حق و سچ کی تلاش میں سرگرداں کالم نگار معاشرے کا ایک غیر
جانبدار اور دوراندیش فرد ہے، اِس کی زبان تو کڑوی ضرور ہوتی ہے اور اِس کے
قلم سے نکلنے والے الفاظ کسی کے لئے زہر ہوں تو ہوں مگر وہ معاشرے کا سب سے
ہمدرد اور نڈرو بیباک سپاہی ہے اپنے قلم کے نشتر سے اِس کا کام صرف بال کی
کھال نکلناہی نہیں ہوتا ہے بلکہ اپنے اِس عمل کی لاکھ مخالفتوں کے باوجود
بھی اِس کا کام اپنی مثبت سوچ وفکر اور تفکر سے معاشرے کے افراد میں ایک
مثبت اور تعمیری راہ کو ہموار کرنا بھی اِس کے اولین فرائض اور دینی اور
اخلاقی ذمہ داریوں میں آتاہے مگر اِس کے لئے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ معاشرے
کا ہر فرد اپنے قول وفعل اور اپنی گفتارو کردار میں شفافیت لائے اگر کوئی
شخص اداروں کے فیصلوں کے باوجود واقعی خودبھی ایسا نہیں ہے جیسا کہ معاشرہ
اُسے دیکھنا چاہتاہے یا چاہتاتھا تو پھر کو ئی یہ توقع ہر گزنہ رکھے کہ کو
ئی کالم نگار اُسے کسی اچھے سے فریم میں اچھا سا بنا کرنکھارکر پیش کرے گا
کالم نگار یا کالم نویس کسی بھی شخص کا وہی چہرہ اپنی تحریر میں رقم کرتاہے
جیسا کہ وہ سا منے والے کو دیکھ کر سُن کر اور پڑھ محسوس کرتاہے اَب اِس پر
کو ئی یہ کہے کہ فلاں فلاں کا لم نویسی ،اخبار نویسی اور یا کسی اینکر پرسن
کا کام تو بس مسلسل میرے یا کسی کے خلاف لکھنا اور ٹی وی پر بولنا ہی رہ
گیاہے تو ایسانہیں ہے آج ہمارے مُلک کا حکمران یاسیاسی طبقہ کسی کالم یا
اخبار نویس اور اینکر پرسن سے متعلق ایسی سوچ رکھتاہے تو اِسے سب سے پہلے
اپنے سیاسی اور ذاتی شاطرانہ رویوں اور ووٹرز اور اپنے عوام سے اپنے بدلتے
تیوروں پر بھی اپنا احتساب کرلینا چاہئے پھر کوئی کسی کالم نویس یا کسی
اینکر پرسن کے بارے میں بدگمانی کا شکار ہواَب ویسے بھی قوم کو جھوٹے نعروں
اور وعدوں سے بہلانے کا وقت گزرچکاہے آج قوم حق اور سچ کی تلاش میں سرگرداں
ہے میڈیا پرسن پر فرشتہ سمجھ کر اعتماد اور اعتبار کئے ہوئے ہے تو پھر آج
کوئی اِس خوش فہمی میں مبتلا نہ رہے کہ جو یہ کرتاہے کو ئی نہیں دیکھ رہاہے
سب کو سب کے متعلق سب کچھ پتہ ہے آج سا منے والے کو وہ بھی معلوم ہے جو کسی
کو اپنی ساری زندگی بھی اپنے متعلق معلوم نہیں ہوتاہے تو بس کالم نگاراور
اخبار نویس اُن ہی حقائق کو جا ن کر بذریعہ اپنے قلم اپنی تحریروں میں لاکر
سوسا ئٹی میں نہ صرف بُرائی کا خاتمہ چاہتاہے بلکہ اِس کوشش ہوتی ہے کہ اِس
کی تحریروں کے ذریعے معاشرے سے کرپٹ عناصر کا بھی جڑ سے قلع قمع ہو۔
