ہندوستان میں ریزرویشن کی بحث بہت پرانی ہے۔ملک میں
دلتوں اور پسماندہ طبقوں کو ایک لمبے عرصے تک برے حالات کا سامنا کرنا پڑا
ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں ریزرویشن کی شروعات 1921 میں ہوئی جب ہندو مذہب
کی اعلی ذات براہمن سے تعلق نہ رکھنے والوں کے لئے کوٹہ مخصوص کیا گیا تھا
لیکن یہ صرف مدراس پریزیڈنسی تک ہی محدود تھا۔آزادی کے بعد 1950 میں جب
ہندوستان کا آئین منظور ہوا تو ایک مقررہ وقت کے لئے سرکاری اداروں میں
تعلیم اور ملازمتوں کے لئے ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے دلتوں اور
قبائلیوں کے لئے سیٹیں مخصوص کی گئیں۔1979 میں قبائلی اور دلتوں کے حالات
کا اندازہ کرنے کے لئے منڈل کمیشن تشکیل دیا گیا۔ منڈل کمیشن نے اپنی رپورٹ
میں قبائلی اور دلتوں کے علاوہ دیگر پسماندہ طبقے کے لئے بھی ریزرویشن کی
سفارش کی اور جب و پی سنگھ حکومت نے منڈل کمیشن کی سفارشات نافذ کرنے کی
کوشش کی تواس کی زبردست مخالفت بھی کی گئی۔فی الوقت قبائلی اور دلتوں کے
لئے سرکاری تعلیمی اداروں میں تقریبا 22.5% فیصد سیٹیں مخصوص ہیں ۔
دیگر پسماندہ طبقات یا او بی سی جو انگریزی کےOther Backward Castes کا
اختصار ہے، اجتماعی اصطلاح ہے جسے حکومت ہند نے اُن ذاتوں کے لیے مختص کیا
ہے جو سماجی اور تعلیمی اعتبار سے کمزوراور پسماندہ ہیں۔1980ء میں پیش کی
گئی منڈل کمیشن رپورٹ کے مطابق ملک کی 52% آبادی دیگر پسماندہ طبقات پر
مشتمل ہے۔جسے نیشنل سیمپل آرگنائزیشن نے 2006ء میں 41% بیان کیاتھا ۔دستور
ہند میں او بی سی کو "سماجی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ طبقات" قرار دیا
گیا ہے ۔جس کی بنا پر حکومت ہند اُن کی ترقی کے لیے کوشاں ہے ۔عوامی شعبہ
میں ملازمتوں واعلیٰ تعلیم میں ان طبقات کو27.5% تحفظات فراہم کیے گئے ہیں۔
او بی سی کی فہرست ہندوستان کی سماجی انصاف اور تفویض اختیارات وزارت پر
دیکھی جا سکتی ہے ۔کیونکہ یہ فہرست حرکیاتی ہے لہذاسماجی ،تعلیمی اور معاشی
عوامل کی بنا پر اس میں ذاتیں اور برادریاں گھٹائی اور بڑھائی جاتی رہتی
ہیں ۔ حق معلومات قانون سے پتہ چلا ہے تحفظات کے باوجود صرف 12% او بی سی
ہی ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں جبکہ کچھ محکموں یہ تناسب 6.67% ہی ہے۔1985ء
تک پسماندہ طبقات کے معاملات وزارت داخلہ کی پسماندہ طبقات کی اِکائی
دیکھتی تھی۔ بعد میں ایک علاحدہ فلاح و بہبودگی کی وزارت 1985ء میں تشکیل
دی گئی ۔جس کا مقصد درج فہرست طبقات، درج فہرست قبائل اور او بی سی کی
بہبودگی پر نظر رکھنا تھا۔ وزارت کا پسماندہ طبقات ڈیویژن، او بی سی کی
