’’مدارس دینیہ کا نظام امتحانات‘‘

’’یہ کیسے ممکن ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی دن ایک ہی پرچہ ہو، کہیں بھی پرچہ آؤٹ نہ ہو، کہیں بھی نقل سازی اور جعل سازی نہ ہو؟ پھر ایک ہی دن وہ پرچہ بورڈ میں پہنچ جائے؟ ہماری سمجھ میں نہیں آتا اتنی بڑی بڑی یونیورسٹیاں کروڑوں روپے امتحانات پر خرچ کر دیتی ہیں، حکومت سے سیکورٹی مانگتی ہیں، پھر بھی نقل سازی کو روک نہیں پاتیں، یہ دینی مدارس بغیر سیکورٹی کے کیسے نقل پر قابو پا لیتے ہیں؟ حکومتی بورڈز لاکھوں روپے خرچ کر کے بھی کئی ماہ تک درست رزلٹ مرتب نہیں کر سکتے، جب کہ دینی مدارس محض بیس دن میں رزلٹ سامنے لے آتے ہیں؟‘‘ یہ چند سوالات ایسے ہیں جو ہر اُس آدمی کی زبان پر آ جاتے ہیں جسے دینی مدارس کے نظامِ امتحانات سے واسطہ نہیں پڑا۔

دینی مدارس میں امتحان تین طریقوں سے لیا جاتا ہے۔ تحریری، تقریری اور تحریری و تقریری دونوں کو ملا کر۔ تقریری امتحان کا مطلب ہے ’’طالب علم سے سُن کر اس کی ذہانت، حافظے، ذکاوت، معاملہ فہمی اور کتاب سے مناسبت کا جائزہ لینا۔‘‘ ہر تعلیمی ادارے کی طرح دینی مدارس میں بھی سال میں تین مرتبہ امتحان ہوتا ہے۔ سہ ماہی، شش ماہی اور سالانہ۔ سہ ماہی اور شش ماہی امتحان ، ہر مدرسے کی اپنی صواب دید پر ہوتا ہے۔ بعض کتب کا امتحان تقریری ہوتا ہے اور بعض کا تحریری۔ لیکن سالانہ امتحان وفاقی بورڈ لیتا ہے۔ (ہر مسلک کا اپنا اپنا بورڈ ہے، مثلا اہل السنۃ والجماعت دیوبند کا وفاق المدارس العربیہ اور اہل سنت وجماعت بریلی کا تنظیم المدارس وغیرہ۔ یوں کل پانچ بورڈز ہیں)۔ درس نظامی کے فنون سب مدارس کے ایک ہی ہیں البتہ کتب میں معمولی سا فرق ہے۔ درس نظامی آٹھ سالہ کورس ہوتا ہے، جس میں تفسیر،اصول تفسیر، حدیث، اصول حدیث، فقہ، اصول فقہ، منطق، فلسفہ، ریاضی، میراث، عربی گرائمر (صرف و نحو)، علم بدیع، فصاحت و بلاغت، فلکیات، ترجمہ، تجوید، عربی ادب، علم معانی، اور تقابل ادیان وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں۔ وفاق ساری جماعتوں کا امتحان نہیں لیتا، بل کہ مخصوص جماعتوں کا ہی امتحان لیتا ہے۔ وفاق المدارس العربیہ ابتدائ(1959ئ) میں صرف آخری سال یعنی عالمیہ کا ہی امتحان لیتا تھا۔ لیکن اب پہلے اور تیسرے سال کے علاوہ ساری جماعتوں کا امتحان لیتا ہے۔ کوئی بھی ایسا طالب علم جس نے مڈل پاس نہ کیا ہو، امتحان دینے کا اہل نہیں ہوتا۔اِسی طرح پرائیویٹ یا غیر شرعی امور کا مرتکب طالب علم بھی امتحان دینے کا اہل نہیں ہوتا۔

بورڈ کے امتحانات عموما رجب المرجب کے آخری ہفتے یا شعبان المعظم کے پہلے ہفتے میں ہوتے ہیں جو ہفتہ والے دن سے جمعرات تک جاری رہتے ہیں۔ ہر پرچے کے بعد چھٹی کا تصور نہیں ہوتا بل کہ لگاتار ہر روز پرچہ ہوتا ہے۔اس حساب سے ہر کلاس کے کل چھ پرچے ہوتے ہیں۔ پرچے کا دورانیہ عموما تین گھنٹے کا ہوتا ہے۔ جب کہ جس کتاب کا امتحان تقریری ہو، اسے علیحدہ وقت دینا ہوتا ہے، مثلا قرآن مجید، تجوید وغیرہ کا امتحان علیحدہ وقت میں لیا جاتا ہے۔

یہ تو تھا ابتدائی تعارف… اب آتے ہیں اُوپر دیے گئے سوالات کی جانب۔ اُن سب کا جواب ہے ’’ایمان داری‘‘۔ جب تک ایمان داری کا جذبہ دل میں موجزن نہ ہو، اس وقت تک ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہر وفاق امتحانی نظام سنبھالنے کے لیے ایسے آدمیوں کا تقرر کرتا ہے جو اپنی ایمان داری اور اخلاق و کردار کے اعتبار سے بے داغ ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ درج ذیل اقدامات کی بنا پر بھی یہ معرکہ بحسن و خوبی سر انجام پا جاتا ہے۔ جنہیں ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
۱۔ نظام ترسیل(ڈیلیوری سسٹم)، ۲۔ نظام امتحان ہال، ۳۔ نظام جانچ پڑتال (چیکنگ پرچہ جات)۔
نظام ترسیل کو بہتر بنانے کے لیے پورے ملک میں مسئول (ذمہ دار) مقرر کیے جاتے ہیں۔ جو داخلہ امتحانات، تقرر نگران اعلی و معاون نگران، پرچوں کی ترسیل ، انہیں وقت پر وصول کرنے، منعقد کرنے اور حل ہو جانے کے بعد بروقت وفاق کو بھیجنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ان کی معمولی سی غلطی بھی ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ امتحانی سنٹرز کو چیک کرنا اور ان کے مسائل کو حل کرنا بھی انہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

