عظیم فاتح سیدناامیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ

حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے والد کا نام ابوسفیان بن حرب اور والدہ کا نام ہندہ تھا۔ ہجرت مدینہ سے تقریباً 15 برس پیشتر مکہ میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ اعلان نبوت کے وقت آپ کی عمر کوئی چار برس کے قریب تھی۔ جب اسلام لائے تو زندگی کی 25 بہاریں دیکھ چکے تھے۔ فتح مکہ کے بعد نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم نے ابوسفیان رضی اﷲ عنہ کے گھر کو بیت الامن قرار دیا اور ان کے بیٹے معاویہ رضی اﷲ عنہ کو کاتب وحی مقرر کیا۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے آپ رضی اﷲ عنہ کے بھائی یزید بن ابوسفیان کو شام کے محاذ پر بھیجا تو معاویہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ عہد فاروقی میں دمشق کا حاکم مقرر کیا گیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے آپ کو دمشق،اردن اور فلسطین تینوں صوبوں کا والی مقرر کیا اور اس پورے علاقہ کو شام کا نام دیا گیا۔آپ ؓ کے زمانے میں کوئی علاقہ سطلنت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوا، بلکہ اسلامی سلطنت کا رقبہ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔

اموی خلافت
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے اندوہناک واقعہ شہادت کے بعدحضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے (جو اس وقت ملک شام کے امیر تھے) حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے قاتلانِ عثمان سے قصاص لینے کامطالبہ کیا۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے بعد اہل کوفہ نے حضرت حسن رضی اﷲ عنہ کی بیعت کرلی، لیکن حضرت حسن رضی اﷲ عنہ امت مسلمہ کو خونریزی سے بچانے کے لیے امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے حق میں دست بردار ہوگئے۔ آپ کے اعلان دست برداری کے بعد 661ء میں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اپنی خلافت کا اعلان کیا۔

استحکام سلطنت کے لیے اقدامات
خوارج کا مقابلہ
مخالفین بنو امیہ میں سب سے زیادہ منظم اور خطرناک گروہ خوارج کا تھا۔ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے تخت نشین ہونے کے فوراً بعد661ء میں ایک خارجی فسردہ بن نوفل نے کوفہ کے قریب علم بغاوت بلند کیا۔ سرکاری افواج بھی ان سے شکست کھاگئیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے کوفہ میں خوارج کی سرگرمیوں کے تدارک کے لیے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ عنہ کو مقرر کیا۔ مغیرہ رضی اﷲ عنہ کی زبردست کوششوں کے نتیجہ کے طور پر خوارج کو دوبارہ سر اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی اور ان کے رہنما مارے گئے۔ کوفہ کے بعد خوارج کا دوسرا مرکز بصرہ تھا۔ بصرہ کے خوارج کی سرکوبی کر کے تمام عراق میں امن و امان قائم کر دیا۔

بغاوتوں کی روک تھام
661ء میں بلخ، بخارا، ہرات اور بادغیس کے حکمرانوں نے اموی اقتدار کے خلاف بغاوت کر دی۔ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے انہیں اطاعت قبول کرنے پر مجبور کردیا۔ 663ء میں کابل کے حکمران نے بغاوت کردی تو عبدالرحمن بن سمرہ اس بغاوت کو فرو کرنے پر مامور ہوئے۔ انہوں نے بخارا سے لے کر غزنہ اور کابل تک کے تمام علاقے کو اموی احاطہ اقتدار میں دوبارہ شامل کر لیا۔

سندھ پر حملہ
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں سندھ پر دو طرفہ حملہ کیا گیا۔ ایک مہم مہلب کی کمان میں اور دوسری بلوچستان سے منذر کی زیر سرکردگی روانہ کی گئی۔ مہلب کابل، قندھار، فتح کرتا ہوا سرزمین سندھ میں داخل ہوا۔ دوسری طرف منذر مکران کا علاقہ فتح کرتا ہوا قلات کی طرف آگے بڑھا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی ایک مہمات روانہ کی گئیں، جو کامیاب ہو کر واپس لوٹیں۔

