آج کل سوشل میڈیا پرچاروں طرف سے ایک طوفان بد تمیزی نظر
آ رہا ہے۔بات جھوٹے لطیفوں،من گھڑت قصوں،بے سند باتوں،بیہودہ کہانیوں اوربے
حیا تصویروں سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ایک وقت تھا کہ بچوں کو غلط کام کرتے
وقت بڑوں کا ڈر ہوتا تھا،اب صورتحال یہ ہے کہ "سیانے"خود بچوں کواپنے سیاسی
عزائم کی تکمیل کے لیے غلط استعمال کر رہے ہیں۔اپنی ہی نوجوان نسل کو بھڑکا
کر اور اُکسا کرسوشل میڈیا پر مخالف جماعتوں کے افراد کی کردارکشی جیسا
قبیح فعل سرزدکروایاجا رہا ہے۔ غلاظت کا ایک انبار ہے جس کی بد بو سے
انسانیت کا دم گھُٹ رہا ہے۔کمپیوٹر سے ہم انسانی منفعت کا تو کوئی کام نہ
لے سکے البتہ انسانیت کوشرمسار کرنے کا ہنر خوب جان گئے۔آج بچہ بچہ مشکل سے
مشکل ایڈیٹنگ ایپلیکیشن بآسانی استعمال کر سکتا ہے۔کسی کی بھی شکل کو کسی
کے ساتھ بھی کسی بھی حالت میں جوڑ سکتا ہے۔کسی کی طرف کسی بھی وقت کوئی بھی
بات منسوب کر سکتا ہے۔وہ کہ جسے پورے انہماک کے ساتھ قرآن میں تفکر کرنا
چاہیے تھا وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں قرآن کے منافی سچ میں جھوٹ کی آمیزش
کرنے میں ہمہ وقت مصروف عمل ہے۔ارشاد ربانی ہے:۔"بے سند باتیں کرنے والے
غارت ہوئے"(سورۃ الزّٰاریٰت،پارہ: 26، آیت:10)۔ ہمارے ملک میں بد قسمتی سے
اقتدار کی جنگ نے دشمنی کے تمام اصول و ضوابط بھلا دیے ہیں۔باقاعدہ سوشل
میڈیا سیل قائم کر کے جس قسم کی مہم جس انداز سے جس مقصد کے لئے چلائی جا
رہی ہے اس سے کون واقف نہیں؟یہ ہمارے بچے جنہیں عکسِ خالد بن ولیدؓ بننا
تھا جنہیں مثلِ مثنیؓ بننا تھا،وہ فیس بک پرخیالی طور پر مثالی پاکستان
بنانے کی سعی لا حاصل کرتے نظر آتے ہیں۔عملی بنیادوں پر کوئی بھی کچھ کرنے
کا نہ متحمل ہے نہ روادار ہے۔خرافات کا شکار قوم بھول گئی کہ روز قیامت
ہمیں اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے۔یوم محشر کہاں ڈھونڈتے پھریں گے ان
ہزاروں لاکھوں افراد کو،جن کی تصاویر و اقوال وافعال کو بدل بدل کر ان کی
حرمت و تقدس پر بہتان درازیاں کی تھیں۔یہ سیاست دان کیا سمجھتے ہیں کہ ایسے
اپنے حریفوں کی کردار کشی کر کے وہ خود مقبول ہو جائیں گے؟کاش آپ تاریخ کا
مطالعہ کرتے اور پڑھتے کہ قائد اعظمؒ نے کس طریقے سے نوجوان طلبا کو سیاست
میں داخل کیا تھا اور کس خوبصورت انداز سے انہوں نے ان کی صلاحیتوں کو بروے
کار لاکر یہ عظیم مملکت قائم کی تھی ۔شو مئی قسمت کہ ہمارے نوجوان تو پہلے
ہی معیاری اسلامی نظریاتی تعلیم کے فقدان کی وجہ سے غیر نظریاتی ہو چکے
ہیں۔اوپر سے ان کی رہنمائی کرنے والوں نے باقی کسر بھی پوری کر دی ہے۔مقبول
وہی ہوتا ہے جو خدمت کرتا ہے۔اس کے علاوہ ہر راستہ محض خام خیالی ہے۔ اسلام
نے شاید اسی وجہ سے تصویر کشی کو حرام قرار دیا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ
اس کے زریعے انسان انسانوں کی کردار کشی کریں گے۔ ذاتی طور پر کوئی کسی
نہیں جانتا مگر بڑے وثوق سے غلط بات پھیلائی جاتی ہے۔وہ دن جو اسلام کے
نفاذ و تبلیغ کی کوششوں میں صرف ہونے چاہیے تھے،و ہ راتیں جو قرآن پڑھ پڑھ
