردار اسے بتاتے ہیں کہ اب تم بڑے ہو گئے ہو ں۔ ذرا جلدی کرو ۔ کمپی ٹیشن میں اپنی جان لگا دو۔ جلدی کامیابی حاصل کرو۔ ابھی تم نے دنیا میں دیکھا ہی کیا ہے ؟یہ احساسات انسان کو بے حس کر دیتے ہیں ۔ انسان بھول جاتا ہے کہ اس کی زندگی پرکتنے لوگوں کا حق ہے ؟ اسے دوسرے کردار بتائے گئے کمپی ٹیشن کو جیتنا ہے ۔ انسان کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ اگر وہ جینا چاہتا ہے تو اسے یہ مقابلہ جیتنا ہی ہو گا۔ کالج کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد یونیورسٹی کی حدود میں داخل ہو کر انسان کی ایک دفعہ دنیا بدل جاتی ہے ۔ اس سٹیج پر دوسرے کردار اسے بتاتے ہیں کہ یہ سٹیج کتنا خوبصورت ہے اور اس میں کتنی رنگینیاں ہیں ۔ اسے پتہ ہوتا ہے کہ وہ بہت سی امیدوں کا محور ہے ۔ اسے یہ بھی پتا ہوتا ہے کہ اس کی آس میں بیٹھے اس چاہنے والوں والے کتنی مشکلات جھیلنے کے بعد اسے اس سٹیج تک پہنچایا ہے ۔ مگر وہ بھول جاتا ہے کہ اس کے باپ نے زمین گروی رکھ کر اس کی یونیورسٹی کی فیس ادا کی ہے ۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس کی والدہ نے اپنی کتنی چوڑیاں بیچ کر اس یونیورسٹی تک پہنچایا ہے ۔ لیکن سب کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا ہے ۔ کیونکہ ہر کسی لاڈلے کے والدین کے حالات ایسے نہیں ہوتے ہیں ۔ان کو تو یہ بتایا جاتا ہے کہ بس تیرا باپ ہے ناں پیچھے ۔ سب سنبھال لے گا ۔ جاؤ جی لو اپنی زندگی ۔ مگر اولادپھر زندگی ایسی جیتی ہے کہ اپنے والدین کو ہی بھول جاتی ہے ۔ یونیورسٹی کی سٹیج تک بھی خوش قسمت ہی پہنچا کرتے ہیں ۔ اس سٹیج پر انسان کے پاس کرنے کے لیے صرف دو کردار بچتے ہیں ۔ ایک کردار تو یہ ہوتا ہے جس سے وہ احسن انداز سے اپنی زندگی کو مصروف ترین بنا سکتا ہے ۔ دوسرا کردار یہ ہوتا ہے کہ وہ آنے والوں کے لیے سبق بن جاتا ہے ۔ اس سٹیج پر انسان کا کردار مکمل طور مصنوعی ہو جاتا ہے ۔ اس کا دکھ ،درد ، خوشی اور غم سب مصنوعی ہو جاتاہے ۔ وہ دوسروں کے چہروں پر مصنوعی مسکراہٹ لانے کے لیے جھوٹی ایکٹنگ کرتا ہے ۔ دوسروں کرداروں سے دلاسہ لینے کے لیے ایکٹنگ کرتا ہے ۔ غرض اس لیول پر اس کی اداکاری کا عملی امتحان ہو تاہے ۔ اس کے بعد اسے دنیا کے سٹیج کی بڑی سکرین پر بھیج دیا جاتا ہے ۔ آسان لفظوں میں کہا جاتا ہے کہ انسان کی عملی زند گی شروع ہو گئی ہے ۔ اس عملی زندگی کے سٹیج پر انسان کا کردار مختلف ہوتے ہیں ۔ لیکن سب کا مقصد تقریباً ایک ہوتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ ملے دوسرے کرداروں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لے اور پھر بھی پوچھے کہ تم نے اپنی طرف سے سو فیصد تو دیا ہے نا ؟ اس سٹیج پر انسان مکمل طور پر ایک مصنوعی انسان بن چکا ہو تا ہے ۔ اس کا غم صرف دکھاوا ہوتا ہے ۔ اس کی خوشی بھی صرف دکھاوا ہوتی ہے ۔ انسان اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ بظاہرانسان جو سٹیج پر ایکٹنگ کر رہا ہوتا ہے وہ اس کے ضمیر کے بالکل بر عکس ہوتی ہے ۔ کیونکہ دنیا ایک سٹیج ہے ۔انسان وہاں پر ایکٹنگ ہی کر سکتا ہے ۔ تب اگر اسے کہا جائے کہ فلاں شخص کو ایسا کام نہیں کرنا چاہیے تھا ؟ آپ خود پاس تھے تو اسے روکنا چاہیے تھا ۔ جواب ملتا ہے کہ جو کرتا ہے کرنے دو ہمیں کیا؟ اگر انسان سے کہا جائے کہ اس طرح انداز ِتخاطب اچھا نہیں ہے تو وہ جواب ملتا ہے چار دن کی زندگی ہے ۔ ہنس کے گزار لینی چاہیے ۔ انسان کس ہنسی اور مسکرانے کی بات کرتا ہے ؟ اس ہنسی اور مسکرانے کی ، جو دوسروں کی اوور ایکٹنگ پر اسے داد کے طور گفٹ کیجائے۔ یاپھر انسان کسی کے لغو بات پر فضول ہنسنے کی بات کرتا ہے ۔ خیر انسان یہ سب کر سکتا ہے کیونکہ دنیا ایک سٹیج ہے ۔مگر یہ دنیا کن لوگوں کے لیے ہمیشہ بہترین سٹیج ہے، اس بات پر کبھی غورو فکر کیے بغیر ہر انسان اپنی اوور ایکٹنگ میں مصروف ہے ۔اس مقصدکو جانے بغیر دنیا ایک سٹیج ہے ، اس سٹیج پر انسان کا کیسا کردار ہونا چاہیے اور بالا آخر اس کا پردہ گرنا ہے ۔ پھر دوسرا منظر سامنے آجانا ہے ۔

Abdul Kabeer
About the Author: Abdul Kabeer Read More Articles by Abdul Kabeer: 25 Articles with 40680 views I'm Abdul Kabir. I'm like to write my personal life moments as well social issues... View More