لڑکیوں کی تعلیم: پاکستان میں موجود حالات، مسائل اور حل

یہ مضمون پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کی موجودہ صورتحال، درپیش مسائل اور ممکنہ حل کا جامع جائزہ پیش کرتا ہے۔ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ کم تعلیمی بجٹ، کم عمری کی شادی، سماجی و ثقافتی پابندیاں، غربت، سیکیورٹی مسائل اور تعلیمی اداروں کی ناقص حالت لڑکیوں کی تعلیم میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے جیسے تعلیمی سطح بلند ہوتی ہے، لڑکیوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔ مضمون کے آخر میں تعلیم کے لیے بجٹ بڑھانے، اسکالرشپس، آگاہی مہمات، اسکولوں کے انفراسٹرکچر کی بہتری اور کم عمری کی شادی کے خلاف مؤثر اقدامات کی سفارش کی گئی ہے تاکہ پاکستان میں لڑکیوں کو تعلیم کے مساوی مواقع فراہم کیے جا سکیں۔
​"تعلیم کی روشنی سے محروم لڑکیاں،" قوم کی ترقی سے محروم معاشرہ"
لڑکیوں کی تعلیم: پاکستان میں موجود حالات، مسائل اور حل

تعلیم کو انسان کے ذہن کا زیور، سر کا تاج اور انسان کی تیسری آنکھ سمجھا جاتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: "پنگھڑی سے لے کر قبر تک علم حاصل کیا جائے۔" تعلیم نہ صرف انسان کے شعور اور شناخت کے لیے ضروری ہے، بلکہ قوم کی ترقی، خوشحالی اور سماجی بہتری میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں تعلیم کو ترجیح نہیں دی جاتی، اور قومی بجٹ کا صرف 0.8٪ حصہ تعلیم کے لیے مختص کیا جاتا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ تعلیم حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔

لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت

تعلیم کسی خاص جنس تک محدود نہیں ہے، لیکن کہا جاتا ہے کہ اگر ایک گھر میں لڑکی تعلیم حاصل کرے تو گویا پورا خاندان تعلیم یافتہ ہو جائے۔ اس کے باوجود، ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم کی طرف مناسب توجہ نہیں دی جاتی، جو قوم کے مستقبل کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ پاکستان میں مجموعی خواندگی کی شرح 60.65٪ ہے، جس میں مردوں کی شرح 68٪، عورتوں کی 52.8٪ اور ٹرانسجینڈر افراد کی 40.15٪ ہے۔ صوبوں کے لحاظ سے تعلیم میں بڑا فرق ہے؛ پنجاب میں 66.25٪، سندھ میں 57.54٪، خیبر پختونخوا میں 51.09٪ اور بلوچستان میں صرف 42.01٪ خواندگی ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں تعلیم کی کمی خواتین کے لیے خاص طور پر سنگین مسئلہ ہے۔

اسکول سے باہر بچوں اور لڑکیوں کا انرولمنٹ

پاکستان اکنامک سروے 2022‑23 کے مطابق، ملک میں 5 سے 16 سال کی عمر کے تقریباً 38٪ بچے اسکول سے باہر ہیں، جن میں اکثریت لڑکیوں کی ہے؛ لڑکیوں کا تناسب 42٪ ہے جبکہ لڑکوں کا 35٪ ہے۔ مختلف تعلیمی سطحوں پر لڑکیوں کا انرولمنٹ درج ذیل ہے:

پری پرائمری: 4.46 ملین

پرائمری (I–V): 9.44 ملین

مڈل (VI–VIII): 3.79 ملین

سیکنڈری (IX–X): 1.84 ملین

ہائر سیکنڈری (XI–XII): 1.04 ملین

یونیورسٹی: 0.34 ملین

ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے جیسے لڑکیاں بڑی ہوتی ہیں، کئی کو تعلیم جاری رکھنے میں مشکلات پیش آتی ہیں اور بہت سی لڑکیاں اسکول چھوڑ دیتی ہیں۔

لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹیں

کم عمر میں شادی

لڑکیاں تعلیم چھوڑنے کی سب سے بڑی وجہ کم عمر میں شادی ہے۔ والدین جب اپنی لڑکیوں کی شادی کم عمر میں کر دیتے ہیں تو وہ تعلیم کے زیور سے محروم ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں سندھ اور کیپیٹل اسلام آباد میں شادی کی کم سے کم عمر 18 سال ہے، مگر دیگر صوبوں میں صرف 16 سال ہے۔ ہمیں چاہیے کہ عملی میدان میں بھی اس قانون پر صحیح عمل ہو اور دیگر صوبوں میں بھی شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر کی جائے۔