کر غور و فکر کرنے میں بسر ہونی چاہیے تھیں،وہ کبھی واپس نہ آنے والا عمر
کا قیمتی حصہ دوسروں کی عزتوں کو پامال کرنے کی اسکیمیں بنانے میں گذر رہا
ہے اورہر کوئی اس دوڑ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔اس جھوٹ سے اب انسانی
زندگی کا کوئی پہلوبھی محفوظ نہیں رہا۔آگ لگانے والوں کے اپنے ہاتھ بھی جل
رہے ہیں مگر دوسروں کی عزت اچھال کر ملنے والے لطف نے درد کے احساس کو چھپا
رکھا ہے۔بنوانے والے کو پتہ ہے کہ وہ جھوٹ بنوا رہا ہے؛بنانے والے کو پتہ
ہے کہ وہ جھوٹ بنا رہا ہے؛پڑھ کر محظوظ ہونے والا بھی اس کے غلط ہونے پرخوب
یقین رکھتا ہے اور آگے پھیلانے والے کو بھی اس کی صداقت پر شبہ ہے۔خدا کے
بندوں نے خدا کے کلام تک کو نہیں بخشا؛حدیث شہ ابرارؐ کو بھی نہیں
چھوڑا۔بغیرحوالوں کے یا غلط حوالوں سے ذاتی اختراعات کا ٹڈی دَل ہے جو
تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔بقول راقم:
نہ ڈر ہے روز حساب کا،نہ ہم کو خوف عذاب ہے
ہمیں صرف چاہیے مال بس،اسی مال میں تو قرار ہے
غور طلب نکتہ ہے کہ جو اسلام ہمیں اچھی بات کوبھی آگے سنانے سے پہلے تصدیق
کر لینے کا حکم دیتا ہے وہ بھلا جھوٹی بات کو بغیر تحقیق کے پھیلانے پر
ہمیں کیسے معاف کرے گا۔ایک مومن مسلمان کی حرمت جو کعبہ سے بھی ذیادہ بلند
ہے وہ آج دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی ہے۔ بہترین مخلوق بہترین
نصابِ حیات رکھنے کے باوجود بد ترین طرزِ زندگی اختیار کیے ہوئے ہے۔تنقید
کا حق سب کو ہے۔مگر اس کے لیے اسلامی شعار کے مطابق وضع کردہ طریقہ کار ہی
سب سے بہتر اور موثر ہے۔ذرا سوچ کر دیکھیے کہ کسی کے بارے میں جھوٹی باتیں
بنا کر پھیلانے کی ضرورت کیا ہے جب کہ اصل خامیاں بڑی تعداد میں اورواضح
انداز میں موجود ہیں ،انہی کو بہتر انداز میں اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے
بیان کیا جائے تو کافی ہو گا۔ایک شخص کی صحیح خامی کو بھی بیان کرتے وقت
اتنی مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے کہ اس کی اصل خامی اندر ہی چھپ کے رہ
جاتی ہے۔وہ بجائے اس کے کہ قابل نفرت سمجھا جائے الٹا ہمدردی کا مستحق بن
جاتا ہے۔مبالغہ آرائی کی وجہ سے تنقید میں وزن ہی نہیں رہتا تو تنقید کا
اصل مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔صرف سیاسی طور پر نہیں بلکہ معاشرتی طور پر ہم
سب اپنی اصل پہچان غلط کر رہے ہیں۔خدارا اس رجحان کو بدلیے۔اس آگ نے حرمت
انسانی کے محل کو جلا کر راکھ کر دیا ہے اوراس راکھ میں سے اٹھتے دھویں میں
انسانی شکل تک دیکھنا اب محال ہو گیا ہے۔خدا کے قہر کی بجائے اس کے فضل کو
دعوت دینی چاہیے۔ہر وقت دوسروں پر نکتہ چینی کرنے کی بجائے ہمیں اپنی اصلاح
کی فکر کرنی چاہیے۔ استغفار کا اہتمام کرنا چاہیے۔جھوٹ کی اس دنیا نے کئی
گھرانوں کی خوشیوں کو نگل لیا ہے۔فریب کے اس سمندر میں کئی جانیں ڈوب چکی
ہیں۔خدارا خیالی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آنکھ کھولیں۔کاش کہ
ندامت نصیب ہو،وہ ندامت جو توبہ کے گھر تک لے جائے اور معافی کا در کھُل
جائے۔ |