چند دن پہلے میں پاک فضائیہ کے ایک عظیم ہیرو (جن
کانام ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمر ہے ) کی عیادت کے لیے ان کے گھر پہنچا
تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیاکہ بیماری اور لاغر پن کے باوجو انہوں نے
پاکستانی پرچم کلر کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی ۔جس پر پاکستان زندہ باد لکھا
تھا جبکہ ان کی ٹی شرٹ پر چھوٹا سا قومی پرچم بھی آویزاں تھا ۔ بتانے کا
مقصد یہ ہے کہ فاروق عمر نہ صرف 1965ء کی جنگ کے عظیم ہیرو ہیں جنہوں نے نہ
صرف پاک فضاؤں کا کامیابی سے دفاع کیا ۔ کئی حیرت انگیزمعرکوں میں شریک بھی
رہے یہی وجہ ہے کہ بھارتی فضائیہ کو 1965کی پاک بھارت جنگ میں سرزمین پاک
پر من مانی کاروائی کرنے کا موقعہ نہ ملا ۔ بلکہ امرتسر کا وہ ریڈار جو پاک
فضائیہ کی نقل و حرکت کو بھارتی فضائیہ تک پہنچانے کا فریضہ کامیابی سے
انجام دے رہا تھا ٗاسے تباہ کرنے کا مشن بھی فاروق عمر نے ہی انجام دیا ۔
اسی طرح ریکی کرنے کے کتنے ہی مشکل ترین مشن ہائی کمان کی جانب سے آپ کے
سپرد کیے گئے جنہیں سرانجام دیتے ہوئے آپ کے جہاز کو بھی نقصان پہنچا لیکن
اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے انہوں نے یہ تمام مشن کامیابی سے پایہ تکمیل
کو پہنچائے ۔اس کے باوجود کہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں طاقت کا توازن
بھارت کے حق میں تھا لیکن مشکل ترین حالات میں اپنے وجود کو منوانے کا سہرا
یقینا فاروق عمر کو ہی جاتا ہے جنہوں نے اپنی تمام تر کوششوں سے پاک فضاؤں
کو تحفظ فراہم کیے رکھا ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ انہوں نے مشکل
ترین جنگ میں بھی وطن کا دفاع کیا ۔ یہ وہ عظیم قومی ہیرو ہیں جن کی زندگی
کا بیشتر حصہ پاک فضائیہ کے عظیم ہیرو ایم ایم عالم کی رفاقت میں گزارا ۔
جس فضائی معرکے میں ایم ایم عالم نے ایک منٹ میں پانچ بھارتی جنگی جہاز
گرانے کا معرکہ سرانجام دیا تھا اس معرکے میں برسرپیکار ہونے والے دیگر
پائلٹوں میں فاروق عمر بھی شامل تھے ۔ان کے کارناموں پر بات کرنے سے پہلے
ان کی زندگی ایک جھلک بھی دیکھ لینی چاہیئے تاکہ قارئین کو اس بات کا علم
ہوسکے جو ہیرو اپنی زندگی میں ملک و قوم کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیتے
ہیں وہ بھی ایک عام انسانوں کی طرح ہی ہوتے ہیں ۔فرق صرف یہ ہے کہ قدرت کے
انعام کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی محنت ٗ لگن اور وطن سے والہانہ محبت کا عنصر
بھی شامل ہوتا ہے ۔ بطور خاص فضائیہ میں وہی لوگ شامل ہوتے ہیں جو عام
انسانوں کی نسبت دس گنا زیادہ بہادر ٗ محنتی اور جفا کش ہوتے ہیں ۔ جب سردی
کا موسم جوبن پر تھا اور گھر میں بیٹھے ہوئے بھی ہمارے دانت بج رہے تھے ٗ
میں نے کوئٹہ میں تعینات ایک فلائننگ آفیسر سے پوچھا آپ جہاں تعینات ہیں
وہاں تو اتنی سردی پڑتی ہے کہ چشموں کا پانی بھی جم جاتا ہے اس قدر سرد
ماحول میں آپ کیسے خود کو ہر دم چست اور مستعد رکھتے ہیں کہ دشمن پاک فضاؤں
کی جانب سے میلی نظر سے دیکھ بھی نہ سکے ۔اس فلائنگ افیسرنے جواب دیا ۔ جب
ہم فضائیہ میں شامل ہوتے ہیں تو سردی اور گرمی کو بھول جاتے ہیں ٗ ہمیں صرف
اپنے سینئر کا حکم بجالانا ہوتا ہے ۔ وادی کارگل ہو یا سیاچن ٗ وزیرستان ہو
یا باجوڑ ایجنسی ۔ہم ہر جگہ اور ہر وقت جانے کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس فلائننگ آفیسر کے جذبے کو سیلوٹ کرتے یہ بتانا
چاہتا ہوں کہ فاروق عمر بھی اپنے ارادوں کے اس قدر ہی مضبوط تھے اور اب بھی
ہیں ۔اگر آج بھی وطن کو ان کی ضرورت پڑے تو 78 سال کی عمر میں بھی پائلٹ کی
وردی پہن کر وہ دشمن پر تابڑ توڑ حملے کرنے کا جنون کی حد تک جذبہ رکھتے
ہیں ۔ وہ 24 جولائی 1941ء کو فیصل آباد کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے
۔ابتدائی تعلیم گرائمر پبلک سکول ایبٹ آبادسے حاصل کی ۔ سنٹرل ماڈل ہائی