سماجی اور ثقافتی پابندیاں

ہمارے معاشرے میں کچھ قدیم روایات اور ثقافتی سوچیں لڑکیوں کی تعلیم پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے کئی لڑکیوں کو اسکول چھوڑنا پڑتا ہے اور وہ تعلیم کے زیور سے محروم ہو جاتی ہیں۔ سماجی رویے اور خاندانی دباؤ تعلیم جاری رکھنے میں بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

تحفظ اور سیکیورٹی کے مسائل

والدین لڑکیوں کو گھر سے باہر محفوظ محسوس نہیں کرتے، جس کی وجہ سے وہ انہیں اسکول جانے سے روک دیتے ہیں۔ غیر محفوظ ماحول اور محدود سوچ کی وجہ سے تعلیم جاری رکھنے کے بجائے بہت سی لڑکیاں گھر بیٹھنا ترجیح دیتی ہیں۔

گھریلو کام کاج

معاشرہ یہ سوچتا ہے کہ لڑکیاں مستقبل میں شادی کر کے بچے پالیں گی، اس لیے انہیں گھر کے کام کرنا ضروری ہے۔ گھریلو ذمہ داریوں اور سماجی دباؤ کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہوتی ہیں۔

مالی مسائل

غربت یا آمدنی کی کمی کی وجہ سے کئی گھرانے لڑکیوں کو اسکول بھیجنے کے قابل نہیں ہوتے۔ تعلیم کے اخراجات جیسے فیس، کتابیں، یونیفارم اور ٹرانسپورٹ والدین کے لیے بڑا مالی بوجھ بن جاتے ہیں، جس کی وجہ سے تعلیم چھوڑنے کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔

اسکولوں کی حالت

جو بچے پڑھنے کے لیے اسکول جاتے ہیں، ان اسکولوں کی حالت دیکھ کر دل افسردہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان اکنامک سروے 2024‑25 کے مطابق:

23٪ اسکولوں میں بجلی نہیں ہے

24٪ اسکولوں میں پینے کا صاف پانی موجود نہیں

22٪ اسکولوں میں بیت الخلاء موجود نہیں

اس کے علاوہ، عوامی پرائمری اسکولوں کا تقریباً 24٪ اسکول صرف ایک استاد کے ساتھ چلتے ہیں، جبکہ سندھ میں 45٪ اور بلوچستان میں 41٪ اسکولوں میں صرف ایک ہی استاد پڑھاتا ہے۔

حل اور سفارشات

تعلیم کے لیے بجٹ بڑھایا جائے: قومی بجٹ میں تعلیم کے حصے کو خاص طور پر لڑکیوں کے لیے بڑھایا جائے، تاکہ اسکول، استاد اور سہولیات بہتر بنائی جا سکیں۔

آگاہی مہمات اور اسکالرشپس: ملک گیر آگاہی مہمات چلائی جائیں اور لڑکیوں کے لیے الگ اسکالرشپس فراہم کی جائیں، تاکہ مالی رکاوٹیں ختم ہو سکیں۔

اسکولوں کا انفراسٹرکچر بہتر بنایا جائے: بجلی، صاف پانی، بیت الخلاء، فرنیچر اور محفوظ عمارتیں فراہم کی جائیں، تاکہ لڑکیاں عزت اور تحفظ کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکیں۔

اساتذہ کی کمی ختم کی جائے: نئے اساتذہ بھرتی کیے جائیں اور تربیت پر توجہ دی جائے، تاکہ تعلیم کا معیار بلند ہو۔

کم عمر میں شادی کے خلاف اقدامات: ارلی میرج کے قوانین پر سختی سے عمل کیا جائے اور والدین کو تعلیم کی اہمیت کے بارے میں آگاہی دی جائے۔

نتیجہ

پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کئی چیلنجز موجود ہیں: سماجی، ثقافتی، مالی اور اسکولوں کی حالتیں۔ حکومت اور معاشرے کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لڑکیوں کو تعلیم کے برابر مواقع فراہم کیے جا سکیں اور ملک کی ترقی، خوشحالی اور سماجی بہتری کو یقینی بنایا جا سکے۔

.تحریر: علی رضا جمالي 
Ali Raza Jamali
About the Author: Ali Raza Jamali Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.