قومی ہیروز کی قدر افزائی اور ہمارے رویے

پاک فضائیہ کے عظیم ہیرو اور قابل فخر پاکستانی ٗ ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمر کے حوالے سے ایک پر تاثیر تحریر
چند دن پہلے میں پاک فضائیہ کے ایک عظیم ہیرو (جن کانام ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمر ) کی عیادت کے لیے ان کے گھر پہنچا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیاکہ بیماری اور لاغر پن کے باوجو انہوں نے پاکستانی پرچم کلر کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی ۔جس پر پاکستان زندہ باد لکھا تھا جبکہ ان کی ٹی شرٹ پر چھوٹا سا قومی پرچم بھی آویزاں تھا ٗ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بیماری کی اس حالت میں بھی انہوں نے قومی پرچم کو اپنا لباس بنانا ضروری سمجھ رکھاہے ۔ایسے ہوتے ہیں قومی ہیروز ٗ جو خود کو کسی تعریف یا داد کے محتاج نہیں سمجھتے بلکہ وطن سے محبت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا اپنا اولین فرض تصور کرتے ہیں ۔

فاروق عمرجنہیں حکومت پاکستان کی جانب سے پیشہ ورانہ شاندار خدمات کے عوض ہلال امتیاز (ملٹری) ٗ ستارہ جرات ٗ ستارہ امتیاز ( ملٹری ) ٗ ستارہ بسالت ٗ تمغہ بسالت کے اعلی ترین سول و فوجی اعزازات مل چکے ہیں ۔پاک فضائیہ کے اس عظیم ہیرو نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران نہ صرف پاک فضاؤں کا کامیابی سے دفاع کیا ٗ کئی حیرت انگیزمعرکے سرانجام دیئے ۔ بلکہ امرتسر کا وہ ریڈار جو پاک فضائیہ کی نقل و حرکت کو واچ کرنے اوراسے بھارتی فضائیہ تک پہنچانے کا فریضہ کامیابی سے انجام دے رہا تھا ٗاسے تباہ کرنے کا مشن بھی فاروق عمر نے ہی انجام دیا ۔ اسی طرح ریکی کرنے کے کتنے ہی مشکل ترین مشن ہائی کمان کی جانب سے آپ کے سپرد کیے گئے جنہیں سرانجام دیتے ہوئے آپ کے جہاز کو بھی نقصان پہنچا لیکن اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے انہوں نے یہ تمام مشن کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچائے ۔اس کے باوجود کہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں طاقت کا توازن بھارت کے حق میں تھا لیکن مشکل ترین حالات میں اپنے وجود کو منوانے کا سہرا یقینا فاروق عمر کو ہی جاتا ہے جنہوں نے اپنی تمام تر کوششوں سے پاک فضاؤں کو ممکن حد تک تحفظ فراہم کیے رکھا ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ پاک فضائیہ کے یہی وہ عظیم سپوت ہیں جنہوں نے مشکل ترین جنگ میں بھی وطن کے دفاع کا فرض پورا کیا ۔ یہی وہ عظیم فائٹر پائلٹ ہیں جن کی زندگی کا بیشتر حصہ پاک فضائیہ کے عظیم ہیرو ایم ایم عالم کی رفاقت میں گزارا ۔ جس فضائی معرکے میں ایم ایم عالم نے ایک منٹ میں پانچ بھارتی جنگی جہاز گرانے کا معرکہ سرانجام دیا تھا اس معرکے میں برسرپیکار ہونے والے دیگر پائلٹوں میں فاروق عمر بھی شامل تھے ۔ان کے کارناموں پر بات کرنے سے پہلے ان کی زندگی ایک جھلک بھی دیکھ لینی چاہیئے تاکہ قارئین کو اندازہ ہوسکے کہ جن کو قدرت قومی ہیرو کے مرتبے پر فائز کرتی ہے وہ بھی ہم جیسے ہی ہوتے ہیں لیکن فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ اﷲ تعالی کے فضل و کرم کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی محنت ٗ لگن اور وطن سے والہانہ محبت کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے ۔

اگر ہم انسانی خدمات ٗ جفاکشی اور بہادری کے ترازو پر تولیں تو پاک فضائیہ کے افسراور جوان فنی مہارت پر جلد عبور حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ جرات اوربہادری کے میدان میں بہت اعلی مقام رکھتے ہیں ۔مجھے یاد ہے جب ائیر مارشل نور خان نے ایک بین الاقوامی فضائی مقابلے میں سب سے اول انعام حاصل کیا جن کے فضائی کرتب اور مہارت کو دیکھ کر سپر طاقتوں کے پائلٹ ورطہ حیرت میں ڈوب گئے اور پوچھنے پر مجبور ہوگئے کہ یہ پائلٹ کس ملک کا ہے ۔ فضائی دنیا میں پاکستان کی یہ پہلی فاتحانہ انٹری تھی۔

یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ پاک فضائیہ میں صرف وہی لوگ شامل ہوتے ہیں جو عام انسانوں کی نسبت دس گنا زیادہ بہادر ٗ محنتی اور جفا کش ہوتے ہیں ۔ جب سردی کا موسم جوبن پر تھا اور گھر بیٹھے ہوئے بھی ہمارے دانت بج رہے تھے ٗ میں نے کوئٹہ میں تعینات ایک خاتون فلائننگ آفیسرسبا خان سے پوچھاٗ آپ جہاں تعینات ہیں وہاں تو اتنی سردی پڑتی ہے کہ چشموں کا پانی بھی جم جاتا ہے اس قدر سرد ماحول میں آپ کیسے خود کو ہر دم چست اور مستعد رکھتے ہیں کہ دشمن پاک فضاؤں کی جانب سے میلی نظر سے دیکھ بھی نہ سکے ۔ فلائنگ افیسر سبا خان نے جواب دیا ۔ جب ہم فضائیہ میں شامل ہوتے ہیں تو سردی اور گرمی کو بھول جاتے ہیں ٗ ہمیں صرف اپنے سینئر کا حکم بجالانا ہوتا ہے ۔ وادی کارگل ہو یا سیاچن ٗ وزیرستان ہو یا باجوڑ ایجنسی ۔ہم ہر جگہ اور ہر وقت جانے کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس فلائننگ آفیسر کے جذبے کو سیلوٹ کرتے ہوئے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس وقت پاک فضائیہ میں مرد پائلٹوں کے ساتھ ساتھ نصف درجن خواتین فائٹر پائلٹ بھی دفاع وطن کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ہر لمحہ تیار رہتی ہیں ۔ پاکستانی قوم کی یہ بیٹیاں جرات اور بہادر ی کے میدان اور فنی مہارت کے اعتبار سے کسی سے بھی پیچھے نہیں ہیں ۔ اس کے باوجود کہ انہیں علم ہے کہ افغانستان میں موجود امریکی اور نیٹو فضائیہ سے بھی ان کا مقابلہ ہوسکتا ہے لیکن پھر بھی ان کے پائے میں کبھی لغزش پیدا نہیں ہوتی ۔وہ ہر دم مستعداور تیار نظر آتی ہیں ۔

