چین کے اسٹیٹ کونسل انفارمیشن کے دفتر نے۲۸جنوری ۲۰۱۸ء کو
پہلی بار ملک کی سرکاری قطب شمالی پالیسی کے بارے میں وائٹ پیپر جاری
کیا۔دستاویزات سے خطے میں چین کے مستقبل کے ترقیاتی اہداف کے بارے میں
اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اس دستاویز میں سائنسی، تجارتی، ماحولیاتی تحفظ،
معدنی وسائل کو نکالنے کے منصوبوں کے ساتھ بیلٹ روڈ منصوبہ بھی شامل
ہے۔راستوں کے ساتھ انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور امکانات کا جائزہ لینے کے لیے
کمرشل خلائی اور سمندری سفر کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے چینی
کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔
۲۰۱۷ء میں چینی تحقیقی کشتی زولانگ نے پہلی بار قطب شمالی میں تین اہم
سمندری راستوں کا پتا لگایا۔ جس میں شمال مغربی راستہ، شمال جنوبی راستہ
اورٹرانس پولر سمندری راستہ شامل ہے۔ دستاویزات میں چین نے قطب شمالی کے
پُرامن استعمال پر زور دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سرحدی حدود اور سمندری حقوق
سے متعلق تنازعات کا حل باہمی معاہدوں اور اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت
کرنے کی حمایت کی ہے۔اس منصوبے کے تحت چین کی سرحد کو قطب شمالی تک توسیع
نہیں دی گئی۔ چین قطب شمالی کونسل کے۱۳مبصرین میں سے ایک ہے اور خطے میں
اپنی سرگرمیاں بڑھا رہا ہے۔چین نے پانچ سال تک رکن رہنے کے بعد۲۰۱۳ء میں
مستقل مبصر کا درجہ حاصل کیا۔ اس سے قبل دو دفعہ وہ مبصر بننے کی کوشش کر
چکا تھا۔ مستقل مبصر بننے کے بعد چین کو کونسل کے تمام اجلاسوں اور ورک
شاپس میں شرکت کا اختیارحاصل ہوگیا ہے۔شمالی قطب کے خطے میں چین کی دلچسپی
کی وجہ توانائی کے ممکنہ ذخائر، تجارت اور جغرافیائی سیاسی فوائد ہیں،
مگران سب کو حاصل کرنے کی اپنی شرائط ہیں۔
خطے میں توانائی کے ذخائر اور معدنی وسائل موجود ہیں، اندازہ ہے کہ خطے میں
دنیا کے۱۳؍فیصد خام تیل کے ذخائر اور۳۰ فیصدقدرتی گیس کے ذخائر موجود
ہیں۔یہ تیل اور گیس کے ذخائر برف کی موٹی تہہ اور سخت موسم میں زیر سمندر
موجودہیں۔مستقبل میں ان ذخائر کو نکالنے کی کوششوں کا راستہ سمندر کی مضبوط
برف روک سکتی ہے۔اس وقت چین کا قطب شمالی سے سب سے اہم تعلق روس میں یامل
ایل این جی گیس کا منصوبہ ہے، اس منصوبے میں چینی کمپنیوں نے بھاری سرمایہ
کاری کر رکھی ہے۔اس منصوبے کے ذریعے چین طویل مدتی عرصے کے لیے ۱۹۵؍ارب
کیوبک فٹ گیس کی سالانہ بچت کرے گا۔قطب شمالی کے تیل اورگیس کے ذخائرکی
کھپت کاانحصارتیل اورگیس کی عالمی منڈی کی صورتحال اورسپلائی کےدیگر ذرائع
پربھی ہےجس میں امریکا کے غیر روایتی ذرائع بھی شامل ہیں۔
