مرے قاتل میرا جرم تو بتلادے

ہم خود اپنی راہوں میں باردود بچھائیں گے اور خود اپنے نوحے لکھتے رہیں گے اور خود ماتم کرتے رہیں گے۔

کل قندوز میں ہونے والے دل سوز واقعے نے اتنا دل گرفتہ کردیا ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کیا جائے۔کیا کہا جائے اور کیا لکھا جائے۔ ہم مسلمان اس سے پہلے اتنے لاچار و بے بس کبھی نہ تھے۔ ہم تاریخ کے ایسے تاریک موڑ پر کھڑے ہیں کہ ہم اندازہ ہی نہیں کہ اگلا قدم اُٹھانا ہمارے حق میں ہے یا کھڑے رہنا۔ ہم تاریخ کے لمحے پر ہیں کہ ہم اسلاف کے شاندار کارناموں اور فتوحات عالم کو کس منہ سے بیان کریں، کیسے بیان کریں کس کو بیان کریں اور کیوں بیان کریں۔ ہمارے پاس کیا ہے جسے ہم فخر سے بتا سکیں کہ اس وجہ سے ہم اقوام عالم میں فخر ومباہات کریں گے۔ آج کی دنیا میں ہم کسی بھی گنتی میں نہیں ہیں کسی کھاتے میں ہماراشمار نہیں ہے۔ ہم یا تو امریکہ و روس جیسے مست ہاتھیوں کے پیروں تلے مسلے جارہے ہیں یا جہاں یہ وہشت ناک جانور نہیں ہیں ہم آپس میں وحشی بھوکے جانوروں کے مانند ایک دوسرے کو چیر پھاڑ رہے ہیں۔ کبھی ہم مذہب کے نام پر سر بازار نیلام ہوجاتے ہیں۔ اور کبھی امداد اور قرضوں کے نام پر ہماری بولتی بند کردی جاتی ہے۔کبھی ہمیں قبلہ و کعبہ کی حرمت میں بلیک میل کردیا جاتا ہے اور ہم سے وہ شرمناک کام کروائے جاتے ہیں کہ سالوں اُس کا خمیازہ اقوام کے اقوام بھگتتے رہتے ہیں۔ آج افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر ہم کیا واویلہ کریں کیا ہمارے پاس کوئی اخلاقی جواز ہے۔ ہم انفرادی اور اجتماعی اخلاقی پستی کے دوزخ کی طرف دوڑھے چلے جارہے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں لیکن کس منہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ایمان و کردار ایک مسلمان جیسا ہے۔ ہندوستان میں ایک مسلمان لڑکی کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خلیفہ وقت نے اپنا قابل ترین جرنیل کو ہندوستان بھیجا تھا اور آج سارے ہند کے مسلمان اس عظیم جرنیل محمد بن قاسم کو اپنا ہیرو مانتا ہے۔ اُس وقت ہمارا ایمان مظبوط تھا۔ آج ہمارا قبلہ اول ہنود و یہود کے قبضہ میں ہے ہزاروں مرد و خواتین روزانہ صیہونیت کے ظلم تلے سسک رہے ہیں اور ہم بالی ووڈ فلموں میں اپنا ہیرو ڈھونڈنے میں مگن ہیں۔

جس کعبہ و قبلہ کی تقدس کی بنا جس مملکت سعودیہ کو ہم مقدس مانتے ہیں اُن کا اپنا قبلہ تو واشنگٹن بنا ہوا ہے اور وہ اُن جعلی خداوں کی خوشنودی کے لیے افغان و عراق، شام و لبنان میں فرزندان توحید پر بم برسا کر نیست و نابود کررہے ہیں اور بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اُن کا اتحادی امریکہ ہے اور ایران اُن کا دشمن۔ وہی ہے جو آج دعوی کررہے ہیں کہ افغان جنگ میں امریکی خوشنودی کے لیے اپنا سرمایہ استعمال کیا اور ہزاروں مسلمان اُس خوشنود ی کے بھینٹ چڑھ گئے۔ آج محمد بن سلمان آل سعود بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ امریکہ کی خوشنودی کے لیے وہابیت کو فروغ دیا تھا۔ اور اس طرح کی بہت ساری باتیں ہیں۔ لیکن سب کو علم ہے مگر جانتے ہوئے بھی اس دور میں ہم صرف دعا ہی کر پاتے ہیں۔ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ہماری زبان گنگ ہوچکی ہیں ہمارے قلم بک چکے ہیں ہماری صلاحیتیں صرف صاحبان اقتدار کے قصیدے لکھنے سے فرصت نہیں پاتیں۔ ایک طرف روس جو کہ ہنود ہے اور دوسری طرف امریکہ بھی ہنود اور درمیان میں ہم لوگ افغانستان و عراق و شام تک ادھا روسی عیسائیوں کے ہم رکاب اور ادھے امریکی عیسائیوں کے ہم رکاب۔ اور ان دو بد مست ہاتھیوں کی لڑائی میں مسلے اور کچلے جاتے رہیں گے۔ جب تک ہم اپنے ایمان کی طاقت کو مضبوط نیں کریں گے۔ تب تک حفاظ کرام ہوں سکول کے بچے ہوں مسجد امام ہوں یا مدارس کے طلبا ہم شہدا کے القابات پاتے رہیں گے اور مرتے رہیں گے۔ ہم خود اپنی راہوں میں باردود بچھائیں گے اور خود اپنے نوحے لکھتے رہیں گے اور خود ماتم کرتے رہیں گے۔

habib ganchvi
About the Author: habib ganchvi Read More Articles by habib ganchvi: 23 Articles with 21379 views i am a media practitioner. and working in electronic media . i love to write on current affairs and social issues.. .. View More