فاروق عمر بھی اپنے ارادوں میں اس قدر مضبوط اور توانا ہیں ۔اگر آج بھی وطن کو ان کی ضرورت پڑے تو 78 سال کی عمر میں بھی پائلٹ کی وردی پہن کر وہ دشمن پر تابڑ توڑ حملے کرنے کا جنون کی حد تک جذبہ رکھتے ہیں ۔ وہ 24 جولائی 1941ء کو فیصل آباد کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم گرائمر پبلک سکول ایبٹ آبادسے حاصل کی ۔ سنٹرل ماڈل ہائی سکول سے میٹرک کرنے کے بعد آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے ۔ دوران تعلیم ہی آپ نے آئی ایس ایس بی کا امتحان بہترین گریڈ میں پاس کرکے پاکستان ائیر فورس کا حصہ بن گئے ۔یہ غالبا 1957ء کا زمانہ تھا ۔گرایجویشن کے وقت انہوں نے بیک وقت Sword of Honor ,Best Pilot Trophy and Acdamics Trophy حاصل کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ۔ کراچی تعیناتی کے دوران رن آف کچھ کے محاذ پر اسٹار فائٹر کی حیثیت سے کئی فضائی مشن نہ صرف کامیابی سے مکمل کیے بلکہ بھارتی فضائیہ کو وہاں مداخلت سے باز رکھا ۔ سرگودھا تعیناتی کے دوران آپ کو ائیرچیف مارشل نور خان کی سرپرستی اور ایم ایم عالم کی رفاقت میں کتنے ہی جنگی مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا موقع میسر آیا ۔ 1972ء میں وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے کرنل قذافی کی درخواست پر آپ کو لیبیا ئی فضائیہ کے قیام اور لیبیائی پائلٹوں کو تربیت دینے کا فریضہ سونپا جو آپ نے نہایت خوبی سے نبھایا ۔ بعد ازاں 1973ء کی عرب ٗ اسرائیل جنگ میں شام اور مصر کی جانب سے اسرائیلی فضائیہ کے خلاف کتنے ہی معرکہ آراء مشن کی تکمیل کی ۔آپ ہی وہ ہیں جنہوں نے جے ایف 17 تھنڈر طیارے بنانے والے پروجیکٹ کے پہلے ڈائریکٹر جنرل بنے ۔پی آئی اے کی منیجنگ ڈائریکٹر اور چیئرمین کے عہدے پر بھی فائز رہے ۔ (یادرہے کہ اس وقت پی آئی اے منافع بخش ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی بہترین فضائی کمپنیوں میں اس کا شمار ہوتا تھا ) آپ شاہین ائیر لائن کے بانی چیف ایگزیکٹو بھی فائزرہے ۔ جب آپ کو پاکستان ہاکی فیڈریشن کا سربراہ بنایا گیا تو قومی ہاکی ٹیم نے چیمپیئن ٹرافی اور آسٹریلیا میں ہونے والا ورلڈ کپ بھی جیتا ۔گویا آپ نے اپنی ولولہ انگیز قیادت میں ہاکی ٹیم کو زیرو سے ہیرو بنادیا ۔یہ سب کچھ بتانے کامقصد یہ ہے کہ آج جب میں اس عظیم قومی ہیرو کے گھر پہنچا تو وہ نہایت کمزور اور تنہائی کا شکار دکھائی دیئے ۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ تھی کہ اس گھر میں ایک عظیم قومی ہیرو رہائش پذیر ہے جس نے اپنی ساری زندگی وطن کے دفاع اور قوم کی فلاح کے لیے وقف کردی ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ایم ایم عالم جیسے قومی ہیرو بھی نہایت بے بسی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ مرنے کے بعد میانوالی ہوائی اڈے کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا۔ زندگی میں وہ بھی نرسوں اور ڈاکٹروں کے سپرد رہے اور قوم خواب غفلت کے مزے لوٹتی رہی ۔ لبرٹی چوک میں پھول رکھنے اور موم بتیاں جلانے والی سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو کبھی اپنے ہیرو ز کویاد کرنے کی توفیق نہیں ہوئی جن کی و جہ سے وہ اس آزاد و خود مختار ملک پاکستان میں سانس لے رہے ہیں ۔ مزہ تو تب ہے کہ ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمرکے گھر کے باہر روزانہ تازہ پھولوں کے انبار لگے ہوتے ۔جن کے تحفظ کے لیے انہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ صرف کیا تھا۔ خدانخواستہ کیا ہم ان کے مرنے کا انتظار کررہے ہیں ۔وہ اپنا بہترین نالج ٗ تجربات اور مشاہدات کو نوجوان نسل سے شیئر کرنا چاہتے ہیں لیکن کسی ٹی وی چینلز ٗ یونیورسٹی اور تعلیمی ادارے کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ اس عظیم ہیرو کوبطور مہمان خصوصی بلائے اورنوجوان نسل کو قومی ہیروز کے مشاہدات سننانے اور دکھانے کی سہولت فراہم کرے ۔ پاک بھارت جنگوں میں وطن کا دفاع کرنے والے عظیم ہیرو (فاروق عمر) اس وقت جبکہ بڑھاپے اور بیماریوں سے اکیلے جنگ کررہے ہیں پاکستانی قوم کی نیک تمنائیں اور محبتیں انہی جینے کا نیا حوصلہ تو دے سکتی ہیں۔