بہر کیف ،پچھلے دِنوں پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کراچی کے چیئرمین سید
قیصرمحمود کی قیادت میں گورنرہاوس کراچی میں گورنرسندھ محمد زیبرسے ملاقات
کا اتفاق ہوا ملاقات کا جتنا بھی دورا نیہ تھا اِس کی ایک خا ص بات یہ تھی
کہ اِس دوران گورنر سندھ زیادہ بولے جبکہ کالم نویسی اِنہیں سُنتے ہی رہے
اگر چہ اخبار نویسوں کے پاس کہنے اور کرنے کو تو بہت سے سوالات تھے مگرایک
گورنر صاحب تھے کہ اِنہوں نے اپنے آگے کسی کی زیادہ چلنے ہی نہیں دی بہر
حال ، جو موقعہ ملا اورجتنے دوچار سوالات بھی گورنر سندھ سے کئے گئے اُنہوں
نے اِن سوالات کے جوابات ضرورت سے زیادہ طویل دیئے کہ بعد میں یہی اندازہ
ہوا کہ سوال چنا اور جواب گندم ملاہے،بالخصوص کراچی میں تیزی سے بڑھتے ہوئے
اسٹریٹ کرائمز اورکے الیکٹرک اور سوئی گیس والوں کے تنازع کی وجہ سے کراچی
میں بے لگام ہوتی لوڈشیڈنگ اور اِس کی روک تھام اور خاتمے کے بارے میں راقم
نے وفاق اور اِن کے کردار سے متعلق سوالات کئے تو جواب غیر تسلی بخش ملا،
قصہ مختصر یہ کہ راقم الحرف نے ساری ملاقات کا نتیجہ یہ نکلاکہ بس گورنر
سند ھ اول تا آخر قصیدہ نوازیہ(شانِ نوازشریف اور ذات نوازشریف اور
28جولائی 2017ء کے سُپر یم کورٹ آف پاکستان کے نوازشریف کی نااہلی کے فیصلے
کے خلاف نوازشریف اور اِن کی بے گناہی کے قصیدے ہی) پڑھتے رہے اور پنجاب او
ر لاہور کی حد تک ن لیگ کی حکومت کی جمہوری اور عوامی خدمات کے عوض لہک لہک
کر بڑائیاں بیان کیں جبکہ بالخصوص عدلیہ اور دیگر ظاہر و با طن خفیہ اداروں
کے رویوں کے خلاف آہو فغان بھی کرتے رہے حالانکہ ہم تو یہ سوچ کر گئے تھے
کہ ملاقات کچھ غیر سیاسی نوعیت کی ہوگی چونکہ الیکشن قریب ہیں اِن سے اگلے
انتخابات اور اِس سے قبل اور بعد کی پیدا ہونے والی صورتِ حال پر غیر سیاسی
انداز سے کھل کر اظہارِ خیال ہوگا اورہمیں اِن کی گفتگوسے قوم کی آگاہی کے
لئے بہت کچھ ملے گا مگر ایسا نہیں ہوا جیسا ہم چاہتے تھے اور ہم جیسا سوچ
کر گئے تھے نہ صرف ہم بلکہ وفد میں رکن سپریم کونسل سینئر قلمکار شبیر
سومرو، جنرل سیکریٹری منصور احمد ما نی ، مزمل احمد فیروزی، انیس
منصوری،راقم الحرف، عارف خٹک، عدل طیب، ذوالفقار قریشی، احتشام انور، شاہد
احمد، عرشی عباس، شکیہ شیخ، ثناء الہاشمی اور علوینہ مشتاق سمیت جتنے بھی
شامل تھے ہم جس سچ او ر حق کی تلاش میں گورنر سندھ سے ملاقات کرنے گئے تھے
افسوس ہے کہ ہم تشنہ لب ہی واپس ہوئے ہاں البتہ، جس کفایت شعائری سے ہماری
خاطر تواضع کی گئی یہ دیکھ کر خوشی ہوئی اور لگا کہ قائد اعظم محمد علی
