پاکستان کے شعبدہ بازاورشوبازحکمران امن وامان اور
قومی معیشت کی بجائے کرکٹ کی ''بحالی '' پرجشن منارہے ہیں۔ارباب اقتدارکو
لگتا ہے کرکٹ کی بحالی سے پاکستان میں توانائی اورپانی کابحران ختم ہوجائے
گا، کارخانوں اورفیکٹریوں میں دن رات کام ہوگااوربیروزگاری ختم ہوجائے گی ۔تعجب
ہے معیشت بدحال کرکے حکمران کرکٹ بحال کرنے کاکریڈٹ لے رہے ہیں ۔ویسٹ
انڈیزکی کرکٹ ٹیم پاکستان میں آئی ہے وہاں سے سرمایہ دا روں کاکوئی گروپ
نہیں آیا۔اگرسکیورٹی فورسز کے سخت پہرے میں کرکٹ گراؤنڈ آباد ہوسکتے ہیں تو
ملک بچانے اور بنجر زرعی اراضی بحال کرنے کیلئے کالاباغ ڈیم کیوں تعمیر
نہیں ہوسکتا۔کالاباغ ڈیم ریاست کی ضرورت ہے ،اس پرمزیدسیاست نہ جائے۔18ویں
ترمیم کیلئے راتوں رات متفق ہونیوالے'' ضرورتمند'' سیاستدان کالا باغ ڈیم
کی تعمیر وتکمیل کیلئے متفق اورمتحدکیوں نہیں ہوسکتے ۔کرکٹ میں''جوا'' ، ''سیاست
'' اور ''اداکاری''آنے کے بعد اسے'' کوڑا کرکٹ ''کہنازیادہ بہترہوگا۔اب
کرکٹ ریاست نہیں سیاست ،دولت اور شہرت کیلئے کھیلی جاتی ہے،کرکٹرزنے ماڈلنگ
انڈسٹری پربھی قبضہ جمالیا جبکہ بیچارے ایکٹرز بھوکے مررہے ہیں۔ پاکستان
میں پروفیشنل اورباصلاحیت'' ماڈل'' موجود ہیں لہٰذاء کھلاڑیوں کو''ماڈلنگ
''سے روکاجائے۔پیسوں کی پوجاکے سبب کرکٹ میں دھڑابندی کلچراور ''جوا''آیا ۔بندوقوں
کے پہرے میں کرکٹ کی بحالی کو میں قومی ضمیر کے ساتھ بھونڈامذاق
سمجھتاہوں۔شہربندکرکے شہریوں کوکرکٹ دیکھنے کی دعوت ان کیلئے بدترین زحمت
بن جاتی ہے ۔ سکیورٹی اداروں کی ''دوا'' اورعوام کی'' دعا ''کے نتیجہ میں
پی ایس ایل پرامن رہا ورنہ خدانخواستہ ہمارے ملک کواس نام نہاد'' بحالی''
کی قیمت کشت وخون کی صورت میں چکانا پڑسکتی تھی۔کرکٹ نہیں بلکہ مادروطن کی
بیماراور بدحال قومی معیشت بحال کرنازیادہ ضروری ہے ،وطن کے بیروزگاروں
کوباعزت روزگارکی فراہمی یقینی بنانے کی ضرورت ہے ،بیرونی کھلاڑیوں سے
زیادہ دوسرے ملکوں کے سرمایہ داروں کا پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے
اعتماد بحال کرناکامیابی ہوگی ،عام آدمی کی حکومت پراعتماد کی بحالی کیلئے
اہل حکومت نے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا،حکمران خاندان کی آزاد عدلیہ اور
نیب پراعتمادکی بحالی کس طرح ہوگی ، پولیس پرشہریوں کے اعتماد کی بحالی
کاخواب سات دہائیوں میں شرمندہ تعبیر نہیں ہوا،وردی کی تبدیلی کے
باوجودپولیس کی اجتماعی سوچ اور حالت زار نہیں بدلی۔
عدالت عظمیٰ سے نااہل ہونیوالے نوازشریف کوبچانے کیلئے حکمران جماعت کی
قیادت جس حدتک چلی گئی ہے اگرانہوں نے پی آئی اے اورسٹیل ملز کوبچانے کیلئے
اس قدرہاتھ پاؤں مارے ہوتے توآج ان قومی اداروں کوناکام قراردے کرانہیں
