جاپان کا نظام تعلیم اور اخلاقیات
(Dr-Muhammad Saleem Afaqi, Peshawar)
تحریر: ڈاکٹر محمد سلیم آفاقی
جاپان کا نظام تعلیم اور اخلاقیات
جاپان کا نام آتے ہی ذہن میں جدید ٹیکنالوجی، برق رفتار ٹرینیں اور نظم و ضبط سے بھرپور معاشرہ ابھرتا ہے، مگر اس سب کے پیچھے جو اصل طاقت کارفرما ہے وہ جاپان کا مضبوط اور مؤثر تعلیمی نظام ہے۔ جاپان نے تعلیم کو محض کتابوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے کردار سازی، اجتماعی ذمہ داری اور عملی زندگی کی تیاری سے جوڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاپانی معاشرہ نظم، وقت کی پابندی اور دیانت داری کی روشن مثال سمجھا جاتا ہے۔
جاپان میں تعلیم کا آغاز بچپن ہی سے اخلاقی تربیت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ پرائمری سطح پر بچوں کو سب سے پہلے انسان بننے کا سبق پڑھایا جاتا ہے، اچھا طالب علم بننے کا نہیں۔ جاپانی سکولوں میں ابتدائی جماعتوں میں امتحانات کا بوجھ نہیں ڈالا جاتا بلکہ بچوں کو صفائی، نظم، احترام اور اجتماعی کام سکھائے جاتے ہیں۔ بچے خود اپنی کلاس روم صاف کرتے ہیں، سکول کے صحن کی صفائی میں حصہ لیتے ہیں اور دوپہر کے کھانے کی تقسیم میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ اس عمل کا مقصد یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ کوئی کام چھوٹا یا بڑا نہیں، ہر کام قابلِ احترام ہے۔
جاپانی نصابِ تعلیم سادہ مگر انتہائی مؤثر ہوتا ہے۔ یہاں رٹّا سسٹم کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور سمجھ بوجھ، مشاہدے اور عملی مہارت پر زور دیا جاتا ہے۔ طلبہ کو سوال پوچھنے، سوچنے اور حل تلاش کرنے کی آزادی دی جاتی ہے۔ اساتذہ کا کردار صرف پڑھانے تک محدود نہیں بلکہ وہ طلبہ کے لیے ایک رہنما، مربی اور کردار ساز ہوتے ہیں۔ استاد کو جاپانی معاشرے میں نہایت عزت اور احترام حاصل ہے، اور یہ احترام صرف لفظی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی نظر آتا ہے۔
جاپان میں سکول کا دن عام طور پر طویل ہوتا ہے، مگر اسے بوجھ نہیں سمجھا جاتا۔ باقاعدہ اوقاتِ کار کے بعد طلبہ کلب ایکٹیویٹیز میں حصہ لیتے ہیں جن میں کھیل، موسیقی، سائنس، آرٹ اور سماجی خدمات شامل ہیں۔ ان سرگرمیوں کا مقصد طلبہ کی ہمہ جہت شخصیت کی تعمیر ہوتا ہے۔ یہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ تعلیم صرف کلاس روم تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو کو سیکھنے کا نام ہے۔
درحقیقت ثانوی تعلیم کے بعد جاپان میں مقابلے کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔ اعلیٰ سکولوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ میرٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے، جس کے لیے طلبہ سخت محنت کرتے ہیں۔ اس مرحلے پر امتحانات کی اہمیت ضرور بڑھ جاتی ہے، مگر اس کے باوجود اخلاقی اقدار اور نظم و ضبط کو نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جاپانی طلبہ مشکل حالات میں بھی ہمت نہیں ہارتے، کیونکہ انہیں بچپن سے صبر اور استقامت کا درس دیا جاتا ہے۔
جاپان کے تعلیمی نظام کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اسے قومی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ رکھا گیا ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، تاکہ ملک صنعتی اور تکنیکی میدان میں خود کفیل رہے۔ تحقیق اور جدت کو فروغ دیا جاتا ہے، اور طلبہ کو نئے خیالات پر کام کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان آج دنیا کی بڑی معاشی اور سائنسی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے۔
جاپانی تعلیمی نظام ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ کامیابی صرف ڈگریوں سے نہیں بلکہ مضبوط کردار، اجتماعی سوچ اور مسلسل محنت سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر ہم بھی اپنے نظامِ تعلیم میں اخلاقی تربیت، عملی مہارت اور استاد کے وقار کو شامل کر لیں تو نہ صرف ہمارے تعلیمی ادارے بہتر ہو سکتے ہیں بلکہ پورا معاشرہ بھی مثبت تبدیلی کی طرف گامزن ہو سکتا ہے۔ جاپان نے تعلیم کو قوم سازی کا ذریعہ بنایا، اور یہی وہ راز ہے جس نے اسے ترقی کی بلندیوں تک پہنچایا۔
جاپان میں بچوں کو والدین کی عزت کرنا اور خدمت گذاری عملی طور پر سکھائی جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نسل نو نہ صرف اپنے والدین کی خدمت گزار بلکہ ملک وقوم کی وفادار بھی ہوتی ہے۔ بچے ایک دوسرے کی مدد کرنا سیکھتے ہیں ۔سچ بولنا سیکھتے ہیں ۔ برداشت اور صبر کرنا سیکھتے ہیں ۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ جاپان کا نظام تعلیم اپنی مثال آپ ہے |
|