بے قراری سی بے قراری ہے (قسط نمبر ٢١)

بے قراری سی بے قراری ایک سماجی رومانوی و روحانی ناول ہے جس کی کہانی بنیادی طور پر دو کرداروں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ عبیر جو ایک فیشن ڈیزائنر ہے اور اسلامی فیشن میں کچھ نیا کرنا چاہتی ہے۔ تیمور درانی جو ایک ملحد ہے جس کے خیال میں محبت اور زندگی بے معنی ہے۔

دفتر میں کام کے دوران تو مجھے کوئی خیال نہ آتا۔ پر جب بھی فارغ ہوتی تو تیمور درانی کے بارے میں ہی سوچتی۔ اب وہ مجھے کب بلائے گا اور کیا کرنے کو کہے گا۔ آگے کیا ہو گا؟ یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟
مجھے یہ بھی ڈر رہتا: اگر دفتر میں یا میرے سسرال والوں میں سے کسی کو پتا چلا کہ میں تیمور درانی کے گھر جاتی ہوں تو کتنا برا ہو گا۔
میں تو کسی کو سمجھا بھی نہ پاؤں گی، میں وہاں کیا کرنے جاتی ہوں۔ میں نے چپکے چپکے دوسری نوکریوں کے لیے بھی اپلائی کرنا شروع کیا۔ ایک دو جگہ انٹرویو بھی دیے۔ مگر سیلری بہت کم ہوتی۔
تیمور درانی نے مجھے سونے کے پنجرے میں قید کر لیا تھا۔ کاش کاشف جلدی سے پاکستان آ جائے۔
کارپوریٹ سیکٹر کا ماحول عجیب ہوتا ہے۔ یہاں پر آئے دن پارٹیز، گیٹ ٹو گیدر، ٹرپس چلتے ہیں۔ شروع شروع میں تو میں ان سب کاموں سے دور رہتی، گھریلو مصروفیت کا بہانہ بنا دیتی۔ پھر مجھے احساس ہوا، لوگ میرے ساتھ روکھے روکھے سے رہتے۔ وہ سمجھتے: میں بہت پراؤڈی ہوں اسی لیے ایسا کرتی ہوں۔
میں ان پارٹیز اور گیٹ ٹو گیدرز میں بہت بور ہو جاتی، اوپر سے خرچہ بھی کافی ہو جاتا۔ ہر بار نیا سوٹ، عبایہ، میچنگ نقاب، جیولری، جوتے اور بیگز لینے پڑتے۔ میں اگر یہ سب نہ کرتی تو لوگ طنزیہ نظروں سے غریب کہتے۔ وہاں ماحول بھی کافی لبرل ہوتا جس میں ڈرنکس لازما سرو کی جاتیں۔ مجھے تو شراب دیکھ کر ہی متلی ہونے لگتی۔ وہاں سب لوگ شراب پینا معمولی بات سمجھتے۔
ان گیٹ ٹو گیدرز میں تیمور درانی بھی شریک ہوتا۔ تمام لوگ اس کی خوشامد اور توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ وہ جذبات سے عاری چہرے کے ساتھ کسی کونے میں بیزار بیٹھا ہوتا۔ میں نے ان پارٹیز کے دوران اسے کبھی ہنستے نہیں دیکھا۔
مجھے اب اس پر ترس آنے لگا۔ یہ عجیب شخص ہے۔ نہ جانے اسے کس بات کی سزا ملی ہے۔
کیا کسی کو یہ بات معلوم ہے کہ یہ طاقت ور شخص اندر سے ذلت اور درد کی خواہش رکھتا ہے؟
یہ نازک سی لڑکیوں کو بلاتا ہے اور ان کے ہاتھوں تشدد کروا نا پسند کرتا ہے۔
میں سارا وقت چھپ چھپ کر تیمور درانی کو دیکھتی رہتی۔ اس نے مجھ سے بات کرنے اور توجہ دینے کی کوشش نہیں کی۔
شکر ہے۔ جتنا اس سے دور رہوں بہتر ہے
مگر چھپ چھپ کر کن اکھیوں سے دیکھتی بھی رہتی۔ کہیں وہ مجھے دیکھ تو نہیں رہا۔ کافی دیر بعد خیال آتا، آخر یہ مجھے دیکھ کیوں نہیں رہا۔ اتنا بھی کیا اگنور کرنا؟
کچھ دنوں بعد تیمور درانی کے گھر کی طرف جاتے ہوئے میرا خوف کم تھا۔ میں اس کے گھر سے آشنا ہو گئی تھی۔ اس کا جرمن شیفرڈ کتا مجھے دیکھ کر سکون سے بیٹھا رہتا۔ میں البتہ پھر بھی ڈرتی۔ کتوں کا کیا بھروسا کب بھونکنا چھوڑ کر کاٹنا شروع کر دیں۔
گھر کے نوکر بہت فرمان بردرا تھے۔ وہ نظریں نیچی کر کے آتے اور اسی طرح چلے جاتے۔ مجھے اس گھر کے خانساماں سے ملنے کی خواہش تھی جو اتنے مزے کے کھانے اور کافی بناتا ہے۔ میں لائبریری میں موجود کتابوں کی بھی ورق گردانی کر لیتی۔ مجھے کتابوں کے آئیڈیاز سے زیادہ کتابوں کی خوشبو اچھی لگتی۔ کئی کتابیں تو میں نے صرف ان کی خوشبو کی وجہ سے پڑھیں۔