نیلام کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی ۔کیا کرکٹ ہماری ہرانفرادی واجتماعی بیماری
کی دوا ہے، کیا پی ایس ایل مقابلوں کے انعقادکامقصد ارباب اقتدارکی نااہلی
،بدنامی ،ناکامی اوربدانتظامی کی پردہ پوشی کرنانہیں تھا۔حکمرانوں اوران کے
حواریوں کی طرف سے اس فائنل پربھی خوب پوائنٹ سکورنگ کی گئی ، بتایاجائے اس
فائنل سے عام آدمی کوکیا فائدہ پہنچا۔''اوربھی کھیلیں ہیں زمانے میں ''
کرکٹ ''کے سوا ''،اس کوڑاکرکٹ نے ہماری کبڈی اورہاکی کونگل لیا ہے۔ فائنل
کے سلسلہ میں سکیورٹی فورسز کے ہزاروں آفیسرزاور جوانوں نے مسلسل کئی روزتک
دن رات انتھک ڈیوٹی دی ۔ مختلف شہروں سے چندڈی پی اوزبھی اس مقابلے کے
پرامن انعقادکیلئے لاہورآئے جبکہ قذافی سٹیڈیم سے باہر شاہراہوں
پر''فیلڈنگ''کرنیوالی نڈر ٹیم کے کپتان لاہورپولیس کے چیف کپتان (ر)
محمدامین وینس تھے۔پولیس ڈسپلن فورس ہونے کی حیثیت سے منتخب حکومت کے
ہرجائزناجائزفیصلے کی پابند ہے ۔پولیس ایک ڈسپلن فورس کی حیثیت سے ارباب
اقتدارکوانکار نہیں کرسکتی لیکن انہیں ان کے آئینی کام سے روک دیاجاتا ہے
جس کے نتیجہ میں سائلین کو دفاتراورتھانوں میں خوارہو ناپڑتا ہے۔لاہور کے
متعدد ایس ایچ اوزاوردوسرے اہلکاروں کوبھی پی ایس ایل کے فائنل میں جھونک
دیاگیا تھا جبکہ تھانے خالی پڑے رہے ، شہرلاہورمیں پتنگ بازی کاشوق جاری ہے
اورمٹھی بھر پتنگ بازمعصوم بچوں سمیت شہریوں کی گردن کاٹ رہے ہیں ۔حکمران
یادرکھیں بدامنی کاراستہ بدانتظامی سے ہوکرجاتا ہے ،جوریاست دہشت گردی
کیخلاف حالت جنگ میں ہو وہ وہاں اس قسم کی مہم جوئی کاتصور بھی نہیں کیا
جاسکتا ۔یارزندہ صحبت باقی کے مصداق کرکٹ پھر بھی ہوجائے گی،اس وقت سکیورٹی
اداروں کے جوکام کرنیوالے انہیں وہ کرنے دیے جائیں ۔
کیا لاہور یاکراچی میں پی ایس ایل کے مقابلے منعقد کرنے سے ہمار اہرپرانا
زخم بھر گیا ،کیا اس طرح پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوجائے گی۔کیا
کرکٹ کی بحالی سے ملک میں خوشحالی آجائے گی ،جس وقت تک کرکٹ سمیت دوسرے
کھیلوں سے '' جوا'' کی نحوست کے سیاہ بادل چھٹ نہیں جاتے اُس وقت تک ارباب
اقتداراورعوام کیلئے آسانیاں پیدانہیں ہوں گی۔ کرکٹ اور ریس کلب کوٹ لکھپت
سمیت ''جوا''جہاں جہاں اورجس جس صورت میں ہوتا ہے اُسے روکنا ہوگا ۔اسلامی
جمہوریہ پاکستان میں شراب نوشی ،شراب فروشی اورجسم فروشی سمیت'' سود
اورجوے''کاگھناؤنا دھندازوروں پر ہے۔شراب فروشی اورگھڑدوڑ پرٹیکس کی مدمیں
حاصل ہونیوالی آمدنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی معیشت میں شامل ہوجاتی
ہے ،جس طرح کئی ہزارلیٹردودھ کو نجاست یاغلاظت کاایک قطرہ ناپاک بنادیتا ہے