پالیسی، منصوبہ بندی اور پروگراموں کی سماجی اور معاشی تفویض شدہ اختیارات
پر عمل آوری اوراو بی سی کی بھلائی کے لیے کام کرتا ہے۔اس کے لیے قومی
پسماندہ طبقات مالیہ و ترقی کارپوریشن اور قومی کمیشن برائے پسماندہ طبقات
،دو اہم ادارے قائم کیے گئے ہیں۔
دستور ہند کی دفعہ 340 کی رو سے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ او بی سی کی
بھلائی کو فروغ دے۔صدر جمہوریہ ایک کمیشن کا قیام کر سکتے ہیں ۔کمیشن کی
ذمہ داری ہوگی کہ وہ پسماندہ طبقات کے حالات کو پیش کریں، ان کی سماجی اور
تعلیمی حالات سے واقف کرائے،ساتھ ہی معاشی حالات اور روزگار سے متعلق اہم
معلومات بھی فراہم کرے۔قائم ہونے والا کمیشن متذکرہ دائروں میں تحقیقات کرے
گا اور صدر جمہوریہ کو رپورٹ پیش کرے گا جس کی روشنی میں سفارشات کی جائیں
گی۔پہلا پسماندہ طبقات کمیشن 29 جنوری 1953ء میں صدارتی حکم نامے کے تحت
کاکا کیلکر کی قیادت میں قائم ہوا تھا۔ اس کمیشن نے 30 مارچ 1955ء میں اپنی
رپورٹ پیش کی تھی۔ کمیشن نے 2,399 پسماندہ طبقات یا برادریوں پر ایک مکمل
رپورٹ پیش کی تھی جن میں 837 کو "سب سے زیادہ پسماندہ" قرار دیا تھا۔دوسرا
پسماندہ کمیشن حکومت کی سطح پر 1؍ جنوری 1979ء میں صدر جمہوریہ ہند کی جانب
سے قائم کیا گیاتھا۔ اس کمیشن کوعرف عام میں منڈل کمیشن کے نام سے جانا
جاتا ہے۔ یہ کمیشن بی پی منڈل کی قیادت میں قائم ہوا تھا۔اس کمیشن نے
دسمبر1980ء میں اپنی رپورٹ پیش کی، جس کے مطابق او بی سی آبادی جو ہندوؤں
اورمسلمانوں دونوں پر مشتمل ہے، آبادی کا52% فیصدحصے پرمشتمل ہے۔1979اور80ء
میں منڈل کمیشن کی ابتدائی فہرست کے مطابق پسماندہ طبقات اور برادریوں کی
کل تعداد 3,743 تھی۔تاہم پیش کردہ معلومات پر تنقید ہوئی کہ یہ "فرضی حقائق"
پر مبنی ہے۔ کیونکہ نیشنل سیمپل سروے یہ اعددو شمار 32% بتاتی ہے لہذا اس
بات پر خاطر خواہ بحث ہوئی کہ او بی سی کی تعداد واقتاً کتنی ہے؟ عام طور
سے تسلیم کیا گیا ہے کہ یہ لوگ قابل لحاظ ہیں، مگر منڈل کمیشن اور نیشنل
سیمپل سروے دونوں ہی کے اعداد و شمار سے کم ہیں۔اس سلسلے میں27% فی صد
تحفظات کی وکالت کی گئی ،لیکن چونکہ اس میں قانونی رکاوٹ تھی کہ کل تحفظات
50 فی صد سے زائد نہیں ہونے چاہیے۔
گزشتہ دنوں انڈین ایکسپریس میںChristophe JaffrelotاورGilles Verniersکا
ایک مضمونـ'The Representation Gapشائع ہوا۔جس میں کئی چونکانے والی باتیں
سامنے آئی ہیں۔منڈل کمیشن کے نافذ ہونے کے بعد لگاتار پسماندہ طبقات کے رکن
پارلیمنٹ میں اضافہ ہوا ہے ۔یہ تعداد 2004 کے لوک سبھا تک 26% فیصدی تک
پہنچ گئی تھی۔لیکن 2014 میں یہ تعداد گھٹ کے20% فیصدی سے بھی کم ہو