ہماری اس طرح کی دوسری ملاقات تھی۔ اس نے گرین پولو شرٹ اور خاکی کاٹن ٹراؤزر پہن رکھا تھا۔ لگتا تو یہ ینگ اور ہینڈسم ہے۔ پر اس کے خیالات ستر سال کے بوڑھوں جیسے ہیں۔ زندگی سے یوں مایوس پھرتا ہے جیسے کل ہی قیامت آنے والی ہو۔
اس کے چہرے پر وہ پرانی والی سختی نظر نہ آئی جو وہ باقی لوگوں کے ساتھ رکھتا تھا۔ شاید وہ یہاں کسی قسم کی ایکٹنگ نہیں کرنا چاہتا۔ میں نے کافی پیتے پیتے اس سے پوچھا۔
تم نے ان ساری کتابوں میں سے کتنی کتابیں پڑھی ہوں گی۔
کوئی آٹھ سو نو سو کتابیں تو پڑھی ہوں گی۔ لیکن گن کون رہا ہے۔
نو سو کتابیں ! تم اپنی مصروفیت سے اتنا ٹائم نکال کیسے لیتے ہو؟
بزنس اب میرا اتنا ٹائم نہیں لیتا، زیادہ کام تو میری ٹیم ہی کرتی ہے، میں صرف اوور ویو کرتا ہوں۔ میری نیند بہت تھوڑی ہے۔ رات گئے تک میں ہوتا ہوں اور کتابیں ہوتی ہیں۔
کتابیں مجھے کچھ دیر کے لیے کسی اور دنیا میں لے جاتی ہیں۔ میں کہانیوں کے کرداروں کی زندگی بسر کرتا ہوں اور اپنے اندر کے خلا کو بھول جاتا ہوں۔
میں کسی حد تک اس کی بات سمجھ سکتی ہوں کیوں کہ میں نے بھی کئی بار ایسا محسوس کیا ہے۔ ہمیں ایک نامعلوم دنیا کا احساس صرف کتابوں سے ہی ملتا ہے۔
تمھیں کس طرح کی کتابیں پسند ہیں۔
میں نے خود پر کوئی قید نہیں لگائی کہ کیا پڑھنا ہے اور کیا نہیں پڑھنا۔ جو موضوع بھی دلچسپ لگے اس پر کتاب پڑھ لیتا ہوں۔ اچھا ادب اور تاریخ میرے پسند کے مضامین ہیں۔ کسی بھی اچھے شعر، افسانہ اور ناول میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ یہ زندگی کی خوبصورتی اور بدصورتی کو بالکل نئے زاویے سے دکھا دیتا ہے۔ ایک اچھی کتاب میں ایسا جادو ہوتا ہے کہ آپ چاہ کر بھی اسے چھوڑ نہیں سکتے۔
تم شعر بہت پڑھتے ہو۔ تمھیں کس قسم کی شاعری اچھی لگتی ہے؟
مجھے اردو کلاسیکی شاعری زیادہ پسند ہے جس میں جدائی، غم، مقدر کا جبر اور حزن کی کیفیت ہوتی ہے۔ میر، غالب اور جون ایلیا کے ہاں یہ کیفیت اپنے عروج پر ہے۔ جون مجھے اس لیے زیادہ پسند ہے۔ اس کی ساری شاعری چلا چلا کر کہتی ہے: وہ بھی میری طرح ایک رائیگاں شخص تھا۔
اپنا خاکہ لگتا ہوں
ایک تماشا لگتا ہوں
اب میں کوئی شخص نہیں
اس کا سایہ لگتا ہوں
میں نے سہے ہیں مکر اپنے
اب بیچارہ لگتا ہوں
جون بھی خدا کو بھلا بیٹھے تھے
ہم وہ ہیں جو خدا کو بھلا بیٹھے ہیں
تو میری جان کس گمان میں ہے
کون سے اردوافسانے اور ناول تمھیں اچھے لگتے ہیں؟
مجھے منٹو اور غلام عباس کے افسانے ہیں۔ ان دونوں کی حقیقت نگاری آپ کا دل چیز دیتی ہے۔ میں منٹو کے کردار وں کو سمجھ سکتا ہوں۔ اس نے اپنے کرداروں کی نفسیات کو جس گہرائی سے بیان کیا ہے، وہ آرٹ کا ایک ماسٹر پیس ہے۔
ناولوں میں قراۃ العین حیدر کے ناول مجھے ڈبو دیتے ہیں۔ عینی آپا کی تحریریوں کے علاوہ اگر کوئی ناول اچھا لگا ہے تو وہ مستنصر حسین تاڑڑ صاحب کا "راکھ" ہے۔
پھر وہ بڑی دیر تک ادب، شاعری اور پینٹنگز کے بارے میں بات کرتا رہا۔ ان چیزوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس کا انداز بڑا دلچسپ ہوتا جیسے اسے خود بھی اچھا لگ رہا ہو۔ ویسے تو اس کے چہرے سے ہر دم بیزاری ہی نظر آتی تھیمگر یہاں معاملہ الٹ ہوتا۔
یہ موضوعات میرے بھی پسندیدہ تھے اسی لیے میں بھی اپنی رائے بتاتی رہی۔ ہم دونوں کی پسند کافی حد تک ایک ہی تھی مگر مجھے ادب میں زندگی اور خوشی کی تلاش ہوتی تھی۔ جبکہ اسے موت اور غم کی۔
ایک جیسی بات سے ہم دونوں مختلف مطلب لیتے تھے۔ کہیں خدا کو ماننے کے متعلق بھی یہی بات تو نہیں؟
