ایک چھوٹا سا راستہ بڑی شاہرا میں یوں تبدیل نہیں ہو جاتا
، خالی میدان پر آسمان کو چھوتی عمارت ایک رات میں تعمیر نہیں ہو جاتی ،
دریا کا رخ ایک دن میں نہیں موڑا جاسکتا ، ان سب کو بنانے اور پایا تکمیل
تک پہچانے میں ایک نہیں کئی محنت کشوں کا خون پسینہ شامل ہوتا ہے۔ تب جا کر
ایک شاہرا تیار ہوتی ہے جس پر کوئی بابو اپنی قیمتی گاڑی پروٹوکول کے لشکر
کے ساتھ دوڑتا ہوا سب کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے ، کئی منزلہ عمارت تعمیر کرنے
والے مزدور جب کام مکمل کرتے ہیں تو کوئی پیسے والا سیٹھ آ کر ساری عمارت
ایک پل میں خرید کر اس میں بادشاہوں کی طرح رہنا شروع کر دیتا ہے ، ایسے ہی
دریا کا رخ موڑنے والے کارکن جن میں سے اکثر اس ظالم دریا کی موجوں میں گر
جاتے ہیں اور جن کی لاش تک برآمد نہیں ہوتی ، پر جب دریا رخ مڑ جاتا ہے تو
پھر کوئی بڑا زمیندار آ کر اس سارے پانی پر قبضہ کر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ
یہ سب میرا ہے اور تم سب اس سے چلو چلو پانی پی سکتے ہو۔ اور وہ مجبوری سے
یا کسی مصلحت کے تحت اس کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں اور اس دو گھونٹ پانی
کے لیے تالیاں بجاتے ہیں ڈھول پیٹتے ہیں اور اس کے لیے زندہ باد کے نعرے
لگاتے ہیں کہ کتنا بڑا کام کردیا جناب عالی نے ، کیا سٹرک اور عمارت بنوائی
ہے اور کیسے دریا کا رخ موڑا ہے، پر ہم یاد نہیں کرتے ہیں تو ان گمنام
ہیروز کو جو ان سب شاہکاروں میں اپنا خون شامل کر گئے، ایسا کیوں ؟ کیونکہ
وہ ہماری نظر میں عام اور غریب لوگ ہوتے ہیں جو ہمیں پیسہ نہیں نظریہ دے کر
جاتے ہیں
گزشتہ دن ہونے والی سیاسی ہل چل کو دیکھا جائے تو اور اوپر بیان کی گئی
صورت حال میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے ، جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایم
این ایز اور ایم پی ایز نے اسمبلی نشستوں سے اپنے آپ کو الگ کر کے حکمران
جماعت سے علیحدہ ہوکر نئے صوبے کا محاذ کھڑا کر دیا، ان کی پریس کانفرنس
میں ون پوائنٹ ایجنڈ شامل تھا جو کہ صوبہ کے حصول کے لیے تھا۔ اس پریس
کانفرنس میں صرف اکیلے صوبے کا نعرہ بلند کیا گیا لیکن اس میں یہ نہیں
بتایا گیا ،کہ آپ جو صوبہ آپ چاہتے ہیں اس کا حدود اربا کیا ہوگا ، اور یہ
کہاں سے شروع ہوگا کہا پر ختم ہوگا۔ سرائیکی وسیب کے لیے یہاں کے سیاست
دانوں کا صوبے بنانے کا محاذ شروع کرنا اچھی اور خوش آئین بات ہے ، پر اس
محاذ کی پہلی کانفرنس میں صوبے کی تحریک چلانے والے وہ لوگ بھی شامل ہوتے
جو اپنی پوری زندگی اس تحریک کے نام کر چکے ہیں۔ پریس کانفرنس میں ان کو
ساتھ بیٹھانا تو دور کی بات پیچھے لگے پینافلکس پر بھی ان میں سے کسی ہیرو
کی تصویر شامل نہ کی گئی۔ سرائیکی وسیب کے یہ ہیروز 1970 سے سرائیکی صوبے
