جموں وکشمیر کا مسلہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے کا سب سے
پرانا حل طلب مسلہ ہے ،جس کے حل کے لیے کھبی بھی عالمی برداری کی طرف سے
سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئی ،یہی وجہ ہے کہ یہ تنازعہ70سال گزرنے کا باوجود
بھی اپنے منطقی انجام تک پہنچنے سے قاصر ہے ،اس خطے کا برٹش امپائر نے جان
بوجھ کے فیصلہ نہیں کیا تاکہ فیوچر میں وہ اس کے اثرات سے فائدہ اٹھا
سکیں،دراصل اس علاقے کو 1846کو انگریز حکمرانوں نے سکھوں کو شکست دے کر
75لاکھ کے عواض مہارجہ گلاب سنگھ ڈوگر کو بیچ دیا وہ کشمیر کا حکمران بن
گیا جس کے انتقال کے بعد رنبیر، پرتا پ اور ہری سنگھ نے ایک دوسرے کے بعد
اس پر حکمرانی کی کمان سنبھالی ،1947کو جب متحدہ ہندوستان کے بٹوارے کا
فیصلہ ہوا تو بدقسمتی سے جموں وکشمیر کا فیصلہ نہ ہو سکا ،کشمیر کا مہارجہ
چونکہ ایک ہندو مذہب سے تعلق رکھتا تھا اور ریاست میں اکثریت مسلمانوں کی
تھی ،جوکہ پاکستان سے الحاق چاہتی تھی لیکن مہارجہ نے مسلمانوں کی خواہشات
کی برعکس ہندوستان کے ساتھ الحاق کی نام نہاد ستاویزات پر دستحط کردئیے جس
کو کشمیریوں نے ماننے سے انکار کر دیا ،اور مسلح جہدوجہدشروع کردی ،مہارجہ
نے عوامی جہدوجہد کو روکنے کے لیے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا اور بہت سے
مصوم لوگوں کو ابدی نیند سلایا تاکہ وہ اپنے جائز حق کی آواز سے دستبردار
ہوجائیں لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا اور میں سلام پیش کرتا ہو ں کشمیر کے
بہادر سپتوں کو جو 70 سالوں سے ظلم کے خلاف شیشہ پالائی دیوار ثابت ہوئے
ہیں اور کشمیر کے مسلے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں یہ جس پارٹ کو آج ہم آزاد
کشمیر کے نام سے جانتے ہیں یہ انہی کشمیریوں کی قربانیوں کا نتیجہ تھا ،ہزاروں
کی تعدا د میں پاکستانی قبائلیوں پشتونوں اورمقامی افراد نے مہارجہ کی
بربریت کیخلاف حق کا علم بلند کیا ،جس کے نتیجے میں آزاد ریاست کشمیر تحلیق
ہوا تیزی سے مجاہدین کشمیر پیش رفت رہے تھے تو مہارجہ نے 22اکتوبر7 194کو
بھارت سے مددطلب کرلی،بھارت نے 27اکتوبر 1947کو مقبوضہ کشمیر میں اپنی
افواج اتار دی جس کے بعد بھارت پاکستان کے درمیان پہلی جنگ شروع ہوئی ،چونکہ
اس جنگ میں پاکستان کے نیم فوجی دستوں کو اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ساتھ
مجاہدین پشتون کی بھی مدد حاصل تھی اور پاکستانی فوج سری نگر کے قریب پہنچ
گئی اپنی یقینی شکست کو دیکھتے ہوئے مکار ہندو نے اپنی مکاری کا استعمال
کیا اور جنوری 1948یہ معاملہ اقوام متحدہ لے گیا اور بھارت کے وزیر اعظم
پنڈت جواہر لال نہرو نے بین الاقوامی ادارے میں ساری دینا کے سامنے وعدہ
کیا کہ وہ جموں کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کی مرضی سے کرے گا ،پاکستان
چونکہ عالمی قوانین کے پاسداری کرنے والی ملک ہے ،اقوام متحدہ کی مدا خلت
کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی عمل میں لائی گئی اور سیزفائر
لائن کھنچ دی گئی جسکو ہم کنٹرول لائن کے نام سے جانتے ہیں ،اقوام متحدہ نے
دونوں ممالک سے اپنی افواج نکالنے کو کہا تاکہ اقوام متحدہ کی نگرانی
استصواب رائے کا بندوبست کیا جائے لیکن بھارت نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا
،جواب میں پاکستان نے بھی جواز پیش کیا کہ بھارت اگر افواج نہیں نکالے گا
تو پاکستان بھی یک طرفہ طور پر اپنی افواج آزاد کشمیر سے نہیں نکا لے گا ،آج
تک اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل کروانے میں کامیاب نہیں ہو سکا جو کہ