جب اس نے پینٹنگز کے بارے میں بات کرنا شروع کی تو مجھے لائبریری اور گھر میں موجود مختلف پینٹگز دکھانے لے گیا۔ وہ ہر پینٹنگ کے پاسرک کر اس کی گہرائی بیان کرتا۔
وہاں خطاطی کے اعلیٰ نمونے بھی موجود تھے۔ عجیب بندہ ہے اللہ کو نہیں مانتا مگر اس کے پاک ناموں کو اپنے گھر میں خوبصورتی سے سجایا ہوا ہے۔
ہماری دلچسپ گفتگو کو ایک کال نے انٹرپٹ کیا۔ کال ختم کرتے ہی اس نے مجھ سے کہا کہ اسے ایک ایمرجنسی میں کہیں جانا ہے اس نے تفصیل تو نہیں بتائی اس کے چہرے کی ناگواری سے یہیلگا، جیسے اسے اپنی پسندیدہ ایکٹیوٹی چھوڑ کر جانا پڑا ہو۔
میں نے شکر ادا کیا کہ آج مجھے اس خوفناک کمرے میں نہیں جانا پڑا۔
تیمور درانی بھی تضادات سے بھرپور شخصیت تھا۔ ظاہری طور پر اسے طاقت اور پیسہ حاصل کرنے سے دلچسپی تھی اسی لیے وہ آئے دن نئے بزنس کھولتا ہے۔ مگر یہی طاقت ور شخص اپنی تنہائی میں معصوم لڑکیوں کے ہاتھوں تشدد کروا نا پسند کرتا تھا۔
اپنی باتوں اور خیالات سے خدا کو ریجیکٹ کرتا تھامگر اس کے پاک ناموں کو خوبصورتی کے طور پر گھر میں سجا کر بھی رکھتا تھا۔
مادہ پرست تھا لیکن اسے شعر و ادب سے اسے ایک روحانی خوشی ملتی تھی۔
زندگی کی تلخیوں نے بیچارے کو تضادات کا مجموعہ بنا دیا تھا۔ کوئی ایمان والی لڑکی اسے کیسے ٹھیک کر سکتی ہے؟ ٹھیک ہے محبت میں بہت طاقت ہوتی ہے پھر بھی یہ شخص ناقابل اصلاح لگتا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
شگفتہ خدا کے لیے آہستہ گاڑی چلاؤ، تم ایکسیڈینٹ کروا ؤ گی۔ میں نے پریشانی سے کہا۔ میری پریشانی دیکھ کر شگفتہ ہنسنے لگی۔
آپی آپ بھی ویسے ہی پریشان ہوتیں ہیں۔ دیکھیں میری گرپ کتنی اچھی ہو گئی ہے۔ یہ کہتے ہی اس نے ایک خطرناک کٹ مار کر ایک گاڑی کو اوور ٹیک کیا۔
شگفتہ کی بچی ابھی تمھار الائسنس نہیں بنا اگر کسی گاڑی کو ہلکا سے بھی ٹچ ہو گیا تو تمھارا ہی قصور ہو گا۔ میں نے غصے سے کہا۔
شگفتہ نے گاڑی کی سپیڈ تھوڑی کم کر لی۔
اس کے ذہن سے گاڑی لے کر یونیورسٹی جانے کا بھوت ابھی تک نہیں اترا کہتی وہ مجھے خود آفس ڈراپ کر دیا کرے گی۔ پہلے تو میں نہ مانی۔ لیکن اس کی منتوں اور پھر جذباتی بلیک میلنگ نے مجھے ماننے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بقول میں نے تو سارا دن آفس سے نکلنا نہیں ہوتا۔ گھر میں سو کام پڑتے ہیں۔
اس کی باتدل کو لگی چھوٹے موٹے کاموں کے لیے بھی شگفتہ کوہی جانا پڑتا تھا تو گاڑی میں جانا اس کے لیے سیف تھا۔ یونیورسٹی سے آتے ہوئے بھی اسے کوئی تنگ نہیں کرے گا۔
اس کی ڈرائیونگ دیکھ کر مجھے بہت ڈر لگتا۔ وہ میری لڑکیوں والی چھوٹی سی گاڑی کو بھی ریسنگ کار کی طرح چلانے کی کوشش کرتی۔ کبھی کبھی میں سوچتی کہ اس کے اندر کسی لڑکے کی روح گھسی ہوئی ہے۔ یونیورسٹی میں بھی وہ ہر کام میں آگے آگے ہوتی کبھی فنکشنز آرگنائز کروا رہی ہوتی۔ کبھی گیموں میں حصہ لیتی۔ ٹیبل ٹینس اور بیڈ مینٹن کا تو اسے بچپن سے ہی شوق تھا۔ سکول کالج میں کئی مقابلوں میں انعام بھی لیتی رہی۔ اب کچھ عرصے سے شطرنج کا شوق بھی چڑھ گیا تھا۔
کہتی ہے دماغ کے لیے بہت اچھا کھیل ہے۔
اتنے دماغ کا اس نے اچار ڈالنا ہے۔
آپی، ہمارے معاشرے کی لڑکیوں نے خود کو ویسے ہی چھوئی موئی بنایا ہوا ہے۔ وہ ہر کام کے لیے مردوں کی محتاج ہیں۔ مرد ان کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اب اگر آپ ابا کی بات مان کر اپنی تعلیم چھوڑ دیتیں تو آج ہمارا کیا حال ہوتا۔ ابا اور اماں کے خاندان میں سے کوئی بھی ہماری مدد کو نہیں آیا۔ سب لوگ زبانی تسلیاں دے کر چلے جاتے تھے۔ ابا کے دوستوں نے بھی قرضہ کی ادائیگی کے لیے کتنا پریشر ڈالا۔