ترکستان کی فتوحات
سعید بن عثمان کی ولایت کوفہ کے زمانہ میں ترکستان پر باقاعدہ لشکر کشی کی گئی۔ سعید دریا جیحوں پار کرکے اہل سغد کے پایہ تخت تک جاپہنچے۔ ایک لاکھ بیس ہزار فوج مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے نکل پڑی۔ بخارا میں دونوں افواج کے درمیان زبردست جنگ ہوئی اور ملکہ صلح کرنے پر مجبور ہوئی۔ بخارا پر قبضہ کے بعد اسلامی لشکر نے سمرقند کا محاصرہ کر لیا۔ اہل سمرقند نے کچھ عرصہ تو مزاحمت کی، لیکن بالآخر سات لاکھ درہم سالانہ کے وعدہ پر صلح کر لی۔ سمرقند کے بعد ترمذ کا علاقہ بھی فتح کر لیا گیا۔ اس طرح ترکستان کا بیشتر حصہ اموی سلطنت کا جزو بنا۔

شمالی افریقہ کی فتوحات
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں ان علاقائی فتوحات میں مزید توسیع کی گئی۔ عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ شمالی افریقا کے گورنر تھے۔ آپ نے عقبہ بن نافع اور معاویہ بن خدیج کو شمالی افریقا کی فتح کے لیے نامزد کیا۔ 661ء میں عقبہ نے شمالی افریقا پر فوج کشی کرکے طرابلس، تونس اور الجزائر کے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد بوزانہ اور زناطہ تک اپنے حلقہ اقتدار کو وسیع کیا۔ 663ء میں سوڈان پر لشکر کشی کی گئی اور اس کے کثیر حصہ پر قبضہ کر لیا گیا۔

قسطنطنیہ پر حملہ
رومی حملوں کی روک تھام کے لیے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے بالآخر بازنطینی حکومت کے دارالحکومت قسطنطنیہ کی تسخیر کا باقاعدہ منصوبہ بنایا۔فوج کی کمان امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے بیٹے یزید کے ہاتھ میں تھی۔ محاصرہ کے دوران شہر کی بلند فصیل سے مسلمانوں پر آگ کے گولے برسائے گئے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ حملہ اگرچہ ناکام رہا، لیکن رومیوں پر اس قدر خوف طاری رہا کہ آئندہ کئی برسوں تک انہوں نے مسلمانوں کے خلاف کوئی جارحانہ کاروائی نہ کی۔

جزائر روڈس اور ارواڈ کی فتح
شامی علاقہ کے تحفظ کے نقطہ نظر سے جزائر روم کی فتح ضروری تھی۔ چنانچہ اس مقصد کی خاطر اس سے پیشتر جزیرہ قبرص فتح کیا جا چکا تھا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اپنے زمانہ میں ایک قدم مزید آگے بڑھا کر جزیرہ روڈس پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد 54ھ میں جزیرہ ارواڈ پر قبضہ ہوا۔

نظام حکومت اور انتظامی اصلاحات
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے نظم و نسق کی کافی حد تک اصلاح کرکے حکومت کو استحکام بخشا اور فوجی اور دیگر اصلاحات سے ملک کو بیرونی حملوں سے تحفظ دیا۔ ان کے نظام حکومت کا خاکہ درج ذیل ہے:
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی حکومت کی بنیاد خلیفہ کے وسیع اختیارات پر تھی۔ مجلس شوریٰ کا وجود قائم تھا اور اس میں عرب کے معروف مدبّر عمرو بن العاص، مغیرہ بن شعبہ، زیاد بن ابی سفیان اور دیگر اکابرین امور سلطنت میں شامل تھے۔ ملکی تقسیم اور صوبائی حد بندی کا نظام تقریباًً وہی رہا جو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں تھا۔ ہر صوبے کے لیے الگ گورنر تھا جسے والی کہتے تھے۔ عہد امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ میں فوج کی تنظیم کی طرف خصوصی توجہ دی گئی۔ اس کا ڈھانچہ عہد فاروقی کے خطوط پر قائم رہا۔ فوج کے دو حصے تھے جنہیں گرمائی اور سرمائی علی الترتیب صافیہ اور شاتیہ کہتے تھے۔ فوج کی تنخواہ اور بھرتی کے نظام کی اور زیادہ اصلاح کی گئی۔ غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف ملکی دفاع کے لیے نئی نئی چھاؤنیاں اور شہر آباد کیے گئے۔ دوران جنگ تلواروں، تیروں اور دیگر رائج الوقت اسلحہ کے علاوہ، قلعہ شکن آلات کا عام استعمال ہوتا تھا۔ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے فوج کی تنظیم اس طرح کی کہ ڈسپلن اور استعداد کے لحاظ سے یہ دنیا کی صف اول کی افواج کی ہم پلہ بن گئی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کا عظیم اور شاندار کارنامہ اسلامی بحریہ کی تشکیل ہے۔ منصب خلافت سنبھالنے کے بعد آپ رضی اﷲ عنہ نے سب سے زیادہ توجہ بحریہ کی ترقی پر صرف کی۔ عہد عثمانی میں 500 جنگی بحری جہاز موجود تھے، جن کے ذریعے قبرص کا جزیرہ فتح ہوا تھا۔ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اس بحری بیڑے کو مزید مستحکم بنایا اور مصر و شام کے ساحلی مقامات پر جہاز سازی کے کارخانے قائم کیے گئے۔ بحری فوج کا سپہ سالار علیحدہ مقرر کیا گیا۔ جسے امیرالبحر کہتے تھے۔ ملک کے اندرونی نظام اور امن و امان کے قیام کے لیے محکمہ پولیس کو باقاعدہ منظم کیا گیا۔ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے خبر رسانی اور ڈاک کی ترسیل کے لیے برید کے نام سے مستقل محکمہ قائم کیا۔ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے دیوان خاتم کے نام سے ایک محکمہ قائم کیا، جس کے ذمہ تمام حکومتی محکموں کا ریکارڈ کی نقلیں رکھنا اور خطوط کو سربمہر کرکے متعلقین تک پہنچانا تھا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے فوجی ضروریات کی بنا پر نئی نئی چھاؤنیاں تعمیر کیں اور برباد شدہ شہروں کو دوبارہ آباد کیا۔ واسط اور قیروان کی چھاؤنیاں بعد میں بڑے بڑے شہروں کی شکل اختیار کر گئیں۔ ارواڈ کے جزیرہ میں مسلمانوں کو آباد کیا اسی طرح انطاکیہ میں ایک مسلم نو آبادی قائم کی۔ زندگی میں کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جو حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کی اصلاحات سے متاثر نہ ہوا ہو۔ خوشحالی اور زراعت کی ترقی کے لیے آبپاشی کے نظام کی طرف خصوصی توجہ دی گئی۔ مدینہ کے قرب و جوار میں متعدد نہریں کھدوائی گئیں، جن سے اناج اور پھلوں کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ نئے شہروں میں لوگوں کے دینی فرائض کی بجا آوری کے لیے مسجدیں تعمیر کی گئیں۔

