ہمارے ہاں رائے الوقت نظام کا بڑا مقصد صرف منہ دکھائی رہ
گیا ہے۔ہم دنیاکو دکھانے کے لیے نام نہاد قانون اور ضابطے بنائے ہوئے
ہیں۔عملا ًان کا نہ کہیں اطلاق ہے۔نہ کوئی ا س تکلف کی ضروت سمجھتاہے۔ ان
قوانین اور ضوبط میں قصداًایسی لچک رکھی جاتی ہے کہ اس پرعمل پیرا ہونے کے
اثرات کم ہوجائیں۔کوئی انہیں توڑ بھی دے تو کچھ خاص پکڑ نہ ہو۔اپنے چاہنے
والوں کے لیے بنیادی حقوق کے نام پر ایسے رخنے موجود ہیں جو قانون توڑنے
والے کے لیے بہتیری رعائتیں نکال سکیں۔اسی بندوبست میں نقص عامہ یا نظریہ
ضرورت کے نام پر ایسی سختی بھی رکھی گئی جو مخالفین کونشان عبرت بنانے کے
کام آسکے۔بلوچستان میں جو مکروہ سیاست کا کھیل کھیلا گیا تھا۔اسے آزاد
کشمیر میں بھی کھیلے جانے کی منصوبہ بندی سامنے آئی ہے۔یہاں بھی بلوچستا ن
انقلاب جیسے کسی منصوبے پر کام ہورہا ہے۔بلوچستان میں ہوا یوں تھا کہ جنرل
الیکشن میں یہاں کی کچھ جماعتوں کو کامیابی ملی او رکچھ عوام کی طر ف سے
مسترد کردی گئیں۔عوام نے فیصلہ مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کے حق میں
سنایا۔ان نتائج کی روشنی میں ایک اتحادی حکومت قائم کی گئی۔ نصف مدت کے لیے
جناب مالک وزیر اعلی بلوچستان بن گئے اتحادیوں بالخصوص مسلم لیگ (ن)کو
نسبتا زیادہ تگڑی وزارتیں دی گئیں۔اسی فارمولے کے مطابق جب یہ نصف مدت پوری
ہوگئی تو وزارت اعلی ٰ مسلم لیگ (ن) کے سپرد کردی گئی ساتھ ہی تگڑی وزارتوں
کے سربراہان میں بھی تبدیلی آگئی۔یہ فارمولا بڑی کامیابی سے چل رہا
تھا۔معاملات سموتھ انداز میں چل رہے تھے۔ بلوچستان میں امن اور خوشحالی نظر
آنی لگی۔ایک لمبے عرصے بعد یہاں گولا بارود کی فضا نظر نہیں آئی۔سی پیک کے
نام پر بلوچستان محور منصوبہ بنا۔جو گوادر سمیت سارے بلوچستان میں ترقی کی
نئی منزلیں لاتا۔حالات نارمل تھے۔ یکا یکی سب کچھ تلٹ پلٹ کردیا گیا۔
ممبران اسمبلی کی وفاداریاں راتوں رات تبدیل ہوگئیں۔ اچانگ ہی وزیراعلی اور
کابینہ میں ایسے نقائص نظر آنے لگے کہ تین چا ر ماہ بعد آنے والے جنرل
الیکشن کا بھی انتظار نہ ہوسکا۔ تحریک عدم اعتماد کی تحریک لاکر حکومت کو
فارغ کردیا گیا۔اس انقلاب کے سازش ہونے کے لیے اتناثبوت ہی کافی ہے کہ عدم
اعتماد کرنے والوں نے اس اقلیت کو چوہدراہٹ دے دی جسے عوام الناس نے مستر د
کردیا تھا۔جس پارٹی اور سوچ پر یہاں کی عوام نے اعتماد کیا۔اسی پارٹی اور
سوچ کو روند دیا گیا۔
بلوچستان کے انقلاب کے بعد اب آزاد کشمیرمیں انقلاب لانے کی خبریں آرہی
ہیں۔منصوبہ یہ ہے کہ وہاں سے بھی نوازشریف کانام مٹادیا جائے۔یہاں جو لوگ
مسلم لیگ (ن)سے متعلق ہیں۔ان پر ڈورے ڈالے جارہے ہیں۔وزیراعظم اور صدر آزاد
کشمیر کو تبدیل کرنے کی سوچ ہے۔وزیر اعظم فاروق حیدر کوفارغ کرکے ان کی جگہ
شاہ غلام قادر کو وزیر اعظم بنوانے کا منصوبہ ہے۔یہی نہیں صدر آزاد کشمیر
مسعود خاں کو ہٹاکر طارق فاروق کو یہاں براجمان کرنے پر کام
ہورہاہے۔نوازشریف حکومت کے اتحادیوں کو ٹٹولا جارہا ہے۔اس کے ممبران اسمبلی
پر وہی سحر پھونکا جارہا ہے۔جو بلوچستا ن میں کامیا ب رہا۔بظاہر اس سازش کی
کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ہمارے ہاں سیاست ابھی اتنی پاکیزہ نہیں
ہوئی کہ کسی ممبر اسمبلی کے لیے اپنے سفر کے آغاز او راحتتام کی ڈگر ایک ہی
رہے۔ہمارے نظام میں موجودبیسیوں کمزوریاں ان کی نیت اور ارادے بدل جانے کا
سبب بن جاتی ہیں۔ ووٹروں سے بے وفائی پر کوئی پکڑنہیں نہ قیادت سے غداری پر
کوئی حساب۔اس نظام میں پکڑ او ر حساب کا پراسس اتنا پیجیدہ ہے کہ ممبران کو
گرفت میں لانا ناممکن سا ہے۔الٹا ضمیر کی آواز کے نام پربے وفائی او رغداری
کے لیے بے پناہ راستے موجود ہیں۔بلوچستان میں بے وفائی اور غداری کے اس
کھیل کو تو بلوچستان کی محرومیت دور کردیے جانے کا نام ملا ہے۔دیکھیں آزاد
کشمیر میں اس انقلاب کو کیا نام ملتاہے۔ممکن ہے۔اسے کشمیر کی حقیقیآزادی
کانام دے دیاجائے۔مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ حقیقی آزادی اتنی ہی مفید
ہوگی۔جتنی بلوچستان میں احساس محروم ختم ہوپایا۔ جب تک ریاست کا تقدس
اداروں میں مقدم نہ قرار پائے گا۔اس طرح کے ٹوپی ڈرامے ہوتے رہیں گے۔جن
لوگوں کو عوام مستر د کرتی ہے۔اسے چوردروازوں سے اندر
گھسادیاجاتاہے۔ہرریاست اپنی عوام کے تحفظ اور فلاح کے لیے ادارے قائم کرتی
ہے۔یہ ادارے جو ریاست کی مضبوطی کے ضامن ہونے چاہییں کبھی کبار ریاست پر
بوجھ بن جاتے ہیں۔ایسی ریاست میں عوا م توجہ کا محور نہیں رہتی اس کی حالت
محض بھیڑ بکریوں جیسی رہ جاتی ہے۔جنہیں جہاں چاہے ہانک کر بٹھا دیا جائے۔
|