اسی لیے میں مانتی ہوں، لڑکیوں کو شادی سے پہلے اور بعد میں انڈیپینڈنٹ ہونا چاہیے۔ اس کے لیے انھیں تعلیم یا ہنر سیکھنا چاہیے۔
اس کی باتوں میں وزن تھا۔ پھر بھی شوق اور مجبوری میں تو یہ سب ٹھیک ہے۔ اگر ساری لڑکیاں ہی یہ کرنے لگیں تو گھروں کا نظام کیسے چلے گا؟ بچوں کا کیا ہو گا؟ مجھے اپنا کام پسند ہے پھر بھی جب میرے بچے ہوں گے تو میں زیادہ وقت ان کے ساتھ بتانا چاہوں گی۔ میں انھیں سارا دن کسی آیا کے پاس چھوڑ کر کیسے کام کر سکتی ہوں۔
شام کو میں نے فیس بک کھولی۔ سب سے پہلے کاشف کی اپ ڈیٹس کے بارے میں دیکھا۔ وہ اسلامک سینٹر میں کسی شادی میں شریک ہوا تھا۔ شادی میں مختلف ممالک کے مسلمان نظر آئے۔ لڑکیاں نے بہت خوبصورت عبایوں میں تھیں۔ یہ تصویریں کاشف نے اپ لوڈ نہیں کیں تھیں بلکہ کاشف کو صرف ٹیگ کیا گیا تھا۔ کاشف ان تصویروں میں کافی خوش نظر آیا۔ اس کی خوشی دیکھ کر میں اداس ہو گئی۔
یعنی وہ وہاں ہماری جدائی کو انجوائے کر رہا تھا۔ میں نے غور کیا تو کئی تصویروں میں کاشف ایک ہی حجاب والی لڑکی کے ساتھ تھا۔ سائیڈ سے لی گئی تصویر میں تو دونوں ہنس بھی رہے تھے۔ مجھے شدید جلن ہوئی۔
میں نے غصے میں لیپ ٹاپ ہی بند کر دیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد بے چینی ہوئی۔ دیکھوں تو سہی یہ لڑکی کون ہے۔
میں نے ٹیگز والی پروفائلز دیکھنا شروع کیں تو امیرہ نام کی لڑکی نظر آئی۔ وہ لڑکی ہر تصویر میں عبایہ میں تھی۔ اس کے چہرے کی خوبصورتی دیکھ کر میرے منہ سے سبحان اللہ نکل گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی کیسا کیسا حسن بنایا ہے۔ اس کے چہرے پر نظر نہیں ٹھہرتی تھی۔ دودھ جیسا سفید رنگ، نیلی آنکھیں۔
میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔
یا اللہ کاشف کو بچائیں۔ اس حسن پر کون نہ قربان جائے۔
میں نے فوراً کاشف کو کال ملائی۔ اس کی آواز میں وہ پہلے جیسی تازگی نہیں تھی۔ جیسے اسے اس وقت کال کرنا برا لگا ہو۔ حالانکہ آج تو چھٹی کا دن تھا۔ ہمارے درمیاں بھی زمینی فاصلوں نے کیسی دوریاں پیدا کر دی تھیں۔
اس کی بے رخی مجھے بہت چھبی۔ میں نے بھی روٹھنے کی کوشش کی۔ اس نے بھی لاپرواہی دکھائی۔ اس نے وہی اپنی ٹریننگ اور مصروفیت والی رسمی باتیں کرنا شروع کیں۔ میرا دل بالکل اچاٹ ہو گیا۔ میں چاہتی وہ ہماری زندگی اور مستقبل کی باتیں کرے۔ میری زندگی کے بارے میں پوچھے کہ میں کیا کر رہی ہوں۔ میں کیا محسوس کرتی ہوں۔ وہ الٹا ان خشک سی باتوں کو لے کر بیٹھ گیا۔
میں نے شادی میں اس کی شرکت کا پوچھا تو اس کے لہجے میں تھوڑی سی خوشی چھلکی۔ وہ ایکامیریکن نومسلم لڑکی اور ٹرکش لڑکے کی شادی تھی۔ دونوں کے مسلم فرینڈز نے شرکت کی۔
عبیر یہاں کی مسلم کمیونٹی بہت متحد ہے۔ یہاں مسلمان ہونے والے لڑکے لڑکیاں اسلام کو خوب سوچ سمجھ کر اپناتے اور عمل کرتے ہیں۔ یہ ہماری طرح پیدائشی اور روایات کے غلام مسلمانوں نہیں ہیں۔
ان مسلمانوں کو کسی روایت اور رسم کی پروا نہیں ہے۔ یہ لوگ ہماری طرح کسی کنفیوژن کا شکار نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں: اسلام ایک جدید مذہب ہے جو آج کے دور کے تمام مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔
میں نے ظاہری لاپرواہی سے امیرہ کا پوچھا۔
امیرہ کا ذکر کرتے ہوئے کاشف کا لہجہ بدل گیا۔ اس نے امیرہ کے بارے میں یوں بتایا، جیسے وہ سالوں سے اسے جانتا ہوں۔
مجھے کاشف کا کسی اور لڑکی کو اتنا جاننا اچھا نہ لگا۔