سکول سے میٹرک کرنے کے بعد آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے ۔ دوران
تعلیم ہی آپ نے آئی ایس ایس بی کا امتحان بہترین گریڈ میں پاس کرکے پاکستان
ائیر فورس کا حصہ بن گئے ۔یہ غالبا 1957ء کا زمانہ تھا ۔گرایجویشن کے وقت
انہوں نے بیک وقت Sword of Honor ,Best Pilot Trophy and Acdamics Trophy
حاصل کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ۔ کراچی تعیناتی کے دوران رن آف کچھ کے
محاذ پر اسٹار فائٹر کی حیثیت سے کئی فضائی مشن نہ صرف کامیابی سے مکمل کیے
بلکہ بھارتی فضائیہ کو وہاں مداخلت سے باز رکھا ۔ سرگودھا تعیناتی کے دوران
آپ کو ائیرچیف مارشل نور خان کی سرپرستی اور ایم ایم عالم کی رفاقت میں
کتنے ہی جنگی مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا موقع میسر آیا ۔ 1972ء میں
وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے کرنل قذافی کی درخواست پر آپ کو
لیبیا ئی فضائیہ کے قیام اور لیبیائی پائلٹوں کو تربیت دینے کا فریضہ سونپا
جو آپ نے نہایت خوبی سے نبھایا ۔ بعد ازاں 1973ء کی عرب ٗ اسرائیل جنگ میں
شام اور مصر کی جانب سے اسرائیلی فضائیہ کے خلاف کتنے ہی معرکہ آراء مشن کی
تکمیل کی ۔آپ ہی وہ ہیں جنہوں نے جے ایف 17 تھنڈر طیارے بنانے والے پروجیکٹ
کے پہلے ڈائریکٹر جنرل بنے ۔پی آئی اے کی منیجنگ ڈائریکٹر اور چیئرمین کے
عہدے پر بھی فائز رہے ۔ (یادرہے کہ اس وقت پی آئی اے منافع بخش ہونے کے
ساتھ ساتھ دنیا کی بہترین فضائی کمپنیوں میں اس کا شمار ہوتا تھا ) آپ
شاہین ائیر لائن کے بانی چیف ایگزیکٹو بھی فائزرہے ۔ جب آپ کو پاکستان ہاکی
فیڈریشن کا سربراہ بنایا گیا تو قومی ہاکی ٹیم نے چیمپیئن ٹرافی اور
آسٹریلیا میں ہونے والا ورلڈ کپ بھی جیتا ۔گویا آپ نے اپنی ولولہ انگیز
قیادت میں ہاکی ٹیم کو زیرو سے ہیرو بنادیا ۔یہ سب کچھ بتانے کامقصد یہ ہے
کہ آج جب میں اس عظیم قومی ہیرو کے گھر پہنچا تو وہ نہایت کمزور اور تنہائی
کا شکار دکھائی دیئے ۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ تھی کہ اس گھر میں ایک عظیم
قومی ہیرو رہائش پذیر ہے جس نے اپنی ساری زندگی وطن کے دفاع اور قوم کی
فلاح کے لیے وقف کردی ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ایم ایم عالم جیسے قومی
ہیرو بھی نہایت بے بسی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ مرنے کے بعد
میانوالی ہوائی اڈے کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا۔ زندگی میں وہ بھی نرسوں
اور ڈاکٹروں کے سپرد رہے اور قوم خواب غفلت کے مزے لوٹتی رہی ۔ لبرٹی چوک
میں پھول رکھنے اور موم بتیاں جلانے والی سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے
علمبرداروں کو کبھی اپنے ہیرو ز کویاد کرنے کی توفیق نہیں ہوئی جن کی و جہ
سے وہ اس آزاد و خود مختار ملک پاکستان میں سانس لے رہے ہیں ۔ مزہ تو تب ہے
کہ ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمرکے گھر کے باہر روزانہ تازہ پھولوں کے
انبار لگے ہوتے ۔جن کے تحفظ کے لیے انہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ
صرف کیا تھا۔ خدانخواستہ کیا ہم ان کے مرنے کا انتظار کررہے ہیں ۔وہ اپنا
بہترین نالج ٗ تجربات اور مشاہدات کو نوجوان نسل سے شیئر کرنا چاہتے ہیں
لیکن کسی ٹی وی چینلز ٗ یونیورسٹی اور تعلیمی ادارے کے پاس اتنا وقت نہیں
کہ وہ اس عظیم ہیرو کوبطور مہمان خصوصی بلائے اورنوجوان نسل کو قومی ہیروز
کے مشاہدات سننانے اور دکھانے کی سہولت فراہم کرے ۔ پاک بھارت جنگوں میں
وطن کا دفاع کرنے والے عظیم ہیرو (فاروق عمر) اس وقت جبکہ بڑھاپے اور
بیماریوں سے اکیلے جنگ کررہے ہیں پاکستانی قوم کی نیک تمنائیں اور محبتیں
انہی جینے کا نیا حوصلہ تو دے سکتی ہیں۔ کسی نے سچ کہاہے کہ وہ قومیں کبھی
زندہ نہیں رہتی جو اپنے ہیروز کو ان کی زندگی میں ہی فراموش کردیتی ہے ۔ |