میں یہاں ایک قابل تقلید واقعے کا ذکرکرنا ضروری سمجھتاہوں جو حب الوطنی اور محافظ وطن کی عزت و تکریم کے حوالے سے بہت انمول ہے ۔ اس واقعے کے راوی پاکستان کے ممتاز ادیب و مصنف اور بیوروکریٹ ڈاکٹر صفدر محمود ہیں ۔وہ اس واقعے کا ذکر کچھ اس انداز سے کرتے ہیں ۔"میں ایک کورس میں شرکت کی غرض سے جرمنی میں مقیم تھا ٗ وہاں ایک مرتبہ ٹرین پر سفر کرنا پڑا ۔ جرمن قوم قانون پسندی اور قانون کی عمل داری میں دنیا بھر میں مشہورہے ۔وہاں چانسلر ( جو جرمنی کا سربراہ کہلاتا ہے ) کے لیے بھی قانون کو توڑا نہیں جاسکتا ۔مجھے اس وقت حیرانی ہوئی جب ٹرین ایک ویران جگہ پر رک گئی ۔ میں نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا تو دور دور تک اسٹیشن دکھائی نہ دیا بلکہ کچھ فاصلے پر ایک بزرگ شخص (جس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی ) لنگڑاتا ہوا ٹرین کی جانب آتا دکھائی دیا ۔ ٹرین میں سوار ہر شخص اسے عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا ۔حسن اتفاق سے وہ بزرگ اسی ڈبے میں سوار ہونے کی کوشش کرنے لگا جس ڈبے میں موجود تھا ۔ پہلے تو اس انجانے بزرگ کو ٹرین پر سوار کرنے کے لیے چندنوجوانوں نے سہارا دیا پھر جب وہ سوار ہوگئے تو تمام لوگ اپنی اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر اسے بیٹھنے کی پیشکش کرنے لگے ۔ یہ سب کچھ دیکھ کرمجھے مزید حیرت ہوئی ۔ میں نے ایک جرمن مسافر سے پوچھا۔ کیا یہ عمر رسیدہ شخص جرمن چانسلر کا رشتے دار ہے۔ جن کی اس قدر عزت افزائی ہورہی ہے ؟ جرمن شہری نے جواب دیا ۔ایسی بات نہیں ہے ۔ آپ نے اس شخص کے سینے پر تمغہ لگا ہوا نہیں دیکھا ۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم میں جرمن قوم کے دفاع کی جنگ لڑی تھی۔جنگ لڑتے ہوئے ایک گولی ان کی ٹانگ پر لگی تھی جس پر جرمن حکومت نے انہیں تمغے سے نوازا تھا ۔ یہ عزت افزائی اس تمغے کی وجہ سے ہے۔ یہ ہماری قوم کا ہیرو ہے یہ جہاں بھی جائے گا اس کو عزت و احترام ملے گا ۔ جرمنی میں چانسلر کے لیے قانون نہیں توڑسکتا لیکن قومی ہیروز کے لیے قانون میں لچک پیدا کی جاسکتی ہے ۔ یہی جرمن قوم کی کامیابی کا راز ہے ۔ ڈاکٹر صفدر محمود اس جرمن کی گفتگو سن کر حیران و ششدر رہ گئے کہ ہمارے ہاں تو ہر گاؤں اور محلے میں شہیدوں کے لواحقین اور پسماندگان رہتے ہیں لیکن نہ حکومت شہیدوں کے وارثین کو عزت دیتی ہے اور نہ ہی غازیوں کو معاشرہ اپنے سر پر بٹھاتا ہے ۔یہ کم ظرفی نہیں تو اور کیا ہے ۔

ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمر کو پاک فضائیہ میں دوران ملازمت بہترین خدمات پر ہلال امتیاز (ملٹری )ٗ ستارہ جرات ٗ ستارہ امتیاز (ملٹری ) ستارہ بسالت اور تمغہ بسالت ٗ حکومت پاکستان کی جانب سے عطا کیے گئے ۔یہ اعزازات ان کی ملازمت اور بہترین خدمات کا عکاس ہیں ۔وہ ایک واقعے کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں -;

انہوں نے ملاقات کے دوران ایک اہم مشن کا بطور خاص تذکرہ کیا ۔ وہ بتارہے تھے کہ جب میں فائٹر پائلٹ تھا تو ایک صبح ہائی کمان کی جانب سے حکم ملا کہ آدم پور اور ہلواڑہ کے ائیر بیس کی تصویریں بنائی جائیں تاکہ دشمن کی طاقت کا اندازہ کرکے جوابی حکمت عملی تیار کی جائے ۔ یہ مشن ایمبوسیبل میرے سپرد کیا گیا ۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہمارے پاس اس وقت قدرے پرانے جہاز ( R.T-33) تھے جن کو بھارت کے اندر دور تک بھیجنا خود اپنے پاؤں پر کہلاڑی مارنے کے مترادف تھا ۔ چنانچہ ایف 104 یعنی دو نشستوں والے جہاز پر میں اور اسکوارڈن لیڈر مڈل کوٹ اور فلائٹ لیفٹیننٹ آفتاب عالم دستی کیمرے لے کر مشن پر روانہ ہوئے ۔ جب ہم نیچی پرواز کرتے ہوئے آدم پور پہنچے اگر ہم جہاز کو سیدھا اڑاتا توصحیح معنوں میں منظر کشی نہ ہوسکتی چنانچہ خطرات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہم نے اپنے جہاز کو پہلے الٹا کیا پھر بھارتی فضائیہ کے حملے کو بھول کر اپنا مشن مکمل کرنے کے لیے پورے شہر پرالٹی پوزیشن میں فلائی کیا ۔ تاکہ جہاز میں نصب کیمرے بھارتی ہوائی اڈے کی تصویریں صحیح اور باآسانی لے سکیں ۔ اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ بھارتی فضائیہ کو بھارتی فضاؤں میں ہماری موجودگی کی خبرکے باوجود انہیں حملہ آور ہونے کی ہمت نہیں پڑی ۔اس طرح ہم نے ایک ناممکن اور مشکل ترین مشن کو پاکستانی قوم کے تحفظ اور وطن کے دفاع کے لیے مکمل کرلیا ۔ جب یہ مشن مکمل ہوا تو اگلے دن یہی حکمت ہم نے عملی ہلواڑہ ائیر بیس کے اوپر بھی دہرائی گئی جو نہایت کامیاب ٹھہری ۔ اس مشن کی کامیابی پر ہائی کمان کی جانب سے ہمیں تحسین بھرے الفاظ اور کلمات سے نوازاگیا ۔