امیرہ نومسلم تھی۔ اس کا پرانا نام کیرن تھا۔ اس کے پردادا 1850 آئیرلینڈ سے امریکہ مزدوری کرنے آئے اور یہی سیٹل ہو گئے۔ امیرہ کا باپ پہلی گلف وار میں مارا گیا۔ اس کی ماں نے اکیلے ہی اسے پالا۔ امیرہ نے سائیکالوجی پڑھنے کے بعد اپنی پریکٹس شروع کی۔ امیرہ کی ماں ایتھسٹ تھی۔ اسی لیے اس نے گھر میں خدا کا ذکر نہیں سنا۔ اسے ہمیشہ سے ہی انسانیت کو اپنا مذہب ماننے کی تربیت دی گئی۔ یونیورسٹی میں اس کی دوستی عربی لڑکیوں سے ہوئی۔ ان کے لباس، تہوار، کھانے، اور فیملی ویلیوز اسے بہت اچھی لگیں۔ اس نے مڈل ایسٹ کے کئی چکر لگائے۔ وہاں اپنی دوستوں کے گھروں میں گئی۔ اس نے ہمیشہ سنا تھا مسلمان بہت بیک ورڈ ہوتے ہیں۔ مسلم عورتیں بیچاری بے بسی کی تصویر ہیں۔ جب اس نے خود عرب ملکوں میں جا کر دیکھا تو اسے معلوم ہوا: مسائل تو ہیں، مگر مسلم تہذیب میں ایک عجیب گہرائی اور کشش ہے۔ لوگ بے تحاشہ مسائل اور غربت کے باوجود خوش ہیں۔ وہ اپنے مسائل کو عارضی اور اس دنیا تک سمجھتے ہیں۔
اللہ پر ایمان انھیں مسائل سے نبٹنے کی طاقت دیتا ہے۔ اس کا اسلام کے بارے میں انٹرسٹ پیدا۔ اس کئی سال سنجیدہ انداز سے اسلام اور مسلمانوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔ جس کے بعد اس کا کامل یقین ہو گیا: خدا موجود ہے، اور اسلام ہی سچا دین ہے۔ کیرن نے اپنے پاکستان کے ٹور کے دوران اسلام قبول کر لیا۔
اپنی ٹریننگ کی دوران کاشف پر ورک لوڈ اتنا پڑا کہ اسے ڈپریشن ہو گیا۔ کانسلنگ کے سلسلے میں اس کی ملاقات امیرہ سے ہوئی۔ امیرہ مسلم کمیونٹی سینٹر کے کاموں میں بھی کافی ایکٹیو ہے اسی لیے کاشف کی ملاقات اس سے رہتی تھی۔
مجھے امیرہ کی ایمان افروز کہانی تو اچھی لگی۔ لیکن اس کا کاشف کے ساتھ انٹیریکشن میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بجانے لگا۔
میں نے پو چھا، وہ پاکستان کب واپس آئے گا۔
ابھی تین مہینے ہیں۔ اس کے بعد ہی کچھ پتا چلے گا۔
کیا مطلب اس کے بعد کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ تم واپس نہ آؤ؟ میں نے پریشانی سے پوچھا۔
اس کے بعد میری پرفارمنس دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جائے گا: مجھے پاکستان میں بھیجنا ہے یا امریکہ آفس میں ہی سیٹل کرنا ہے۔
مگر تم انھیں بتا کیوں نہیں دیتے، تم پاکستان میں ہی اپنی فیملی کے ساتھ رہنا چاہتے ہو۔ میں نے تھوڑا جذباتی انداز سے کہا
عبیر میں انھیں کیسے کہہ دوں، یہ ونس ان آ لائف ٹائم آپرٹیونٹی ہے۔ یہاں میں نے اگر کچھ سال بھی لگا لیے تو میرے کیرئیر کو پر لگ جائیں گے۔ دوسرا مجھے یہاں کا ماحول بہت اچھا لگا ہے۔ یہاں وہ مسائل نہیں ہیں جو پاکستان میں ہیں۔ وہاں مذہبی منافقت، دہشت گردی اور فساد اتنا زیادہ ہے، کہ انسان کی دنیا اور آخرت دونوں کی خراب ہوتی ہیں۔
میرے دل پر چوٹ لگی۔ اس نے ایک لمحے کے لیے بھی مجھے سے میری پسند نہیں پوچھی۔ آیا میں امریکہ میں سیٹل ہونا چاہتی بھی ہوں؟۔
اس کی باتوں سے میرا ذکر بہت ہی کم ہو گیا۔
اسی دوران اس نے کسی ضروری کام کا بہانہ کر کے فون کال ختم کر دی۔ مجھے بہت دکھ ہوا۔ پہلی تو وہ ایسا کبھی نہیں کیا۔ کہیں اس کے دل میں میری محبت ختم تو نہیں ہو گی؟ اللہ نہ کرے۔
شکوک و شبہات کے سانپ سر اٹھانے لگے۔ اگر امیرہ نے کاشف کو مجھ سے چھین لیا تو میں کیا کروں گی۔ اگر کاشف نے شادی کو کچھ سال مزید روک دیا تو کیا ہو گا۔
او میرے خدا میں یہ برداشت نہیں کرپاؤں گی۔
وہ کون سا لمحہ تھا جب میں نے کاشف کو امریکہ جانے کی اجازت دی!