کا محاذ چلا رہے ہیں، ان ہیروز نے مسلسل اس محاذ کو اپنی شاعری اور تحریروں
میں ہمیشہ زندہ رکھا اور خطے کے مسائل و محرومیوں کو بہتر انداز میں اجاگر
کرتے رہے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے انہی سیاست دانوں نے صوبے کے
مطالبے کو موثر انداز میں نہ تو اسمبلی فلور پر اٹھایا اور نہ ہی کسی اور
فورم پر ، اگر کبھی الگ صوبے کا نعرہ لگا بھی ہے تو صرف الیکشن سے قبل جیسے
کہ اب یہ محاذ شروع کیا گیا ہے جس کی دیکھا دیکھی میں اور جماعتیں بھی شامل
ہورہی ہیں۔
اسی خطے سے تعلق رکھنے ایک سابق وفاقی وزیر دفاع نے ایک مرتبہ سرائیکی صوبہ
کے لیے 14 اگست 2009 کی ڈیڈ لائین دی تھی کہ اگر سرائیکی صوبہ نہ بنا تو وہ
وزارت چھوڑ دیں گے ، لیکن تاریخ گزر گئی اور وہ اپنی وزارت پر ویسے ہی
براجمان رہے ، ایسے ہی ملتان بزرگ سیاست دان جو اپنے آپ باغی کہتے ہیں نے
بھی کہا تھا کہ وہ سرائیکی صوبہ کے لیے تامرگ بھوک ہڑتال کرنا پڑی تو کریں
گے تب وہ ن لیگ کا حصہ تھے۔ ایسے ہی وسیب کے دوسرے سیاست دانوں نے بیانات
دیے پر ان کو پایا تکمیل تک نہ پہچایا۔ ایسے ہی سابقہ آصف علی زرداری نے
اپنے دور صدارت میں سرائیکی بنک بنانے کا اعلان کیا لیکن اس کی ایک اینٹ
بھی نہ رکھی گئی۔ اب موجودہ محاذ چلانے والوں کو دیکھ جائے تو یہ حضرات بھی
مسلسل 70 سال سے کسی نہ کسی طرح اقتدار کے ایونوں میں موجود ہیں اور یہ لوگ
بڑے بڑے عہدے حاصل کرنے کے باوجود اس خطے کے لیے کوئی خاطر خواہ ترقیاتی
منصوبے نہ لا سکے۔
جنوبی پنجاب کا یہ خطہ جس کی محرومیوں کی بات یہ لوگ اب کر رہے ہیں۔ جب
ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے کاشت کار 370 کلومیٹر پیدل مارچ کر لاہور سے
پینے کا پانی مانگنے گئے تھے ، یہ لوگ تب بھی خاموش رہے جب راجن پور میں
انٹرنیشنل طرز کی یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کے باوجود تعمیر نہ ہو سکی
جسے اسلام آباد چپکے سے شفٹ کر دیا گیا۔ تب بھی خاموش رہے ۔اب پانچ سال اس
جمہوری حکومت کے اور پانچ سال سابقہ جمہوری حکومت اور ایک دہائی پرویز مشرف
کے اقتدار کی ان سب ادوار میں اسی خطے کے سیاست دان اعلی عہدوں پر فائز
رہنے کے باوجود کچھ نہ کر سکے۔ جب سانحہ احمد پور شرقیہ رونما ہوا تو جنوبی
پنجاب میں صحت و دیگر اور سہولیات کے حوالے باعث شروع ہوئی، اور خطے کی
محرومیوں کا اعتراف حکمراں جماعت نے بھی خود کیا تھا کہ اس خطے کے لیے ہم
کچھ نہیں کر سکے۔ تب محرومیوں کی یہ باعث اس وقت عروج پر تھی سارا میڈیا اس
پر خطے کی محرومیوں کی بات کر رہا تھا، اور تب یہاں کے سیاست دانوں نے
محرومیوں اور الگ صوبے کی کیوں بات نہیں کی ، اس وقت بات کرنے کا موقع بھی
تھا اور اسمبلیوں کی مدت بھی کافی رہتی تھی، تب بہت کچھ ہونا ممکن تھا۔
نااہلی کے فیصلے کے بعد پارٹی صدرات کے لیے بل کی منظوری پر ووٹنگ دوسرا