عالمی ادارے کی مسلسل ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے یہ مسلہ دونوں ممالک کے
درمیان تین جنگوں کی وجہ بن چکا ہے جس میں ہزاروں انسان لقمہ اجل بن چکے
ہیں اگر صرف کشمیر کی بات کی جائے تو بھارت کی قابض فوج کے ہاتھوں ایک لاکھ
سے زائد کشمیری بھارتی درندگی کا نشانہ بن چکے ہیں ،ہزاروں مائیں اپنے لحت
جگروں سے جد ا ہوچکی ہیں ہزاروں بہنیں اپنے بھائیوں سے محروم ہو چکی ہیں لا
تعداد بچے یتیم ہو چکے ،ان گنت خواتین اپنے سوہاگ کھو چکی ہیں ،ہزاروں
کشمیری گمنام دینا میں جا چکے ،یعنی لاپتہ ہوچکے جن پر نہ کوئی مقدمہ نہ
جرم اور نہ عدالت کی سہولت پہلے لا پتہ پھر شہید کر کے آخری رسومات کے بغیر
ہی اجتماعی قبروں میں دفنا بھارتی ایجنسیوں کا وطیرہ بن چکاعالمی برداری نے
بھارت کوکھولی چھٹی دے رکھی ہے عالمی برداری خصوصا امریکہ نے چپ کا روزہ
رکھا ہوا ہے کیونکہ بھارت امریکی دفاعی منڈی کا سب سے بڑا شراکت دار ہے اور
سب سے زیادہ اسلحہ امریکہ سے خریدتا ہے اس لیے امریکہ کیوں اپنے بزنس میں
راخنا ڈالے ،اور سونے پہ سہاگہ یہ ہے جیسا مودی ویسا ٹرمپ ،دونوں کی
مسلمانوں کے حوالے شہرت سے سب اگاہ ہیں ،عرب دنیا ویسے ہی عیاش پراست ہے
اسکے بھی بھارت کے ساتھ گہرے تجارتی روابط ہیں سعوی عرب ،ایران،متحدہ عرب
امارات کی بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں اتنی گہری ہیں کہ کشمیر میں ہونے
والی مودی کی دہشت گردی کو نظر انداز کر کے عربوں ڈالر کے تجارتی معاہدے کو
ترجیع دیتے ہیں ایران کا چاہ بہار بندرگا ہ کو بھارت کے کنٹرول میں دینا سب
سے بڑی مثال ہے کہ مسلم ممالک کی بے حسی اپنی انتہاہ کو پہنچ چکی ہے ایسے
میں یہ توقع کرنا بھارت کشمیریوں کے خون کی خولی کھیلنابند کر دے گا تو
ایسا سوچنا احمقو ں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ،اگر چہ مقبوضہ کشمیر میں
پہلے دن سے ہی تحریک آزادی جاری و ساری ہے لیکن اس میں شدت نوجوان برہان
وانی کی شہادت سے آئی ہے آج مقبوضہ کشمیر میں مودی روزانہ کی بنیاد
پرکشمیریوں کا خون جوس رہا ہے لیکن آزادی کی تحریک ختم کرنا تو درکنار
کشمیر کی دیواروں سے بھی نہیں مٹا سکا ،کشمیر کی گلی گلی قربہ قربہ
ہندوستان کے خلاف نعروں سے بھر پڑا ہے پاکستان اپنی طرف سے جو کر سکتا ہے
وہ کرر ہا ہے بھارت کی درندگی کے خلاف آواز ہر فورم پہ اٹھا رہا ہے اور
بھارت جو کہ جمہوریت کا لبادھہ اوڑھے ہو ئے ہے اسکو دنیا کے سامنے بے نقاب
کر رہا ہے لیکن بھارت اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہا الٹا وہ کنٹرول لائن
پر رہنے والے اس پار کشمیریوں پر بھی گولہ باری کر کے قیامت ڈھا رہا ہے اور
پاکستان کے دریاؤں کے رخ موڑ رہا ہے ،اس وقت جس انداز سے روزانہ کی بنیا د
پر بھارت آزادی کے متوالوں پر گولیاں برسا رہا ہے اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے
بھارت خود ہی منصف ،وکیل ،اورجلاد کا کردار نبھا رہا ہے آج کشمیرکا ہر بچہ
، نوجوان، طلبہ، طالبات ،بزرگ ، مرد ، خواتین ،سب ہی ہم آواز نظر آ رہے ہیں
اور بھارت جس تیز ی سے وحشیانہ مظالم برسا رہا ہے اسے اندا ز میں تحریک
آزادی کشمیر میں ولولہ پیدا ہو رہا ہے ایک اطلاع کے مطابق بھارت کشمیر میں
اسرائیلی کیمیکل ہتھیار وں کا بھی بے دریغ استعمال کر رہا ہے بدنام زمانہ
پیلٹ گنز پہلے ہی نہتے مصوم لوگوں کی بینائی چھین رہی تھی رہی کسر اب
اسرائیل درآمدشدہ کیمیکل ہتھیار وں نے پوری کردی ہے ،لیکن عالمی ضمیر ابدی
نیند سوئے ہوئے ہیں انسانیات ختم ہو چکی ہے ،پاکستان کو چاہیے کہ اس معاملے
میں مذمتوں سے باہر نکل کے کوئی قابل عمل حکمت عملی ترتیب دے جس سے بھارت
پر پریشر بڑے اور کشمیریوں کو ریلیف مل سکے ۔اپنی رائے |