اتحاد میں بڑی طاقت ہے، اس سے کسی کو انکار ہی نہیں ،
مسلمانوں کےدرمیان اتحاد تو قائم ہوچکا ہے لیکن وہ طاقت کہاں ہے!؟ اس وقت
سعودی عرب میں اسلام ممالک کا عسکری اتحاد براجمان ہے اور گزشتہ روز
افغانستان کے صوبہ قندوز میں دینی مدرسے کی تقریب دستار بندی پر امریکہ نے
وحشانہ بمباری کی۔تقریب میں تقریب میں2ہزار افراد شریک تھے جن میں 750 سے
زائد دینی مدارس کے بچے تھے ۔اب اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ سعودی عرب
اپنے دوست ملک امریکہ سے احتجاج کرے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔
اسی طرح گزشتہ دو ہفتوں سے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ
ڈھائے جارہے ہیں لیکن خادم الحرمین شریفین کو جیسے خبر ہی نہیں، اس کے
علاوہ فلسطین میں جو خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، انہیں اپنی آنکھوں سے
دیکھنے کے باوجود سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو دوستانہ بنائے جا
رہا ہے اور اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کی باتیں کر رہا ہے۔
بات بالکل واضح ہے کہ جوکام امریکہ افغانستان میں ، ہندوستان کشمیر میں اور
اسرائیل فلسطین میں کر رہا ہے وہی کام سعودی عرب یمن میں کر رہا ہے لہذا ان
میں سے کوئی بھی کسی کی مذمت نہیں کرے گا بلکہ یہ سب تو ایک دوسرے کے
اتحادی اور حامی ہیں ۔
سعودی عرب نے امریکہ کی ایما پر جیسے پہلے جہاد کی مقدس اصطلاح کو بدنام
کیا ہے اسی طرح اب مسلمانوں کے عسکری اتحاد کو بھی بدنام کیا جا رہاہے۔
ہم پاکستانی ، سعودی عرب کے ہاتھوں میں مسلکی مہروں یا عام ٹشو پیپر کی طرح
استعمال ہوتے چلے آرہے ہیں، لیکن اس قدر استعمال ہونے کے باوجود ہم میں
اجتماعی و سیاسی شعور کا فقدان بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔
گزشتہ روز معروف کالم نگار جاوید چوہدری نے اپنے کالم بعنوان “افغانوں کا
بے گناہ لہو بول رہا ہے” میں جن حقائق کا انکشاف کیاہے یہ کوئی نئے
انکشافات نہیں ہیں ۔ لیکن آج تک پاکستان کے کسی سنجیدہ دانشور ، قومی چینل
، ملکی سیاستدان یا رائٹر نے ان حقائق پر آواز نہیں اٹھائی۔ جب ہم امریکہ
و سعودی عرب کے ہاتھوں میں استعمال ہورہے تھے تو نجانے ہماری قومی سلامتی
کے ضامن ادارے کس نشے میں مست تھے۔
اب ان حقائق کے منظرِ عام پر آجانے کے بعد ضروری ہے کہ ملکی سلامتی کے
ادارے ان مسائل پر از خود نوٹس لیں، اب چاہے عدلیہ میدان میں اترے یا نیب
کو ایکشن لیناپڑے، کسی کو تو حرکت کرنی چاہیے، کوئی تو افغانیوں کے ناحق
خون اور پاکستانیوں کو امریکہ کے حق میں استعمال کرنے پر ذمہ دار افراد پر
قانونی گرفت ڈالے۔اب پتہ نہیں کہاں ہیں ہمارے وہ سادہ لوح برادران جو سعودی
عرب کو اسلام کا مرکز اور وہابیت کا ٹھیکہ دار سمجھتے تھے، ان کی آنکھیں
بھی کھل جانی چاہیے۔
سعودی عرب کے ولی عہد پرنس محمد بن سلمان نے 22 مارچ کوواشنگٹن پوسٹ کو
تازہ ترین انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’سرد جنگ کے دوران مغرب کو اسلامی
دنیا میں وہابیت کی ضرورت محسوس ہوئی‘ ہم نے مغرب کی ضرورت کو محسوس کرتے
ہوئے وہابی مدارس اور مساجد کی تعمیر میں سرمایہ کاری کی‘‘
یہ کوئی اور نہیں کہہ رہا بلکہ سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان کا کہنا
ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب مغرب وہابیت کو بھی ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرچکا ہے
تو سعودی عرب بھی وہابی کے بجائے لبرل ملک بن گیا ہے۔
جب سعودی عرب کا فکری و نظریاتی طور پر یہ حال ہے تو سعودی عرب کے
عقیدتمندوں اور امام کعبہ کی گود میں پلنے اور پھلنے پھولنے والی تنظیموں ،
شخصیات ، اتحاد اور تکفیری و دینی گروہوں کی فکری و نظریاتی طور پر کیا
صورتحال ہے اس کا اندازہ لگانا عقل والوں کے لئے قطعا مشکل نہیں۔
اگر آپ نے سعودیہ نواز گروہوں اس نظریاتی گراوٹ اور فکری پستی کا اندازہ
لگانا ہے تو خود سے جاوید چوہدری کا کالم اس لنک پر جا کر پڑھ
لیجئے۔https://www.express.pk/story/1136200/268/
اگر ہمیں اس کے بعد بھی عقل نہ آئے اور ہم بیداری شعور کا مظاہر نہ کریں ،
ہم اس کے باوجود سعودی عرب کو عالم اسلام کا خیر خواہ سمجھتے رہیں اور
سعودی عرب نواز تنظیموں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہیں تو پھر ہماری آئندہ
آنے والی نسلیں ہمارے فکری جمود پر ماتم ہی کرتی رہیں گی۔
یہ کالم اس وقت تک آدھا کالم ہی متصور ہوگا جب تک اسے جاوید چوہدری کے
کالم سے ملاکر نہیں پڑھا جائے گا۔ |