موقع تھا تب بھی یہ محاذ کھڑا کیا جاتا تو اب تک بہت کچھ ہو چکا ہوتا۔
الگ صوبہ ایک دن میں بھی نہیں بن جانا اس پر بہت وقت لگنا ہے ، پہلے تو
پنجاب کو دو انتظامی یونٹ میں تقسیم ہونا ہے جس کے لیے سول سیکرٹریٹ کی
تعمیر اور دیگر اموار سرانجام دینے باقی ہیں ، یہ تو اتنا نہ کر سکے کہ
موجودہ اور گزشتہ دونوں جمہوری حکومتوں میں انتظامی یونٹ کے سیکرٹریٹ کا
بجٹ بھی منظور کروا لیتے۔ جس کا ہر سال وعدہ تو کیا جاتا ہے پر عملی طور پر
اسے پایا تکمیل تک نہیں پہنچایا جاتا ہے۔ موجودہ شروع ہونے والا صوبے کا
محاذ جس میں جنوبی پنجاب کی بات کی گئی ہے سرائیکی صوبے کا محاذ چلانے
والوں کو اس پر اعتراض ہے کہ جیسے سرحد کو خیبر پختونخواہ کا نام دے کر
انہیں شناختی دی گئی ایسے ہی سرائیکی صوبہ بھی خطے کے لوگ کی شناخت ہو گا ،
نام کے حوالے سے ایک اور بھی خدشہ یہ ہے کہ جب لفظ جنوبی پنجاب استعمال ہو
گا تو اس میں پنجاب کے جنوبی اضلاع شامل ہوں گے جو کہ تین ڈویڑن پر مشتمل
ہوگا اس میں بکھر ، میانوالی ، جھنگ، لیہ کا کچھ علاقہ اور ڈیرہ اسماعیل
خان شامل نہیں ہوگا، اور خطے کا پانی جیسے اہم وسائل تو اس کے حصے میں آئیں
گے ہی نہیں ،اور جنوبی پنجاب کو آبپاشی کے لیے مسلسل پانی کی کمی کا سامنا
رہے گا۔ اور جس وجہ یہاں کی پیدوار متاثر ہورہی ہے
آج کل تجزیہ کار یہ قیاس کر رہے ہیں کہ صوبے کے لیے شروع ہونے والے اس محاذ
میں آنے والے کچھ دونوں تک مزید جنوبی پنجاب کے سیاست دان شامل ہو جائیں
گے، اور آئندہ الیکشن کسی پارٹی کے ساتھ لڑنے کی بجائے اسی محاذ کے جھنڈے
تلے سب جمع ہو کر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے، اور آئندہ الیکشن میں کسی
جماعت میں شامل ہو کر حکومت بنا کر اقتدار میں شامل ہو جائیں گے۔ لیکن یہ
بات اپنی جگہ رہے گئی پر یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کے نئے صوبے کے محاذ
کھڑا کرنے کی وجہ سے عوام میں علیحدہ صوبے کی باعث زور پکڑ چکی ہے، اور ہر
طرف اس پر باعث مباحثے شروع ہوچکے ہیں سوشل میڈیا پر بھی کافی گرماگرم
مباحثے جاری ہیں جو کہ ایک اچھی شروعات ہے ، لوگ کھل کر سیاست دانوں کے
حوالے سے بات کر رہے ہیں ، اپنی رائے کے اظہار اور اپنی محرمیوں کا تذکرہ
بھی کر رہے ہیں۔ اب صوبے کے معاملے پر سیاست دان سیاست کرتے بھی رہیں تو یہ
عوامی مطالبہ زور پکڑ چکا ہے ، اس علاوہ کسی کو صوبے نام پر اعتراض ہے یا
کوئی اور خدشات ہیں تو سب مل کر اس مسئلے پر غور فکرکریں اور ایک دوسرے کو
ساتھ لے کر چلیں تو اس مسئلے کا حل جلد اتفاق رائے ہو جائیگا جبکہ کسی ایک
گروپ کو یہ کریڈٹ حاصل نہیں کرنا چاہیے کہ اس محاذ پر وہ اکیلے لڑ رہے تھے
نہیں تو بعد میں کہا جائے گا کہ عمارت کی تعمیر میں مزدورں نے خون پسینہ
اور جان لگائی اور پیسے والے سیٹھ نے آ کر اسے ایک پل میں خرید لیا |