کاش میں اسے اس وقت روک لیتی۔
مجھے پتا ہوتامرد کی چاہت ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی تو کبھی اسے جانے نہ دیتی۔ میں بھی کتنی سٹوپڈ ہوں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں نے جیسے ہی زور دار ضرب لگائی، تیمور کے جسم کو ایک جھٹکا لگا۔ یوں محسوس ہوا اسے تکلیف ہوئی ہو۔ اس کے منہ اسے ہلکی سی آہ نکلی جس میں درد زیادہ تھا۔ اس کی کمر پر گہرا لال نشان پڑ گیا۔
کیا رک جاؤں؟؟
اس نے کہا کہ مارنا جاری رکھو۔ میں نے پہلے سے زیادہ زور سے مارا۔
کاشف کی بے رخی نے کئی دن تک میرا موڈ خراب کیے رکھا۔ میں نے رابطہ نہ کیا تو اس نے بھی بے رخی دکھائی۔ میری بے بسی اور بے چینی بہت بڑھ گئی۔
مجھے ہر وقت برے برے خیالات آتے۔ اس وقت وہ امیرہ کے ساتھ ہو گا۔ دونوں کی محبت بڑھ رہی ہو گی۔ اللہ میں اڑ کراس کے کیوں نہیں پہنچ جاتی۔
دفتر میں بھی کام میں میرا دل نہ لگتا۔ ہر وقت بے بسی اور غصہ طاری رہتا۔ جب ویک اینڈ پر تیمور درانی نے مجھے بلایا تو میرا پارہ چڑھ گیا۔ میں اپنے کمرے میں بند ہو کر وقت گزارنا چاہتی تھی۔ مجبوراً مجھے تیمور درانی کے پاس جانا پڑا۔
میں نے چھڑی جیسے ہی پکڑی مجھے طاقت کا احساس ہوا۔ کاشف کی بے رخی اور ویک اینڈ خراب ہونا میرے ذہن میں گھومنے لگے۔ میں کسی پر اپنا غصہ اتارنا چاہتی۔
میں نے بہت ہی غصے سے تیمور درانی کو مارنا شروع کیا، میرا غصہ مزید بڑھ گیا۔ میں نے آنکھیں بند کر کے زور زور سے چھڑی چلانا شروع کی۔ تیمور درانی شروع میں تو چپ رہا لیکن میرے مارنے کی شدت میں اضافہ ہوتے ہیں اس کی تکلیف بھری آہوں میں اضافہ ہونے لگا۔
میری اس حالت کا ذمہ دار یہ بھی ہے۔ اس کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔
ہر چوٹ کے ساتھ میری بے چینی میں کمی ہوتی گئی۔ کچھ منٹوں بعد تیمور درانی کی چیخیں کمرے میں سنائی دینے لگیں۔
غصہ ٹھنڈا ہوا تو دیکھا، تیمور درانی نیم بے ہوش ہے اور اس کی کمر پر زخموں سے ہلکا ہلکا خون رس رہا تھا۔
او میرے خدا ! یہ میں نے کیا کر دیا۔۔
میں نے اسے کھولا تو معلوم ہوا کہ وہ ہوش میں ہے اور اس نے مجھے صرف اتنا کہا کہ پریشان نہ ہو۔ ایسا ہوتا ہے۔
مرہم پٹی کرنے کے کچھ دیر بعد ہی وہ یوں اٹھ کر بیٹھ گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس کے چہرے پر تھوڑی سی تکلیف کے ساتھ تازگی نظر آئی جیسے اپنی مرضی کی چیز اسے حاصل ہو گئی ہو۔
اس کے چہرے میں آسودگی دیکھ کر مجھے شدید شرم آئی۔ آج میں نے یہ کیا کر دیا۔ میں ایسی تو نہیں تھی کہ اپنا غصہ اتارنے کے لیے کسی کو پیٹنا شروع کر دوں۔
کیا تیمور درانی کی میرے بارے میں پیشن گوئی ٹھیک ہو گئی؟ کیا میں نے اس کام کو انجوائے کرنا شروع کر دیا تھا۔
نہیں ! میں آئندہ ایسا کبھی نہیں کروں گی چاہے جو مرضی ہو۔
تیمور میں سمجھ نہیں سکی کہ تمھیں اس کام میں کیسے سکون ملتا ہے۔ میں نے اپنی ذہنی کشمکش کو دباتے ہوئے کہا۔
اس نے ایک آہ بھری۔
معلوم نہیں، عبیر !
انسانی نفسیات بڑی کمپلیکس ہے۔ میں خود کو بھی سمجھ نہیں پایا۔ ہر کچھ عرصہ بعد مجھے عنبر کا زندگی سے محروم چہرہ بہت شدت سے یاد آتا ہے۔ میرے جسم میں چیونٹیاں رینگنے لگتی ہیں۔ جب میرے جسم سے تشدد کے بعد خون نکلتا ہے، تو یہ چیونٹیاں بند ہوتی ہیں۔ عنبر کو یوں نہیں مرنا چاہیے تھا۔
یہ درد مجھے واپس انسانوں کی دنیا میں لے آتا ہے۔ میں بھی خود کو مدرسے کا مار کھاتا بے سہارا بچہ سمجھتا ہوں۔ میں جس کا اس دنیا میں کوئی رشتہ نہیں ہے۔ درد کے اس رشتے سے بہت سے لوگوں سے جڑ جاتا ہوں۔ میں کچھ دیر کے کے لیے زندہ ہو جاتا ہوں۔
میرے اندر کا خالی پن کم ہو جاتا ہے۔
عبیر! جب زندگی میں کسی چیز کا کوئی مقصد ہی نہیں، تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے، میں خود پر کیوں تشدد کروا تا ہوں؟
