بلوچستان کے امن کی دشمن! فتنہ الہندوستان کی کالعدم تنظیمیں
(نسیم الحق زاہدی, Lahore)
بلوچستان قدرتی وسائل کا خزانہ، ثقافتی اقدار کا امین، اور غیرت و حمیت کی سرزمین آج بیرونی سازشوں اور اندرونی غداروں کے گٹھ جوڑ کا شکار ہے۔ دشمن صرف ہماری سرحدوں پر حملہ آور نہیں، بلکہ ہمارے نظریات، ہماری شناخت، ہماری تہذیب اور ہمارے مستقبل کو بھی مسخ کرنے پر تلاہوا ہے۔ اس حملے کا سب سے خبیث روپ ''فتنہ الہندستان'' کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے یعنی بھارت کی آشیرباد سے چلنے والی وہ کالعدم تنظیمیں،جن میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) اور ان جیسے دیگر خونی گروہ شامل ہیں جو نہ صرف ریاست پاکستان، بلکہ دین اسلام، بلوچ اقدار، انسانی حرمت، ترقی اوربلوچ قوم کے مستقبل کے کھلے دشمن ہیں۔اسلام امن، انصاف اور انسانی جانوں کا محافظ کا دین ہے۔ ارشاد باریٰ تعالیٰ ہے''جس نے ایک انسان کا ناحق خون بہایا، گویا اُس نے پوری انسانیت کو قتل کیا''۔ مگر دہشت گردتنظیمیں اپنے بھارتی بھگوانوں کو خوش کرنے اورفنڈنگ کے لیے نہتے مزدوروں، معصوم شہریوں، عورتیں اور بزرگوں کو خاک و خون میں نہلا کراسلامی تعلیمات کو روند رہی ہیں۔واضح رہے کہ یہ دائرہ اسلام سے خارج ہو چکے ہیں۔بلوچ روایت غیرت، مہمان نوازی، عزت اور احترام کا حسین امتزاج ہے۔ صدیوں سے بلوچ قبائل غیر مقامی افراد کو ''مہمان'' سمجھ کر عزت دیتے آئے ہیں۔ ان کی جان و مال کی حفاظت کو فرض اول سمجھاجاتا ہے۔ لیکن بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسی دہشت گردتنظیمیں بلوچیت کا لبادہ اوڑھ کر اس عظیم روایت کی تذلیل کر رہی ہیں۔ شناختی کارڈ دیکھ کر بسوں سے مزدوروں کو اتار کربربریت کا نشانہ بنانا، نسلی ولسانی منافرت کو فروغ دیا جارہا ہے۔بلوچستان میں مزدور طبقہ جو دوسرے صوبوں سے آتا ہے، وہ صرف روزی روٹی کے لیے نہیں آتا بلکہ وہ اس سرزمین کی ترقی، تعمیر اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ لیکن ان پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ 2012 میں تربت میں 18 غیر مقامی مزدوروں کو شہید کیا گیا۔ 2013 میں مچھ میں 13 پنجابی مزدوروں کو نشانہ بنایا گیا۔ 2015 میں مستونگ میں 22 پشتون مزدوروں کو قتل کیا گیا۔ 2019 میں اورماڑہ میں 14 مزدوروں کو شناخت کارڈ دیکھ کر گولی ماری گئی۔ 2023 میں تربت میں 6 مزدور شہید کیے گئے۔ 12 اپریل 2024 کو پنجاب سے تعلق رکھنے والے کئی شہریوں کو بسوں سے اتار کر قتل کیا گیا۔ 26 اگست 2024 کو موسیٰ خیل میں 23 مزدوروں کو شہید کیا گیا۔ ستمبر 2024 میں پنجگور میں 7 مزدوروں کو قتل کیا گیا۔ 11 اکتوبر 2024 کو دُکی میں خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے 20 کان کنوں کو شہید کر دیا گیا۔ فروری 2025 میں ہرنائی میں 10 کان کنوں کو قتل کیا گیا۔ جولائی 2025 میں لورالائی میں 9 افراد اور قلات میں قوال برادری سے تعلق رکھنے والے 3 افراد کو بی ایل اے کے دہشت گردوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔یہ صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ بلوچستان کی مٹی میں بہایا گیا معصوم انسانوں کا خون ہے، جس کی نہ تو شریعت میں کوئی معافی ہے اور نہ ہی دنیا کے کسی قانون میں۔ ان سفاک درندوں نے نہ صرف مردوں کو نشانہ بنایا بلکہ بلوچ خواتین کو بھی اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ بلوچ روایات میں خواتین کو ہمیشہ عزت، وقار اور حرمت کی علامت سمجھا گیا ہے۔ وہ قبائلی تنازعات میں امن کی سفیر بنتی تھیں۔ مگر آج بی ایل اے جیسی تنظیمیں انہی خواتین کو دہشت گردی کی راہوں پر دھکیل رہی ہیں۔ ستمبر 2024 میں عدیلہ بلوچ، جو بی ایل اے کے چنگل سے آزاد ہوئی، نے انکشاف کیا کہ ان تنظیموں کی طرف سے ماہل بلوچ، شاری بلوچ اور سمیعہ قلندرانی جیسی خواتین کو ذہنی و جنسی استحصال کا نشانہ بناکر انہیں خودکش حملے کرنے پر مجبورکیا گیا۔ آج تعلیم یافتہ اور باصلاحیت بلوچ نوجوانوں کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک کر ان کی زندگیاں برباد کی جا رہی ہیں۔ گوادر کے پی سی ہوٹل پر حملہ، کراچی اسٹاک ایکسچینج پر خودکش دھماکہ، نوشکی، پنجگور، مچھ، تربت، گوادر پورٹ، اور جعفر ایکسپریس پر دہشت گردحملوں میں یہی نوجوان شامل تھے،جوخود توایک بھیانک موت مرکر اپنی دنیا وآخر ت گنوا ہ بیٹھے،ساتھ ساتھ اپنے والدین کو نہ ختم ہونے والی اذیت اور ذلت میں مبتلا کرگئے۔ حکومت پاکستان اربوں روپے کی لاگت سے بلوچستان میں سی پیک جیسے منصوبے، سڑکیں، پل، ہسپتال، یونیورسٹیاں قائم کر رہی ہے تاکہ بلوچ عوام کو روزگار، تعلیم اور صحت کی سہولیات میسر آئیں۔ مگر بی ایل اے،بی ایل ایف ودیگر تنظیمیں ان ترقیاتی منصوں پربم حملوں، گاڑیوں کی تباہی اور بینکوں کی لوٹ مار کے ذریعے سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ ایک اور محاذ جس پر یہ فتنے سرگرم ہیں، وہ سوشل میڈیا کا ہے۔ یہ لوگ جھوٹے پراپیگنڈا، جعلی خبروں اور ذہن سازی کے ہتھیاروں سے بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔کالعدم تنظیم بی ایل اے، انڈین میڈیا اور سوشل میڈیااکاؤنٹس کے ذریعے ریاست پاکستان کے خلاف زہر پھیلا رہی ہے۔ باہوٹ پردان، دی بلوچستان پوسٹ، بلوچستان فیکٹس، فاطمہ بلوچ، سفر خان بلوچ، اور میجر گورایا جیسے(سوشل میڈیا اوکاؤنٹس) کردار، اشوب، اسپر، اور درشن جیسے میگزین اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ ان کا مقصد صرف ایک ہے۔بلوچ نوجوان کو ریاست سے متنفر کر کے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا۔اوران سب کے پیچھے بھارت کی خفیہ ایجنسی را (RAW) ہے، جو مالی معاونت، تربیت، اور اسلحہ فراہم کر کے بی ایل اے،بی ایل ایف جیسے خونی گروہوں کو پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے لیے استعمال کررہی ہے۔ مگر اب بلوچ عوام باشعور ہو چکے ہیں۔ اورپہچان چکے ہیں، کہ بشیر زیب، اللہ نذر، حربیار مری اور براہمداغ بگٹی جیسے لوگ،بھارت ودیگر دشمن ممالک کے پروردہ ایجنٹ ہیں،غدار ہیں، بلوچوں کے ہمدرد نہیں۔ یہ خود تو یورپ محلوں میں رہتے ہیں اوراپنے مفادات کے لیے بلوچستان میں بلوچ نوجوانوں کوریاست کا باغی اور دہشت گرد بنارہے ہیں۔اب وقت آ چکا ہے کہ بلوچ قوم متحد ہو کر اس فتنہ الہندستان کو مکمل طور پر مستردکرے،پراپیگنڈا نیٹ ورکس کو بے نقاب کرے، اپنی ریاست اور ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر ترقی،امن اور خوشحالی کے سفر میں شریک ہو۔اور دشمن کے ہر وار کوناکام بنادے |
|