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے مجھے علم ہوا کہ وہ ائیر فورس کے ہسپتال میں فزیوتھراپی وارڈ میں ایڈمٹ ہیں ان سے اجازت لے کر جب میں وہاں پہنچا تو سوائے فزیوتھراپسٹ اور فاروق عمر صاحب کے ٗ اور کوئی وہاں ان کی دلجوئی کرنے اور حوصلہ بڑھانے کے لیے موجود نہیں تھا ۔ بے شک وہ ہمت اور حوصلے کے پہاڑ دکھائی دیئے پھر انسان ہونے کے ناطے ٗیہ سوچ یقینا ان کے ذہن میں ابھرتی ہوگی کہ کیا مجھ سے کوئی بھی محبت کرنے والا نہیں ہے ٗ کسی کی آنکھ بھی میرے لیے نم نہیں ہوتی ٗ کسی کے دل میں بھی میرے لیے ہمدردی کے جذبات نہیں ابھرتے ٗ کسی کے پاس بھی وقت نہیں کہ وہ میری حوصلہ افزائی کے لیے اپنے وقت میں سے چندلمحات نکال سکے ۔ 22 کروڑ پاکستانی اپنے ہیرو کے حالات سے اس قدر بے خبر کیوں ہوچکے ہیں ۔؟

ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمر کا سینہ پے درپے فضائی مشنوں اور اپنی کامیابیوں کی داستانوں سے بے حد لبریز نظر آیا وہ ہم سے اپنے دل میں چھپی ہوئی ہر بات کہہ دینا چاہتے تھے لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے ہم نے معذرت کی اور باقی واقعات کو سننے اور ریکارڈ کرنے کے لیے اگلی نشست کا پروگرام بنایا ۔ لیکن ایک بات ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی قوم کے جو ہیروز دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اﷲ تعالی ان کے درجات میں اضافہ فرمائے لیکن جو ہیروز ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں پاکستانی الیکٹرونک اور پیپر میڈیا ان کو اپنے پروگراموں میں تسلسل سے بلوا کر ان کی عزت افزائی کرے اور ان کے سینے میں دفن ہر راز کو کاغذ قرطاس پر منتقل کرکے آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا فریضہ اشاعتی ادارے اور یونیورسٹیوں کے تحقیقی اداروں کو نبھانا ہوگا ۔ ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمر بلاشبہ پاکستانی قوم کے ہیرو ہیں اور انکی زندگی کے ہر ہر لمحے کو قوم کی امانت تصور کرکے محفوظ کیا جانا بہت ضروری ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ پاکستانی میڈیا ان بد بخت سیاسی عناصر کی ہر بیہودہ بات کو اپنے ٹی وی چینلز پر نشر کرنا بہت ضروری خیال کرتے اور بھارتی فلموں اور فلمی ہیروز کی زندگی کی کسی ایک جھلک کو بھی دکھانا نہیں بھولتے لیکن جس وطن سے اس مفاد پرست میڈیاکو پیٹ بھرنے کے لیے روٹی اور تحفظ ملتا ہے اس وطن کے محافظوں کو دانستہ بلیک آوٹ کرنا اور انہیں بے بسی کے عالم میں دنیا سے رخصت ہونے پر مجبور کرنا میری نظر میں ایک قومی جرم ہے اور یہ جرم ہمارا میڈیا خوب کررہا ہے ۔ کسی نے سچ کہاہے کہ وہ قومیں کبھی زندہ نہیں رہتی جو اپنے ہیروز کو ان کی زندگی میں ہی فراموش کردیتی ہے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784782 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.