حضرت امیر معاویہ کی ذات کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں آپ
کا شمار کئی جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے آپ حضرت علی کے بعد منصب ِ خلا
فت پر آئے اس کے ساتھ آپ کے دور میں کئی فتوحات ہوئیں اور رقبہ کے لحاظ سے
بھی آپ کے دور میں اسلام کا پرچم دور دراز تک لہرایا گیا آپ دورِ حضرت ابو
بکر صدیق ، دورِ حضرت عمر ، عثمان اور اس کے ساتھ آپ حضرت علی کے دور میں
بھی اعلیٰ منصب پر فائز رہے حضرت امیر معاویہ کے والد ابو سفیان کو از قبل
اسلام سے ہی اپنے خاندان میں امتیازی حیثیت حاصل تھی سیدنا معاویہ ان جلیل
القدر صحابہ کرام میں سے ہیں ،جنہوں نے نبی کریم ؐکے لئے کتابت وحی جیسے
عظیم الشان فرائض سر انجام دئیے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے بعد ان
کا دور حکومت تاریخ اسلام کے درخشاں زمانوں میں سے ہے جس میں اندرونی طور
پر امن اطمینان کا دور دورہ بھی تھا اور ملک سے باہر دشمنوں پر مسلمانوں کی
دھاک بھی بیٹھی ہوئی تھی آپ رضی اﷲ تعالی عنہ کے لیے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کی زبان سے کئی دفعہ دعائیں اور بشارتیں نکلیں ، آپ رضی تعالی عنہ کی
بہن حضرت سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ تعالی عنہا کو حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کی زوجہ محترمہ اور ام المومنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے آ پ نے 19 سال تک
64 لاکھ مربع میل یعنی آدھی دنیا پر حکومت کی، تاریخ اسلام کے روشن اوراق
آپ رضی اﷲ تعالی عنہ کے کردار و کارناموں اور فضائل ومناقب سے بھرے پڑے ہیں
آپ رضی اﷲ عنہ کے احسانات سے امّت مسلمہ سبکدوش نہیں ہوسکتی ٓآپ کا نام
معاویہ اور کنیت عبدالرحمن ہے ،والد کا نام ،ابوسفیان اور والدہ ہندہ ہے
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ کی ولادت باسعادت مشہور قول کے مطابق
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے پانچ سال قبل ہوئی تھی آپؓ کے والد
سرداران قریش میں سے ہیں اور فتح مکہ کے موقع پر حضور ؐنے ان کے گھر کو
دارالامن قرار دیاتھا عزت مآت خاتم الانبیاء ؐ نے ارشاد فرمایا جو ابوسفیان
کی گھر پناہ لے لیے اسے بھی امان حاصل ہے سیدنا حضرت امیر معاویہ ضی اﷲ
تعالی عنہ سروقد لحیم و شحیم رنگ گورا چہرہ کتابی آنکھیں موٹی گھنی داڑھی
وضع قطع چال ڈھال میں بظاہر شان و شوکت اور تمکنت مگر مزاج اور طبیعت میں
زہد و تواضع، فروتنی، حلم و بردباری اور چہرہ سے ذہانت و فطانت مترشح تھی
مشہور روایت کے مطابق آپؓ فتح مکہ کے موقع پر اپنے والد سیدنا حضرت
ابوسفیان کے ہمراہ اسلام لائے تھے سیدنا حضرت امیر معاویہ نے جب اپنے اسلام
قبول کرنے کا اعلان کیا تو حضورؐنے انھیں مبارکباد دی اور مرحبا
فرمایا(البدایہ والنہایہ 117/8)سیدنا حضرت امیر معاویہؓ کے فضائل ومناقب
بیان کرتے ہوے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اﷲ تعالی قیامت کے دن
معاویہ کو اس حالت میں اٹھائیں گے کہ ان پر نورِ ایمان کی چادر ہو گی ایک
موقعہ پرحضرت امیر معاویہؓ کے بارے میں میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا کہ اے اﷲ معاویہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قائم رہنے والا اور
لوگوں کے لیے ذریعہ ہدایت بناجناب حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو صحابہ
کرام میں بہت اعلی مقام حاصل تھا کبار صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین آپ فقیہ
سمجھتے جیسا کہ صحیح بخاری کتاب الفضائل میں ہے کہ ابن ابی ملیکہ نے بیان
کیا کہ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے کہا گیا کہ امیرالمؤمنین حضرت
معاویہ رضی اﷲ عنہ کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں، انہوں نے وتر کی نماز صرف
ایک رکعت پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ خود فقیہ ہیں دوسری روایت میں ہے کہ
حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں اے لوگوتم معاویہ رضی اﷲعنہ کی گورنری اور
امارت کو نا پسند مت کرو کیونکہ اگر تم نے انہیں گم کر دیا تو دیکھو گے کہ
سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے جس طرح حنظل کا پھل اپنے درخت سے
ٹو ٹ کر گر تا ہے محدثین آئمہ دین اولیاعظام نے حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲ عنہ
کی عظمت شان وشوکت کو مفصل بیان کیاہے میں صرف قارئین کرام کی نظر صحابی کا
مقام بیان کرنے پر اکتفاء کروں گا سیدنا امیرمعاویہ رضی اﷲ عنہ جلیل القدر
