رات کا وقت تھا، چائے کی دکان بند ہو چکی تھی۔ گاؤں کے سنسان گلیوں میں ایک نوجوان، احمد، تھکے قدموں سے چلتا ہوا حاجی کریم کے پاس آیا۔ آنکھوں میں مایوسی، دل میں بوجھ اور زبان پر شکوے۔
"حاجی صاحب! قسمت ہی خراب ہے… چاہے جتنی محنت کر لوں، کچھ بدلتا ہی نہیں۔"
حاجی کریم نے اپنی سفید داڑھی پر ہاتھ پھیرا، گہری سانس لی اور کہا: "بیٹا، تجھے ایک کہانی سناؤں؟"
"پرانے وقتوں میں ایک چور گاؤں میں آتا تھا۔ وہ روپے نہ لیتا، سونا نہ چرا تا… لیکن جو وہ لے جاتا، وہ سب سے قیمتی ہوتا۔"
احمد نے حیران ہو کر پوچھا: "کیا لیتا تھا وہ؟"
حاجی کی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔ "وہ لوگوں کا حوصلہ چرا لیتا تھا، ان کے خواب چرا لیتا تھا۔ وہ ان کے دل میں شک ڈال دیتا تھا، دماغ میں خوف بٹھا دیتا تھا۔ وہ ان کا وقت فضول باتوں میں ضائع کر دیتا تھا۔ اور جب وہ لوگ ہوش میں آتے… ان کی جوانی، ان کا وقت، ان کا سب کچھ ختم ہو چکا ہوتا۔"
حاجی نے احمد کے کندھے پر ہاتھ رکھا آج کے دور میں بھی وہ چور موجود ہے۔ بس اس کا چہرہ بدل گیا ہے۔ وہ چور ہے — بے مقصد باتوں میں وقت ضائع کرنا، دوسروں کی رائے میں الجھ جانا، اپنے بس سے باہر چیزوں پر فکر کرنا، دوسروں سے حسد کرنا، اور خود پر شک کرنا۔
سوچو ٹی وی پر سیاسی ٹاک شوز دیکھنے کا کیا فائدہ؟ ڈرامے ہمیں کیا دے رہے ہیں؟ فیملی ولاگنگ اور ٹک ٹاکس ہماری زندگی میں کیا بدل رہے ہیں؟ سیاسی پارٹیاں، ڈرامہ ہوسٹ، فیملی ولاگرز — سب تمہارا وقت چرا رہے ہیں اور خود پیسہ بنا رہے ہیں۔ ذرا غور کر…
"یاد رکھ، ہر دن جو تم اپنے مقصد کے بغیر گزارو گے، وہ دن اس چور کے ہاتھ چلا گیا۔ اور یہ چور تمہاری طاقت، تمہارا وقت اور تمہارا مستقبل سب کچھ چرا لے گا۔"
حاجی کی آواز بھرا گئی: "بیٹا… سب سے بڑا چور تمہارے گھر میں نہیں، تمہارے اردگرد نہیں… سب سے بڑا چور تمہارے اندر ہے۔ اور اگر تم نے اسے آج نہ پکڑا، تو ایک دن تم آئینے میں خود کو دیکھو گے اور کہو گے — میری زندگی لوٹ لی گئی، اور چور میں خود تھا۔" |