اُس طرح حرام آمدنی کی چند کوڑیاں بھی قومی معیشت سے برکت ختم کرنے کیلئے
کافی ہیں ۔
کیا جوملک انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیلتے انہیں دنیا میں عزت کی نگاہ سے نہیں
دیکھا جاتا،کیاوہ ملک شاہراہ ترقی پرگامزن نہیں ہوتے۔امریکہ ،چین ،فرانس
اوراسرائیل ایٹمی ملک ہیں جبکہ جرمنی بھی دنیاکی ایک طاقتورریاست ہے مگران
کی قومی کرکٹ ٹیم نہیں ہے،ان ملکوں میں عوام کو کرکٹ کا بخار نہیں ہوتا۔جس
طرح دوسرے کھیل ہیں اس طرح کرکٹ بھی ایک کھیل ہے مگر''جنون اورجوے'' نے اس
کاحلیہ بگاڑدیا ۔''جوا''آنے سے کرکٹ اورکوڑاکرکٹ میں کوئی فرق نہیں
رہا۔ماضی میں بھی کرکٹ جنون نے دنیا کے کئی شہروں اورشہریوں کوخون میں
ڈبویا ہے۔کرکٹ کھیلنے والے ضرورکھیلیں اوردیکھنے والے بھی ضروردیکھیں مگریہ
لوگ دوسروں کے آرام کابھی خیال رکھیں ۔حکومت امن کی بحالی پرزورلگائے
اورسکیورٹی اداروں کوان کابنیادی کام کرنے دے، ہمارے ملک میں انٹرنیشنل
کرکٹ اپنے آپ بحال ہوجائے گی ۔ ہاکی پاکستان کاقومی اورکبڈی پاکستانیوں
کامحبوب کھیل ہے۔ ہاکی کے کھلاڑیوں نے دنیا کے ہرمیدان میں پاکستان
کاسبزہلالی پرچم بلندجبکہ اس کانام روشن کیا مگرارباب اقتدار کی مسلسل بے
اعتنائی سے ہاکی ہمارے ملک میں تقریباً ختم ہوگئی ہے اورکبڈی کوبھی اس طرح
فروغ نہیں دیا گیا جس طرح دیاجاناچاہئے تھا۔شہرت اوردولت کی دیوی نے کرکٹ
کارخ کرلیا جبکہ ریاست کی عدم سرپرستی کے سبب ہاکی اورکبڈی سے وابستہ ٹیلنٹ
بربادہورہا ہے ۔حکمرانوں کے ناقص فیصلے اداروں اورشہریوں میں فاصلے
پیداکردیتے ہیں۔خدانخواستہ فائنل میں کوئی سانحہ ہوگیا تواس کاملبہ اداروں
پرگرادیاجائے گا۔دوچار آفیسر اوایس ڈی بنادیے جائیں گے جبکہ سینکڑوں
اہلکاروں کوبرطرف کردیاجائے گالیکن ارباب اقتدارواختیار میں سے کسی کے منصب
پرکوئی آنچ نہیں آئے گی ۔
اس بار بھی پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد کیلئے لاہور پولیس کے سرفروش کپتان
اوران کی ٹیم کاامتحان لیاگیا ،کیپٹن (ر)محمدامین وینس کی قیادت میں
لاہورپولیس کاہردن ایک نیاامتحان ہوتا ہے۔کیپٹن (ر)محمدامین وینس
۔شہرلاہورمیں احتجاجی مظاہرے ہوں،وی آئی پی موومنٹ ،حکمران خاندان کی
سکیورٹی ،سیاسی اجتماعات کاانعقادہو ،کسی حلقہ میں ضمنی الیکشن ہو
،عیدین،نماز جمعتہ المبارک ،مجالس اوریوم عاشورہ ،کرسمس ،ایسٹر ، ججوں کی
رہائشگاہوں سمیت عدالت کی حفاظت ہو،بنک،کاروباری مراکز اورتعلیمی ادار ے
مانیٹر کرنا ،امن وامان برقراررکھنا اور اس قسم کے متعدد چیلنجز پولیس
کودرپیش ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان پرمزید بوجھ ڈال دیاجاتا ہے جس کے
نتیجہ میں پولیس کابنیادی کام متاثر ہو تے ہیں۔لاہورپولیس کے کپتان کاایک