صحابی ہیں جیسا کہ سطورِ بالا میں عرض کیا جاچکا ہے جس شخص نے ایمان کی
حالت میں رسول اﷲ ؐ کا دیدار کیا وہ صحابی ہے اور اس پر جہنم کی آگ حرام ہے
اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں واضح کہا یہ اﷲ سے راضی اوراﷲ ان سے راضی کہیں
فرمایا یہی لوگ ہدایت پر ہیں اوریہی لوگ فلاح پانے والے ہیں کہیں فرمایا یہ
ہی لوگ جن کااﷲ تعالیٰ کے دل کا اﷲ تعالیٰ نے امتحان لیا سارے کے سارے متقی
تھے کہیں فرمایا کافروں کے لیے سخت آپس میں نرم دل ہیں کہیں انہیں حزب اﷲ
کہا صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سارے کے سارے پرہیزگار اورجنتی تھے جناب شفیق
اعظمی نے خوب کہا ہے کہ صحابہ کرام سے محبت وعقیدت کے بغیر رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم سے سچی محبت حاصل نہیں ہوسکتی اور صحابہ کرام کی پیروی کئے بغیر
آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی کا تصور محال ہے کیونکہ صحابہ کرام نے جس
انداز میں زندگی گزاری ہے وہ عین اسلام اور اتباع سنت ہے اور ان کے ایمان
کے کمال وجمال، عقیدہ کی پختگی اعمال کی صحت و اچھائی اور صلاح وتقویٰ کی
عمدگی کی سند خود رب العالمین نے ان کو عطا کی ہے اور معلم انسانیت صلی اﷲ
علیہ وسلم نے اپنے قولِ پاک سے اپنے جاں نثاروں کی تعریف وتوصیف اور ان کی
پیروی کو ہدایت وسعادت قرار دیا ہے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم بھی انسان تھے
ان سے بھی بہت سے مواقع پر بشری تقاضوں کے تحت لغزشیں ہوئی ہیں لیکن لغزشوں،
خطاؤں، گناہوں کو معاف کرنے والی ذات اﷲ کی ہے اس نے صحابہ کرام کی اضطراری،
اجتہادی خطاؤں کو صرف معاف ہی نہیں کیا بلکہ اس معافی نامہ کو قرآن کریم کی
آیات میں نازل فرماکر قیامت تک کیلئے ان نفوس قدسیہ پر تنقید و تبصرہ اور
جرح و تعدیل کا دروازہ بند کردیا اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے ایمان
کی صداقت اور اپنی پسندیدگی کی سند بھی بخشی ہے اس کے بعد بھی اگر کوئی فرد
یا جماعت صحابہ کرام پر نقد و تبصرہ کی مرتکب ہوتی ہے تواس کو علماء حق نے
نفس پرست اور گمراہ قرار دیا ہے ایسے افراد اور جماعت سے قطع تعلق ہی میں
خیر اورایمان کی حفاظت ہے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی پوری جماعت خواہ کبار
صحابہ ہوں یا صغار صحابہ عدول ہے اس پر ہمارے ائمہ سلف اور علماء خلف کا
یقین و ایمان ہے۔ قرآن کریم میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے متعلق آیات پر
ایک نظر ڈالئے پھر ان کے مقام ومرتبہ کی بلندیوں کا اندازہ لگائیے اس کے
بعد بھی اگرکسی نے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی تنقیص کی جرأت کی ہے تواس کی
بدبختی پر کفِ افسوس ملئے آج ہم مسلمانوں کو عالمگیر سطح پر مشکلات کا
سامنا ہے ہر محاذ پر ناکامی اور پسپائی ہے دشمنان اسلام متحد اوراسلام کو
مٹانے پرمتفق ہیں مسلمانوں پر طرح طرح سے الزامات اور بہتان تراشی ہورہی،
پوری دنیا میں اسلام کی شبیہ کو خراب کرنے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے میں
میڈیا سرگرم ہے یورپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی لہر چل رہی ہے ہم ایک
خطرناک اور نازک دور سے گذر رہے ہیں ان حالات میں صحابہ کرام کی مثالی
زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے ان پاکیزہ نفوس کو بھی ان حالات کا سامنا تھا
بلکہ بعض اعتبار سے آج کے حالات سے زیادہ خطرناک صورتِ حال تھی مکہ میں
ابتلاء و آزمائش کے شدید دور سے گذرتے تھے تعداد بھی کم تھی اور وسائل بھی
نہیں، حدیبیہ میں یہودیوں اور منافقوں کی فتنہ انگیزیاں اور سازشیں تھیں
مشرکین مکہ کے حملے اور یہودی قبائل سے لڑائیاں تھیں پھر دائرہ وسیع ہوا تو
قیصر روم اور کسریٰ کے خطرناک عزائم تھے ان سب حالات کا مقابلہ صحابہ کرام
نے جس حکمت عملی اور صبر واستقامت سے کیا وہی تاریخ ہم کو دہرانی پڑے گی اس
لئے ضروری ہے کہ ہم سیرتِ صحابہ کا مطالعہ کریں ان کو اپنا رہنما و مقتدا
جان کر اِس محبت وعقیدت سے ان کی پیروی کریں کہ ان کا ہر عمل اﷲ اور اس کے
رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے نزدیک پسندیدہ ہے صحابہ ہمارے لئے معیار حق اور
مشعل راہ ہیں ان کی شان میں کسی قسم کی گستاخی گوارہ نہیں ان کی عظمت شان
کی بلندیوں تک کسی کی رسائی نہیں عصر حاضر میں ان حضرات کی پیروی گذشتہ
صدیوں کے مقابلہ میں زیادہ ضروری اور اہم ہے اور کامیابی کا تصور اس کے
بغیر ممکن نہیں۔۔۔جاری ہے ۔ |