گئی۔وہیں منڈل کے نافذ ہونے کے بعد اعلیٰ ذاتوں کی تعداد لگاتار گھٹتی رہی
اس کے باوجود 2014 میں ان کی تعداد میں بڑا اچھال آیا اور یہ بڑھ کر 45%
فیصدی ہو گئی، یہی حال اتر پردیش اور بہار اسمبلی ایم ایل اے کا بھی ہے ۔اس
کی ایک وجہ یہ ہے کہ 2014کے لوک سبھا اور 2017کے اسمبلی انتخابات میں بی جے
پی دلت ووٹوں میں نقب زنی کرنے میں کامیاب رہی ہے۔اترپردیش کی 80لوک سبھا
سیٹوں میں سے 17دلت سماج کے لیے ریزرو ہیں ۔بی جے پی نے یہ تمام 17سیٹوں پر
اپنی سیٹ درج کی تھی۔وہیں ریاست کی 403اسمبلی سیٹوں میں سے 86سیٹیں مخصوص
ہیں ۔2017کے اسمبلی انتخابات میں یہاں بھی بی جے پی کو 76پر کامیابی حاصل
ہوئی تھی۔
بی جے پی کی ان تمام کامیابیوں کے باوجودحالیہ دنوں ایس سی ،ایس ٹی ایکٹ
میں تبدیلی کو لے کر جہاں دلت طبقہ ایک بار پھر سڑکوں پر اپنی ناراضگی ظاہر
کررہا ہے وہیں بی جے پی سے وابستہ دلت سیاست داں بھی حالات کا رخ بھانپ گئے
ہیں۔نتیجہ میں دلت ممبران کی بظاہر ناراضگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔بی
جے پی کی پہلی دلت لیڈر ساویتری بائی پھولے نے جس ناراضگی کا اظہار کیا تھا
وہ اب بڑھ کر چار دلت ممبران پارلیمنٹ تک پہنچ چکا ہے۔رابرٹ گنج لوک سبھا
سے چھوٹے لال وار نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر اپنا درد بیان کیا ہے۔انہوں نے
کہا ہے کہ ریزرویشن کوئی بھیک نہیں ہے بلکہ نمائندگی ہے۔اگر ریزویشن کو ختم
کرنے کی ہمت کی گئی تو بھارت کی سرزمین پر خون کی ندیاں بہیں گی۔وہیں اٹاوہ
سے بی جے پی کے رہنمااشوک دوہرے تیسرے دلت لیڈر ہیں جو اپنی پارٹی اور
حکومت سے ناراض ہیں۔دوہرے نے کہا ہے کہ 2؍اپریل کو بھارت بند کو لے کر
دلتوں کے خلاف مقدمے درج کیے جا رہے ہیں اور یوپی سمیت دوسری ریاستوں میں
ریاستی حکومت اور پولیس جھوٹے مقدمے میں پھنسارہی ہے۔وہیں نگینہ سے ایک اور
بی جے پی دلت لیڈر یشونت سنگھ ناراض ہوچلے ہیں۔اُن کا کہنا ہے چار سال میں
30کروڑ کی آبادی والے دلت سماج کے لیے براہ راست مودی حکومت نے کچھ بھی
نہیں کیا ہے۔قرض پوراکرنا،پرموشن میں ریزرویشن بل پاس کرنا، پرائیوٹ
نوکریوں میں ریزرویشن دلانے وغیرہ مانگیں ابھی تک پوری نہیں کی گئیں۔ان
تمام ناراضگیوں کے درمیان بی ایس پی سپریمو مایاوتی کا کہنا ہے کہ بی جے پی
حکومت دلت دلیروں کا قتل کر رہی ہے لیکن ایس سی ،ایس ٹی قانون میں دیے گئے
حقوق کی حفاظت کے لیے دلت اور قبائلی سماج کے لوگ ہر قسم کی قربانی دینے کے
لیے تیار ہیں۔اس پورے پس منظر میں محسوس ہو رہا ہے کہ غالباً ایک بار پھر
منڈل سیاست کے تیسرے دور کا آغاز ہو چلا ہے!
|