جناح ؒ کے فرمان کفایت شعائری پر عمل ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ اگلے متوقعہ الیکشن میں پچاس دن سے بھی کم دن رہ گئے ہیں
سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنے پرا نے اورنئے نعروں اور منشوروں کے ساتھ
اپنی جیت کے لئے کمر کس چکی ہیں سب خود کو ایک سے بڑھ کر ایک ثابت کرنے اور
اپنی گردن اُونچی رکھنے کے لئے سارے جا ئز و نا جائز سیاسی حربے استعمال
کرنا اپنے لئے قا نونی سمجھ رہی ہیں تب مُلک میں جوڑ توڑ کا سلسلہ اپنے
عروج پر پہنچنے کو ہے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہان اپنے خول سے نکل
کر اپنی اصلیت دکھا رہے ہیں زباندرازی اورکھینچا تا نی اپنی جگہہ ہے مگر
اپنی ذات اور اپنی ضد کے بتوں کو کوئی بھی پاش پاش کرکے عوامی مسائل حل
کرنے اور اپنی خدمت عوام کے لئے پیش کرنے کو کوئی بھی روادار نہیں ہے ایسے
میں قوم اُس سچ کو جاننا چاہتی ہے جِسے ستر سالوں سے کو ئی بھی بتا نے کو
تیارنہیں ہے اور وہ سچ یہ ہے کہ آخر قوم کو لوٹ کھا نے والے قومی لٹیرے
مُلک اور قوم کی جان کب چھوڑیں گے؟؟اِس سے انکار نہیں کہ جو قوم اپنے ما ضی
سے کچھ نہ سیکھے اوراپنے حال کو بہتر بنا کر مستقبل کو تابناک نہ بنا سکے
ایسی قوم کا ہر عمل بے معنی اور بے مقصد ہی رہتاہے چاہئے ایسی قوم اپنے
وجود کے ساتھ صدیاں بیتا گزاردے مگر اِس کا ہر عمل معنی خیزہی رہے گااگر چہ
سرزمین پاکستان کے حکمرانواور سیاستدانوں اور عوام کی سوچ وافکار اِس سے
مختلف نہیں ہیں جیسا کہ ابھی بیان کیا گیاہے مگرپاکستان مسلم لیگ ن مُلک کی
وہ سیاسی جماعت ہے جس نے پچھلا الیکشن مُلک سے بجلی بحران اور طویل گھنٹوں
کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے عزم و اعلان اور دعووں پر جیتا تھااور آج اِس کے
رواں اقتدار کے خاتمے کے لئے چند ہی دن باقی رہ گئے ہیں مگریہ بڑے افسوس کی
بات ہے کہ اپنے لاکھ وعدوں اور دعووں کے باوجود بھی پی ایم ایل ن مُلک سے
بجلی کا بحران اور طویل دورانیہ کی لوڈشیڈنگ تو ختم نہ کراسکی مگر بڑی ہٹ
دھرمی اور ڈھٹائی سے آج بھی اپنے پہلے والے وعدوں اور دعووں پر قا ئم ہے کہ
اِسے عوام نے دوبارہ ووٹ دے کر اقتدار کی کنجی سونپی تو یہ اِس بار بغیر
کسی حیلے بہا نے کے مُلک سے سنجیدگی سے بجلی بحران اور طویل دورا نیے کی
لوڈشیڈنگ کوضرور ختم کراہی کے دم لے گی اور پورے مُلک کو سورج کی روشنی کی
طرح رات میں بھی روشن کردے گی جبکہ ن لیگ کراچی میں کے الیکٹرک کے بڑھتے
اندھیروں کوتو ختم کرا نے کے لئے بے بس ہے پھر بھی دعوے ۔ ؟؟ (ختم شُد)
|