قطب شمالی سے تیل اور گیس نکالنے میں کئی رکاوٹیں ہیں، جس میں سخت موسم،
بھاری خرچہ، محدود انفرااسٹرکچر، پیداواری مراکز سے طویل فاصلے، ماحولیاتی
حساسیت شامل ہیں۔ ان مسائل نے ماضی میں شمالی روس اور الاسکا میں کئی
منصوبوں کو مکمل نہیں ہونے دیا۔قطب شمالی کے خراب سمندری حالات کے پیش نظر
ممکنہ طور پر مستقبل میں توانائی منصوبوں کو زیادہ چیلنجوں کا سامنا ہوسکتا
ہے۔ قطب شمالی کا سمندر ی راستہ مختصر ہونے کی وجہ سے تجارتی طور پر پُرکشش
ہے۔ شمال مغربی اور شمال مشرقی دو بنیادی متبادل راستے ہیں جن کے ذریعے
یورپ اور شمالی امریکا کے توانائی کے ذخائر کو تیز ی کے ساتھ چین پہنچایا
جاسکتا ہے، ان راستوں سے روایتی روٹر ڈیم جیسے راستوں کے مقابلے میں ہفتوں
پہلے پہنچا جاسکتا ہے۔ قطب شمالی میں موجود تیسراراستہ ٹرانس پولر سمندری
راستہ شمال مغربی اور شمال مشرقی راستوں کے درمیان سے ہوتا ہوا بین
الاقوامی پانیوں تک پہنچتا ہے۔ مگر یہ راستہ صرف بھاری آئس بریکر شپ ہی
پار کرسکتا ہے۔ سمندری راستہ مختصرہونے کا مطلب ایندھن کی بچت اور اخراجات
میں کمی ہے۔ قطب شمالی میں شمالی سمندری راستے کے علاوہ اکثر جگہوں پر
انفرااسٹرکچر اور امدادی سہولتوں کی صورتحال بہت خراب ہے۔اس کے علاوہ بیمہ
کی رقم میں اضافہ، تبدیل ہوتے موسمی حالات بھی ان راستوں میں حائل بڑی
رکاوٹیں ہیں۔کئی دہائیوں بعد ہوسکتا ہے کہ ان راستوں پر تجارتی سامان کی
آمدو رفت میں اضافہ ہوجائے۔شمالی قطب کے سمندر میں چینی تجارتی جہازوں کے
آمدورفت کی وجہ سے سیکورٹی میں اضافہ بھی کرنا پڑے گا۔شمالی مشرقی راستہ
روس کے خصوصی اقتصادی زون کے اندر سے ایک متبادل راستہ فراہم کرتا، اس
راستے کے ذریعے آبنائے ملاکا پر موجود بدترین رش اور بحیرہ احمر اور بحیرہ
ہند میں موجودبحری قزاقوں سے بھی محفوظ رہا جاسکتا ہے۔۲۰۱۳ء میں سوئس کنال
میں چینی بحری جہاز پر قزاقوں کے حملے سے سیکورٹی خطرات ابھر کر سامنے
آئے، دوسری جانب اس حملے کے وقت ایک اورچینی جہاز طویل شمال مشرقی راستے
کے سفر کے اختتام کے قریب تھا۔ چین ممکنہ طور پر شمالی قطب میں تجارت اور
توانائی کے ذخائر کی تلاش میں زیادہ سرگرم کردار ادا کرتا نظر آسکتا ہے۔
جس کا مطلب ہے کہ چین ا پنا جیو پولیٹکل اور جیو اکنامکس کردار مضبوط کررہا
ہے۔مثال کے طور پر شمال قطب کے سمندر میں موجود راستے چین کو یورپ تک جانے
کے نہر سوئس جیسے روایتی راستوں کا بہتر متبادل فراہم کرتے ہیں، اور ویسے
بھی ان روایتی راستوں پرامریکا کی فوجی برتری قائم ہے۔ دستاویزات میں بیلٹ
اور روڈ منصوبے کے علاوہ قطب شمالی میں چینی ترقی کے اہداف کا تذکرہ بھی
کیاگیا ہے۔ چینی سرمایہ کاری کا بڑا حصہ جنوب میں شپنگ کی صلاحیت بڑھانے،