سیرت و کردار
حضرت امیر معاویہ اگرچہ وہ خلفائے راشدین کی خصوصیات کے حامل نہ تھے، لیکن وہ ایک اعلیٰ درجہ کے حکمران ضرور تھے۔ تدبر و رائے اور سیاست دانی میں روسائے عرب میں سے کوئی بھی ان کا ہم پلہ نہ تھا۔ فصاحت و بلاغت میں بھی وہ یکتا تھے۔ ایک بہترین خطیب بھی تھے۔رعایا کے کمزور سے کمزور اور غریب سے غریب آدمی کے حالات سے باخبر رہتے تھے۔ اہل دربار پر بھی یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ وہ لوگ جو ان تک نہیں پہنچ سکتے، ان کی ضروریات کو امیر تک پہنچانا ان کا ذمہ ہے۔ ایک فوجی ماہر کی حیثیت سے ان کا مقام بہت بلند تھا۔ رومیوں کے خلاف کامیاب فتوحات ان کی اس صفت کی شاہد ہیں۔ سب سے بڑھ کر جو چیز ان کو ہمعصر حکمرانوں سے ممتاز اور نمایاں کرتی ہے وہ ان کی سیاست دانی، معاملہ فہمی اور تدبر ہے۔ آپ کی سیاست ہمیشہ کامیاب رہی، ان ہی اوصاف اور کارہائے نمایاں کی بدولت انہوں نے ایک مضبوط اموی حکومت کی بنیاد رکھی۔ حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اﷲ تعالی قیامت کے دن معاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ کو اس طرح اٹھائیں گے کہ ان پر نور ایمان کی چادر ہو گی۔ (کنزالاعمال) ایک موقع پر حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اے اﷲ معاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قا ئم رہنے والا اور لوگوں کے لیے ذریعہ ہدایت بنا۔‘‘ ( جا مع ترمذی)

وفات
22رجب المرجب 60ھ میں کاتب وحی، جلیل القدر صحابی رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم، فاتح شام و قبرص اور 19سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ 78 سال کی عمر میں دمشق میں فوت ہوئے اور وہیں دفن ہوئے۔ رضی اﷲ عنہ و ارضاہ۔ آپ نے تجہیز و تکفین کے بارے میں وصیت کی کہ رسول اﷲ کے کرتہ مبارک کا کفن پہنایا جائے اور آپ کے ناخن مبارک اور موئے مبارک کو منہ اور آنکھوں پر رکھ دیا جائے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700815 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.