امتحان اُس وقت بھی تھا جس وقت زمباوے کی نڈر کرکٹ ٹیم پاکستان کی دعوت
پرلاہور میں کھیلنے کیلئے آئی تھی اورایک میدان میں تین کپتان اُترے تھے
،ان میں سے دوکپتان محفوظ سٹیڈیم کے اندرتک محدود رہے جبکہ تیسرا فرض شناس
اورسرفروش کپتان محمدامین وینس اپنے ٹیم ممبرز کے ہمراہ میدان سے باہرنکل
کر شاہراہوں اورچوراہوں پر''فیلڈنگ '' کرتارہا اورٹیم ورک کے نتیجہ میں
مجموعی طورپرلاہورپولیس کامیابی سے ہمکنارہوئی تھی ۔محمدامین وینس کی قیادت
میں لاہورپولیس کی موثر،منظم اورمتحرک ''فیلڈنگ'' کے نتیجہ میں شرپسند
عناصر اس بار اپنے مذموم مقاصد میں ناکام رہے اورآفرین ہے لاہور پولیس نے
اپنے سرفروش سب انسپکٹر عبدالمجید شہید کو فراموش نہیں کیا۔ عبدالمجید شہید
کی بیوہ اوریتیم بچے سی سی پی اولاہورکیپٹن (ر)محمدامین وینس کے ہوتے ہوئے
بے سہارانہیں ہوسکتے۔ لاہور کے متحرک اورزیرک سی سی پی او محمدامین وینس کے
پاس پچھلے کئی مہینوں سے کوئی سرکاری پی آراونہیں ہے مگران کاکام بولتا ہے
وہ اپنے منصب سے انصاف کرتے ہیں۔ حالیہ پی ایس ایل مقابلے کے دوران بھی تین
کپتان میدان میں اترے تھے ،ان میں سے دوگراؤنڈ کے اندرجبکہ تیسرا دبنگ
کپتان اوراس کے سرفروش ٹیم ممبرز گراؤنڈ سے باہر '' فیلڈنگ ''کرتے رہے ،
مگر اس بار شرپسند عناصرکے شر سے ہمارا شہرمحفوظ رہا۔شہروں اورشہریوں کی
حفاظت پرمامورخاکی اورکالی وردیوں میں ملبوس محافظ پاکستانیوں کی دعاؤں
اوروفاؤں کامحور ہیں۔میدان کے اندربرسرپیکارکپتان توہم سے دادپاتے ہیں
مگرمیدان سے باہرجوسرفروش کپتان سماج دشمن عناصر کیخلاف سربکف ہوتا ہے وہ
ہماری دادوتحسین سے محروم رہتا ہے ۔۔اس بار بھی لاہورپولیس کے کپتان
محمدامین وینس نے جوانمردی کے ساتھ لاہورمیں امن وامان برقراررکھنے کا
چیلنج قبول کیا اور اوراس بارجہاں ان کی ٹیم میں کچھ پرانے کھلاڑی تھے وہاں
نیاخون بھی لاہور پولیس کی رگوں میں دوڑرہا تھا۔لاہور کے فرض شناس ڈی آئی
جی آپریشن ڈاکٹرحیدراشرف جوشرپسندوں کیخلاف اپنے مخصوص اندازمیں بروقت اور
سخت'' آپریشن'' کرتے ہیں،انہوں نے آئی ٹی ٹیکنالوجی کے بھرپوراستعمال سے
لاہورپولیس کوجدیدخطوط پراستوارکردیا ہے۔ڈی آئی جی انوسٹی گیشن سلطان احمد
چودھری ایک پروفیشنل،باصلاحیت اورنہایت زیرک آفیسر ہیں ،انہوں نے بھی پی
ایس ایل کے دوران اپنا کردارخوب نبھایا۔سی سی پی اولاہورکیپٹن (ر)محمدامین
وینس کے انتہائی معتمدلاہور کے ایس ایس پی ایڈمن راناایازسلیم کواس باربھی
لاہورمیں کرکٹ مقابلے کے پرامن انعقاد کیلئے اہم کرداردیاگیا
تھا۔راناایازسلیم انتظامی امورمیں خاصی مہارت رکھتے ہیں۔ایس ایس پی آپریشن
منتظرمہدی نے بھی پی ایس ایل کے دوران امن وامان برقراررکھنے کیلئے کلیدی