ریل اور پائپ لائن انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے پر خرچ کیا جارہا ہے۔ چین
کاقطب شمالی میں سلک روڈ کے ساتھ انفرااسٹریکچر تعمیر کرنے کا منصوبہ اسے
ایک متبادل راستہ فراہم کرے گا۔ یہ منصوبہ دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچے
گا، قطب شمالی کے حوالے سے چین کے منصوبے پر مغربی خدشات کو دور کرنے کے
لیے وائٹ پیپر جاری کرتے وقت چین کے نائب وزیر خارجہ کاکہناتھاکہ’’ہماری
نیت پر شک کرنا، وسائل کو لوٹ لینے کے خدشات کا اظہارکرنا، ماحول کی تباہی
کی فکر کرنا غیر ضروری ہے‘‘۔ شمالی قطب کا علاقہ بے پناہ وسائل، تجارتی اور
جیو پولیٹکل فائدے رکھتا ہے، اس وجہ سے یہ خطہ چین کے ترقیاتی منصوبوں کے
لیے اہم ترین بن سکتا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب امریکا بین الاقوامی وعدوں سے
پیچھے ہٹ رہا ہے، چین چاہتا ہے کہ اسے ایک اہم اور ذمے دار ریاست کے طور پر
تسلیم کیا جائے۔ایک ایسی طاقت جس کی عالمی رسائی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے،
ایسے میں شمالی قطب میں ترقی کا چینی منصوبہ چین کے وسیع جغرافیائی سیاسی
تصور کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔
چین کے ان عالمی معاشی منصوبوں پرامریکااوراس کے اتحادیوں کی کڑی نظر ہے
کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان منصوبوں کی کامیابی کے بعددنیاکی تجارتی منڈیوں
پرچین کی برتری ان کی معیشت کوناقابل تلافی نقصان پہنچاسکتی ہے اورتیسری
دنیاکی تمام تجارتی منڈیاں چین کے تصرف میں چلی جائیں گی ۔یہی وجہ ہے کہ اب
امریکانے چین کے ان منصوبوں میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے اپنے استعماری حربوں
کاآغازکردیاہے جس کے تحت امریکا جنوبی چین کی سمندری حدودمیں چین کے
اقدامات کی روک تھام کرنے کے مقصدسے ویت نام کے خلاف امریکی جنگ کے خاتمے
کے بعدپہلی بارامریکی بحریہ کاطیارہ برداربیڑہ بڑی تعدادمیں فوجیوں کو
لیکرویت نام کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوگیاہے۔خبررساں اداروں کے مطابق
امریکی بحری بیڑا یوایس ایس کارل فیتھن چھ ہزار فوجیوں کولیکرویت نام کے
ساحلی شہر وانانگ میں پہنچا ہے۔ویت نام جنگ کے بعدخطے میں یہ امریکی فوج کی
پہلی بڑی آمد ہے۔اس سے قبل۱۹۷۵ء میں جنوب مشرقی ایشیامیں واقع اس ملک میں
بڑی تعداد میں امریکی فوج موجودتھی۔اب ایک ایسے وقت میں امریکی فوج بڑی
تعدادمیں ویت نام پہنچی ہے جبکہ جزائرباراسیل اورساتھ دیگرصنعتی جزیروں میں
چین اپنی فوج جمع کر رہا ہے۔یہ جزائراس علاقے میں واقع ہیں جس پرویت نام
اپنی ملکیت کادعویٰ کرتاہے۔
چین اپنی جنوبی ساحل کے علاقے سے مسلسل سمندرکے وسیع علاقے کی نہ صرف کڑی