نظام امتحان ہال کو نگران اعلی (سپرنٹنڈنٹ) کنٹرول کرتا ہے۔ اس کے ذمے سیٹنگ پلان بنانا، پرچہ بروقت شروع کروانا، طلبہ کی حاضری لگانا، معاون نگرانوں کی نگرانی اور دیگر امور کو سنبھالنا ہوتا ہے۔ ہر 25طلبہ پر ایک عدد معاون نگران ہوتا ہے۔ امتحان ہال میں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ قطعا ممنوع ہوتا ہے۔ سوالیہ پرچہ مسئول کی جانب سے ’’معتمد‘‘ عین پرچہ شروع ہوتے وقت لے کر آتا ہے۔ اور طلبہ کے سامنے اس کی سیل توڑی جاتی ہے۔ جوابی کاپیاں بھی وفاق کی جانب سے طلبہ کے حساب سے گن کر بھیجی جاتی ہیں، جن میں کمی بیشی ناقابل معافی جرم ہوتا ہے۔ یہ کاپیاں خاص طرز پر چھاپی جاتی ہیں، جس میں سیکورٹی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ کاپی نہ تو پھاڑی جا سکتی ہے، نہ ہی اسے امتحان ہال سے باہر لے جایا جا سکتا ہے۔ اس کاپی پر کوئی علامت نہیں لگائی جا سکتی۔تمام طلبہ زمین پر بیٹھ کر امتحان دیتے ہیں اور ہر طالب علم کا دوسرے سے دو سے تین فٹ کا فاصلہ ہوتا ہے۔ سیٹنگ پلان اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ ایک ہی جماعت کے دو طالب علم اکٹھے نہ ہو سکیں۔ ہر طالب علم پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنا شناختی کارڈ ، رجسٹریشن کارڈ اور وفاق کی جانب سے جاری کردہ شناخت نامہ اپنے ساتھ لائے۔موبائل، کیلکولیٹر اور قرآن مجید یا دیگر کسی بھی کتاب کا داخلہ امتحان ہال میں ممنوع ہوتا ہے۔نقل کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور قرآن مجید و احادیث مبارکہ کی روشنی میں طلبہ کو اس کے مضرات سے باخبر کیا جاتا ہے۔ ان سب احتیاطوں کے باوجود اگر کوئی طالب علم نقل کرتا ہوا پکڑا جائے تو اس کا پرچہ فورا کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے (خواہ وہ کوئی بھی ہو) اور اسے کمرہ امتحان سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ اگر غلطی سنگین ہو جائے تو آئندہ سالوں کے لیے اس پر امتحان دینے کی پابندی بھی عائد کر دی جاتی ہے۔ اگر جرم اس سے بھی زیادہ ہو تو وفاق المدارس کی جانب سے تین رکنی کمیٹی بھیجی جاتی ہے جس کے فیصلے سے انحراف کرنے کی اجازت کسی کو نہیں ہوتی۔

نظام جانچ پڑتال بھی کافی سخت ہوتا ہے۔ پورے ملک کے پرچوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جاتا ہے اور ہر علاقے کے مسئولین قابل اعتماد اساتذہ کی سفارش وفاق کو کرتے ہیں کہ پرچے چیک کرنے کے لیے یہ موزوں ہیں۔ وفاق ان کی سابقہ کارکردگی کی روشنی میں انہیں اپنے ہاں بلاتا ہے اور پرچوں کی مخصوص تعداد ان کے حوالے کر دیتا ہے۔ یہ اساتذہ ایک ہی جگہ بیٹھ کراپنے امیر کی نگرانی میں پرچے چیک کرتے ہیں۔ یہ امیر چیک شدہ پرچوں کو دوبارہ چیک کرتے ہیں۔ اگر انھیں کمی بیشی محسوس ہو تو اساتذہ کو متنبہ کرتے ہیں۔ اگر بار بار غلطی دہرائی جائے تو اس استاد کو فارغ کر دیا جاتا ہے اور اس کے دوبارہ پرچے چیک کرنے پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔اس معاملے میں کسی سے رعایت نہیں برتی جاتی۔ یوں صرف ایک ہفتے میں تمام پرچے چیک کر لیے جاتے ہیں اور اگلے ہفتے میں لسٹیں مرتب کر کے اس سے اگلے ہفتے رزلٹ کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ اگر اس کے باوجود غلطی رہ جائے تو طالب علم کو اپیل، ری چیکنگ اور ضمنی امتحان (سپلی) دینے کا حق ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سارے ملک میں ایک ہی دن امتحان منعقد ہونے کے باوجود طلبہ کوکبھی امتحان بارے کوئی شکایت نہیں ہوئی اور آج تک جھگڑے ، دنگافساد کی نوبت نہیں آئی۔

اگر حکومت پاکستان دینی اداروں سے رہ نمائی حاصل کرے تو امید ہے کہ وطن عزیز سے نقل، جعل سازی ، پرچے کے وقت سے پہلے آؤٹ ہو جانے ، رزلٹ کے دیر سے مرتب ہونے اور دیگر کئی پریشانیوں سے نجات مل سکتی ہے۔
٭…٭…٭

Abdus Saboor Shakir
About the Author: Abdus Saboor Shakir Read More Articles by Abdus Saboor Shakir: 53 Articles with 89480 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.