میری اس حرکت کے پیچھے بھی کوئی مطلب و مقصد نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی بے مقصد ہے جیسے میری ماں کا مجھے چھوڑ کر جانا، جیسے میری ماں کا پاگل ہو کر روتے رہنا، جیسے میرے باپ کا نشہ کرنا، جیسے عنبر کی خود کشی، جیسے گلاب خان کا اندھا ہو جانا، جیسے شنو کا رونق بازار بن جانا، جیسے چچا کا قیدیوں کو مارنا، جیسے میرا خدا مجھ سے چھن جانا۔ یہ کہتے ہوئے تیمور درانی کی آواز میں اداسی اتر آئی۔
میں جانتا ہوں کہ میری یہ حرکتیں پاگل پن ہیں۔ نارمل لوگ ایسا نہیں کرتے۔ مگر کیا اپنے سکون اور خوشی کے لیے دنیا سے سرٹیفیکیٹ لینا ضروری ہے۔ کیا سائیکالوجی کا بنایا ہوا نارمل انسان بننا ضروری ہے؟
یہ دنیا عقل مندوں کی وجہ سے نہیں بلکہ پاگلوں، مجذو بوں، باغیوں، جنونیوں، عاشقوں، انقلابیوں، آئیڈلسٹوں کی وجہ سے ترقی کر رہی ہے۔ یہی لوگ نئے نظام، نئے خیالات، نئی دریافتیں اور نئی دنیائیاں دریافت کرتے ہیں۔ اسی لیے ہر دور میں مقتدر طبقے ان کی مخالفت کرتے ہیں۔
انھی کے فیض سے بازار عقل روشن ہے
جو گاہے گاہے جنوں اختیار کرتے رہے
تم جدید عربی شاعری کے امام نزار قبانی کی ہی مثال لو۔ وہ بھی ایک ایسا باغی تھا۔ اس نے مذہب و سماج سے بغاوت کی۔ مقدر نے اسے ایک کے بعد ایک غم دیا۔۔ زندگی میں پہلی محبت بلقیس سے ہوئی، مگر سماج نے ملنے نہ دیا۔ مجبوراً اپنی کزن سے شادی کی۔ جوان بیٹا ایک حادثے میں مارا گیا۔ پہلی بیوی بہت جلد ایک مہلک عارضے کے باعث چل بسی۔ کافی عرصہ بعد بلقیس سے شادی ہوئی۔ خوشی کے یہ لمحے بھی مختصر نکلے۔ کچھ ہی سالوں بعد بلقیس بمباری میں ماری گئی۔ ایک کے بعد ایک فتوی اس کا نصیب بنا۔ ہر رنج و غم کے بعد اس کے قلم سے شاعری کے موتی نکلے۔ اپنے ذاتی غم کو اس خوبصورتی سے کائناتی بنایا کہ زندگی میں ہی امر ہو گیا۔
اس کے لہجے کی اداسی دیکھ کر مجھے اس سے ہمدردی ہوئی۔
اب میں کیا کہہ سکتی تھی۔ اس شخص کے پاس زندگی کی ہر بدصورتی اور بے معنویت کے بارے میں دلیل موجود تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
تیمور درانی کی بات ٹھیک ثابت ہوئی۔ مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی ایک عجیب سی طاقت اور سرور محسوس ہونے لگا۔ میں نے اپنے آپ کو یہ کہہ کر مطمئن کر لیا: ہ اگر تیمور درانی کو اس طرح انسان ہونے کا احساس ہوتا ہے تو مجھے افسردہ ہونے کی کیا ضرورت ہے۔
مجھے یوں لگتا جیسے میں مالکن ہوں اور وہ غلام۔ میں اسے جیسے مرضی سزا دوں۔ میں اس کام کو ایک کھیل سمجھنا شروع ہو گئی۔ مجھے یہ پرواہ نہ رہی کہ تیمور درانی کیا سوچتا اور محسوس کرتا ہے۔ میں تو اپنے ذہن میں اسے کاشف سمجھ کر سزار دے رہی ہوتی۔
میں نے اسے کھلے عام کاشف کہنا شروع کر دیا
کاشف! بتاؤ تم میرے ساتھ بے رخی کیوں برتتے ہو؟
کیا تمھیں مجھ سے بہتر کوئی مل گئی ہے؟
تیمور درانی بھی اس رول پلے کو برا نہ مناتا۔ وہ مجھے اکسانے کی کوشش کرتا
ہاں۔۔ ہاں۔۔ میں تمھیں بھول گیا ہوں۔
مجھے تم سے بہتر کوئی مل گئی ہے۔
کون ہے وہ؟ میں نے غصے سے ایک کوڑا اس کی کمر پر لگایا۔
وہ خاموشی رہا۔۔
میں کہتی ہوں نام بتاؤ اس کا؟ میں نے مزید غصے سے کوڑا مارا
نہیں بتاؤں گا ورنہ تم اسے تنگ کرنا شروع کر دو گی
میں کہتی ہوں، نام بتاؤ مجھے اس حرافہ کا، جو میرا منگیتر مجھ سے چھین رہی ہے۔ میں نے ایک اور کوڑا لگایا۔
آہ۔ میں کتنی بار تمھیں بتاؤں کہ میر اتم سے دل بھر چکا ہے،
مجھے تمھاری جیسی سیدھی سادھی لڑکی نہیں چاہیے۔ مجھے ایک قاتلہ چاہیے۔
اک قاتلہ چاہیے ہم کو
ہم یہ اعلان عام کر رہے ہیں
تم اپنی قاتلہ کو ملنے سے پہلے میرے ہاتھ سے قتل ہو جاؤ گے سمجھے، میں نے شدید غصے سے اسے ایک اور کوڑا مارا۔
دھیان سے سن لو، تم صرف میرے ہو۔
اگر تم نے کسی اور کی طرف دیکھنے کی بھی کوشش کی تو میں تمھاری اور اس لڑکی دونوں کی جان لے لوں گی۔
ہر رول پلے کے بعد میں شرمندہ ہوتی۔
یہ میں کیا کر رہی ہوں؟
مگر ہر بار خود پر کنٹرول کھول دیتی۔
کیا سیچیوشن انسان پر اتنا زیادہ اثر کرتی ہے؟