کرداراداکیا۔لاہور کے منجھے ہوئے سی ٹی اوایس ایس پی رائے اعجازاحمدبھی
اپنے وارڈنز کی قیادت کرتے ہوئے دیکھے گئے،وہ پی ایس ایل کے دوران مجموعی
طورپر گاڑیوں کی آمدورفت رواں دواں رکھنے میں کامیاب رہے ۔ ایس پی سی آئی
اے سیّدندیم عباس کس طرح اپنے کپتان محمدامین وینس سے دوراوراس حساس مشن کی
تکمیل کیلئے دوسروں سے پیچھے رہ سکتے تھے ا،نہوں نے اپنے مخصوص اندازمیں
اپنا کام انجام د یا ۔لاہور پولیس کے کپتان محمدامین وینس کے ٹیم ممبرز میں
لاہور کے فرض شناس ڈی آئی جی آپریشن ڈاکٹرحیدراشرف، لاہور کے زیرک ڈی آئی
جی انوسٹی گیشن چودھری سلطان احمد ،ایس ایس پی انوسٹی گیشن لاہورغلام مبشر
میکن ،سی ٹی اولاہور رائے اعجاز جبکہ ایس پی سی آئی اے سیّدندیم عباس،ایس
پی ندیم کھوکھر ،سمیت ذوالفقارعلی بٹ، رانازاہد،ریاض شاہ ،اِقبال شاہ، ملک
یعقوب اعوان ، عتیق ڈوگر،مدثراﷲ خان،عمران پڈانہ اورمحمدبابر اقبال خان بھی
پوری طرح مستعد رہے۔ شہیدوں کی فورس لاہور پولیس نے اپنے پرعزم کپتان
محمدامین وینس کی قیادت میں یہ امتحان بھی امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا
۔
انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں،پی سی بی میں دم ہے تو حالیہ پی ایس ایل
مقابلوں سے ملنے والی آمدنی کا بیس فیصد لاہورپولیس جبکہ دس فیصد عبدالمجید
شہید کے ورثا کودے جوزمباوے کی کرکٹ ٹیم کی لاہور آمد کے دوران فرض منصبی
کی بجاآوری کے دوران شہید ہوئے۔ لاہورپولیس اس رقم کو آفیسرزاوراہلکاروں
کومیں مساوی بنیادوں پرتقسیم کرے جومختلف خدشات اورخطرات کے باوجود فرض کی
بجاآوری کیلئے اپنی زندگی تک داؤپرلگادیتے ہیں۔پچھلے دنوں میں رائیونڈ
دھماکے میں پولیس اہلکارشہید ہوئے مگرابھی ان شہیدوں کے کفن بھی میلے نہیں
ہوئے تھے کہ اس فورس کے سرفروش آفیسراوراہلکار پھر سے دہشت گردوں کے
مدمقابل سینہ سپر ہیں ۔امن وامان کیلئے سردھڑ کی بازی لگانیوالے اس سے
زیادہ انعام واکرام اوردادوتحسین کے مستحق ہیں ۔زبانی کلامی حوصلہ افزائی
کافی نہیں لہٰذا ء پنجاب حکومت بھی انعام کے طورپرفائنل پرڈیوٹی کرنیوالے
آفیسرزاوراہلکاروں کوایک ماہ کی تنخواہ بونس کے طورپراداکرے ۔جوخطرات سے
کھیلتے ہیں مراعات پربھی ان کاحق ہے مگرہمارے ہاں مراعات سے وہ مستفیدہوتے
ہیں جوحفاظتی حصار میں قلعہ نماایوانوں یعنی محلات میں بیٹھ کرمحض پوائنٹ
سکورنگ کرتے ہیں ،میری ریاست کی مجرم اس عہد کی سیاست ہے۔بدعنوانی
،بدانتظامی اوربدزبانی کی دوڑ میں سیاستدان شروع سے نمبرون کی پوزیشن پر
ہیں،دوسرے اداروں کانمبر بعدمیں آتا ہے ۔جہاں ہم پولیس آفیسرزاور اہلکاروں
کی انفرادی زیادتیوں اور غلطیوں پرکڑی تنقید کرتے ہیں وہاں اس فورس کی
اجتماعی اعلیٰ کارکردگی کو سراہانہیں جاتا ۔ |