نگرانی کررہاہے بلکہ گشت بھی جاری ہے اور اس حوالے سے اپنے پڑوسی ملکوں
اورامریکی و یورپی قوتوں کی تنقیدکوکلی مستردکردیاہے۔امریکی بحری بیڑے کی
چھ ہزار فوجیوں کے ساتھ ویت نام پہنچنے کے بعد امریکا اورچین میں کشیدگی
بڑھ گئی ہے۔ دریں اثناء چین نے اپنے دفاعی بجٹ کیلئے۱۷۵/ارب ڈالر مختص
کردیئے ہیں اورفوجی طاقت کومزیدمضبوط بنانے اوراقتدارِ اعلیٰ وترقیاتی
مفادات کے مکمل تحفظ کااعلان کردیا ہے۔دفاعی بجٹ میں۸.۱فیصدکااضافہ بھی
کیاگیا ہے۔فوجی اورسول ترقی کے عمل کومربوط کرنے ،دفاعی سائنس و ٹیکنالوجی
میں دورس اصلاحات کرنے،آلودگی کاخاتمہ کرنے اورساحلی مقامات پرڈمپنگ
اورفضلہ ٹھکانے لگانے پر پابندی کے فیصلے بھی کئے گئے ہیں۔
بیجنگ میں پارٹی کے سالانہ اجلاس میں چین کی نیشنل پیپلزکانگرس کی جانب سے
چین کے صدرکی شرط کے خاتمے کابھی امکان ہے۔چین نے کہا ہے کہ تائیوان نے اگر
اغیار پر بھروسہ کیاتواسے آگ کے سواکچھ نہیں ملے گا۔تائیوان کی علیحدگی
برداشت نہیں کی جائے گی۔چین کے وزیراعظم لی کی جیانگ نے ۱۳ویں قومی عوامی
کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ چین مختلف ممالک کے ساتھ معاشی تعمیرکوفروغ
دیناچاہتاہے۔انہوں نے کہاکہ چین گلوبل گورنس میں شریک رہنے اوراس کی بہتری
کیلئے کوشاں رہے گا ۔ چین کی۱۳ویں قومی عوامی کانگرس میں شرکت کیلئے ہزاروں
کی تعدادمیں چین کے گوشہ گوشہ سے قانون سازبیجنگ میں جمع ہوئے تھے جو صدرلی
جنگ ینگ کی تاحیات پارٹی قیادت اورصدارت کے پرجوش حامی تھے کیونکہ ان کو
توقع ہے کہ لی جنگ ینگ کی قیادت میں چین عالمی سپرپاوربن کررہے گا۔اسی لئے
انہوں لی جنگ ینگ کوتاحیات صدرمنتخب کرلیاہے جس کی امریکااور مغرب میں
شدیدمخالفت کی گئی ہے کہ چین میں اب مکمل طورپرڈکٹیٹرشپ قائم ہوگئی ہے لیکن
چین اوراس کے اتحادیوں کواس کی کوئی پرواہ نہیں۔
دریں اثناء شنگھائی پولیٹیکل سائنس اینڈ لڈنی لیکٹرونگ کاکہناہے کہ اس
بارچین نے اپنے فضائی بجٹ میں جواضافہ کیاہے اس میں بھی چین نے اسلحے کی
عالمی دوڑمیں مکمل شمولیت سے گریزکیاہے اورزیادہ ترسرمایہ کاری اعلیٰ
ٹیکنیکل نظاموں اور ٹریننگ پرکی گئی ہے۔اس کے باوجودامریکا،جاپان اور بھارت
سمیت چین مخالف ممالک بجٹ کے اس اعتدال پسند رحجانات سے خائف ہیں۔اس کی وجہ
یہ ہے کہ ان ممالک کوصاف نظرآرہاہے کہ چین کی فضائیہ یا بحریہ بری فوج ہویا
میزائل اوراینٹی سیٹلائٹس صلاحیتیں ان میں چین نے اب تک جوپیش رفت کی ہے،وہ
آئندہ کی منظر کشی اوراسی کے سبب ان سب پر خوف جاری ہے۔ چین کے فوجی
مبصرسونگ ژونگ ینگ کے مطابق مختلف شعبوں کے فوجی ماہرین کی صلاحیتوں
کوبڑھانے خاص طورپرکوریائی جزیرہ مانما،بھارت کے ساتھ چین کے سرحدوں،جنوبی
چین اورتائیوان کے بحران سے نمٹنے کیلئے انہیں تیارکیاجائے گا۔ |