جیسے ڈرامے اور موویز ہوتی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں، یہ سچ نہیں ہوتیں۔ پر ان کی بنیاد گہرے سچ پر ہوتی ہے۔ ہم ڈرامے میں ایک معصوم لڑکی کے ساتھ برا ہوتے دیکھتے ہیں اور رو پڑتے ہیں۔ کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد ہر روز ایسا ہوتا ہے۔ وہ ڈرامے والی ایکٹرس ہمارے ہی جذبات کی عکاسی کر رہی ہوتی ہے۔
ہمارا غم ذاتی اور چھپا ہوا ہوتا ہے۔ ڈرامہ اور فلم بننے کے بعد لاکھوں لوگوں تک ہمارا غم کمیونیکیٹ ہو جاتا ہے۔
زندگی کے ہر لمحے ہم کوئی نہ کوئی رول ہی تو پلے کر رہے ہوتے ہیں۔ بیٹی، بہن، ماں، ساس، اور نند وغیرہ یہ رول ہی تو ہیں جو ہمیں نبھانے پڑتے ہیں۔ ان رولز کے بیچ ہمارا اصلی روپ کیا ہے یہ بھی ایک سوال ہے؟
شیکسپئیر نے بھی اسی لیے کہا کہ دنیا ایک سٹیج ہے اور ہم سب ایکٹر ہیں۔
میرے رول پلے مجھے کچھ دیر کے لیے اپنی زندگی سے دور لے جاتے۔ میں کچھ دیر کے لیے آزادی سے وہ باتیں کہہ پاتی جو ہمیشہ سینے میں ہی دفن رہ جاتی تھیں۔ میں کاشف کی بے رخی کی بھڑاس کبھی نہ نکال پاتی۔
ہر ہفتے کی ہمارے ملاقات ایک نیا رول پلے ہوتی۔
ایک دفعہ میں نے اسے ایسا ڈاکو سمجھ کر بھی مارا جس نے میرے باپ کی جان لی تھی۔ ایسا کرتے ہوئے میں زار و قطار رونے لگی۔ کاش میں ابا کا بدلہ لے سکتی۔
یہ میرا نفسیاتی کیتھارسس بن گیا۔ میں سارے ہفتے کی ٹینشنز اور غصے کو تیمور درانی پر نکالتی۔ کبھی کبھار کھل کر اسے بھی برا بھلا کہتی۔
تم بھی کتنے کمینے ہو مجھ جیسی معصوم لڑکی کو اس طرح کے فضول کاموں میں انوالو کر لیا ہے۔ جب وہ میرے پیروں میں سر رکھ کر معافی مانگتا تو مجھے عجیب سا سکون آتا۔ جیسے میرے اندر کچھ مکمل ہو گیا ہو۔
اس کمرے سے باہر آتے ہی ہم دونوں اپنے پرانے رولز میں واپس آ جاتے۔ اس کے چہرے پر وہی سنجیدگی لوٹ آتی اور میں وہی چھوئی موئی سی لڑکی بن جاتی۔
شروع میں لگا کچھ ہی ہفتوں بعد اس کا مجھ سے دل بھر جائے گا۔ مگر ایسا نہ ہوا، وہ ہر ہفتے شدت سے میرا انتظار کرتا۔
اس کے علاوہ ہماری ساری باتیں کتابوں، فلموں، گانوں اور پینٹنگز کے بارے میں ہوتیں۔ ان چیزوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے وقت رک جاتا۔
اس نے مجھ سے میری پسندیدہ فلم کے بارے میں پوچھا تو میں نے اسے بتایا۔ مجھے گلزار کی بنائی ہوئی لو سٹوری " اجازت" بہت پسند ہے۔ نصیر الدین شاہ اور ریکھا کی یہ فلم اپنی کہانی اور موسیقی سے میرا دل چیر دیتی۔ شادی کے بعد کی محبت اور پھر جدائی جیسے اس فلم میں دکھائی گئی ہے وہ کمال ہے۔ مجھے تو ہر بار رونا آ جاتا۔
میرا کچھ سامان تمھارے پاس پڑا ہے
ساون کے کچھ بھیگے بھیگے دن رکھے ہیں
میرے اک خط میں لپٹی رات پڑی ہے
وہ رات بجھا دو، میرا وہ سامان بھجوا دو
تیمور درانی کو ہالی وڈ کی سائنس فکش فلم "Inception" بہت پسند تھی۔ یہ آئیڈیا کتنا زبردست ہے، کہ آپ کسی کے ذہن میں ایک چھوٹا سا آئیڈیا بیج کی طرح لگاتے ہو اور وہ خیال وقت کے ساتھ اتنا مضبوط ہوتا جاتا ہے، کہ آپ کی پوری شخصیت کو تبدیل کر دیتا ہے۔
میں اور تیمور درانی آپس میں کس رشتے سے جڑے تھے۔ نفرت کے رشتے سے؟
نہیں ہمارا آپس میں کوئی رشتہ نہیں۔ اس نے میری مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھے وہ سب کرنے پر مجبور کیا جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔
یہ سب جاننے کے باوجود مجھے اس کھیل میں اتنا مزہ کیوں آ رہا ہے؟ میں خوشی خوشی ہر ہفتے اس کے گھر کیوں جاتی ہوں؟ مجھے اس کے ساتھ کتابوں اور فلموں کی باتیں کرنا کیوں اچھا لگتا ہے۔
ہماری موجودگی میں کمرے میں ہلکی آواز میں جو کلاسیکی غزلیں چل رہی ہوتیں
دیکھ کے دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ ایک صبح یاں سے اٹھتا ہے
مجھے نہیں معلوم تھا اب یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔

 

گوہر شہوار
About the Author: گوہر شہوار Read More Articles by گوہر شہوار: 23 Articles with 29119 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.