روئے زمین پر دستیاب اشیاء میں سب سے سستی چیز خونِ مسلم
ہے۔مسلمان کو ہر مسلم اور غیر مسلم ملک میں مختلف ناموں پر اتنی بڑی تعداد
میں قتل کیا جا رہا ہے گویاکہ مسلمان انسان نہیں کوئی جانورہے جبکہ جدید
دنیا میں جانوروں کے بھی حقوق تسلیم کئے جانے کے بعد انہیں تحفظ حاصل ہے ۔
خودبھارت میں وحشی جانوروں کے تحفظ کے لئے اتنے سخت قوانین ہیں کہ اگر ان
میں سے کوئی انسان پر بھی حملہ کرتا ہے اور وہ اپنے تحفظ کے لئے وحشی جانور
کو مارتا ہے تو مارنے والے کے خلاف کیس درج کیا جاتا ہے اور اس کو جیل
بھیجنے کا بھی قانون موجود ہے مگر مسلمان اس وحشی جانور سے بھی کم قیمت ہے
کہ جب جو چاہتا ہے اس کو وہاں انگریزی کے مشہور ضرب المثل Give a bad name
to the dog and kill himکے اصول کے تحت برانام دیکر بغیر کسی پریشانی کے
قتل کیا جاتا ہے۔ برما، کشمیر، پاکستان، افغانستان، شام، عراق، صومالیہ،
فلسطین، سوڈان اور یمن اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔رہی انسانیت وہ مر چکی ہے
اوررہا عالم اسلام وہ بہت پہلے کبھی تھا اب نہیں ہے وہ بغیر غیرت و حمیت کے
ایک لاشہ ہے جس کو بے حس و حرکت وجود ماننے کے باجود ذلتناک طریقوں سے
عالمی سطح پر تماشا بنایا جا رہا ہے اور اس میں سب سے قابل نفرت رول امریکہ
اور اسرائیل کا ہے ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سفاک امریکیوں نے صوبہ قندوز کے ضلع دشت آرچی کے
پھٹان بازار کے علاقے میں واقع دینی مدرسے دارالعلوم ہاشمیہ پر2اپریل 2018ء
سوموار کے دن دوپہر کے وقت ایسے وقت میں فضائی بمباری کی جب مدرسے میں
علاقے کے علماء کرام، مدرسین اور قبائلی عمائدین سمیت ہزاروں لوگ حفاظ کرام
کی دستار بندی اور تقسیم اسنادکی مناسبت سے ایک تقریب میں شریک تھے۔جس کے
نتیجے میں 150 سے زائد نہتے افراد شہید ہوئے۔وحشی امریکیوں نے اس سے قبل
بھی کسی قسم کی وحشت و بربریت برپا کرنے میں کوئی تردد محسوس نہیں کیاہے
مگر یہ اپنی نوعیت کا سب سے المناک واقعہ ہے۔مذہبی تقریب پراس قدر شدید
بمباری کی گئی کہ اس کے نتیجے میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق ڈیڑھ سو سے
زائد علماء کرام، حافظ قرآن بچے ، اور عام شہری شہید جبکہ سینکڑوں زخمی
ابھی زیر علاج ہیں ۔وحشی امریکیوں نے یہ دعویٰ کیا کہ مدرسے میں افغان
طالبان کے رہنما ء اور شوریٰ کے اراکین موجود تھے۔جو بالکل من گھڑت اور بے
بنیادثابت ہوا ہے۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے کابل انتظامیہ
کی وزارت دفاع کے اس دعوے کی شدیدالفاظ میں تردیدکرتے ہو ئے کہا کہ قندوز
میں ہونے والے فضائی حملے میں مجاہدین نہیں بلکہ افغان علماء اور حفاظِ
کرام شہید ہوئے ہیں۔ مجاہدذبیح اﷲ نے کہا کہ وحشی دشمن کا دعویٰ بے بنیاد
اور افغان عوام کی آنکھوں میں خاک پاشی کے مترادف ہے۔موصوف نے اپنی ٹویٹر
اکاونٹ میں لکھا کہ جرائم پیشہ دشمن اس طرح کے دعوے کر کے اپنے جرائم کو
چھپا نے کی ناکام کوشش کرتا ہے ،مگر اہلیان قندوز گواہ ہیں کہ وحشتاک فضائی
حملہ ایک دینی مدرسے میں قرآن کریم کے حفاظ کرام کی دستار فضلیت کی تقریب
پر کیا گیانہ کہ مجاہدین پر۔مجاہد ذبیح اﷲ کا کہنا تھا کہ مجاہدین ڈسپلن کے
پابند ہیں اور مجاہدین خاص کر ذمہ دار حضرات سیکورٹی وجوہات کی وجہ سے کسی
بھی صورت میں اس طرح کی عظیم الشان تقریبات میں شرکت نہیں کرتے ہیں۔
دوسری جانب بی بی سی کے مطابق جمعہ کے روز 7اپریل 2018ء کوفلسطین کے محکمہ
صحت کا کہنا تھا کہ مظاہرین اور اسرائیلی فورسز کے درمیان غزہ اور اسرائیل
کی سرحد پر جھڑپوں کے نتیجے میں مزید دس فلسطینی جاں بحق ہو ئے ہیں۔حکام نے
تیرہ سو سے زیادہ افراد کے زخمی ہونے کی بھی تصدیق کی ہے۔ اسرائیلی فوج کا
کہنا ہے کہ اس نے مظاہرین پر گولی اس وقت چلائی جب انھوں نے سرحد کی خلاف
ورزی کی۔خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے اسی طرح کی جھڑپوں میں 16 افراد مارے جا
چکے ہیں۔فلسطینی وزارت صحت نے تصدیق کی ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں غزہ سے
تعلق رکھنے والے صحافی یاسر مرتضی بھی شامل ہیں۔جمعے کو ہزاروں مظاہرین
اسرائیل اور غزہ کے 65 کلومیٹر طویل باڈر کے پانچ مقامات پر اکھٹے ہوئے۔
مظاہرین نے بڑی تعداد میں ان مقامات پر ٹائر جلائے تاکہ اس کے دھویں سے
سرحد پار موجود اسرائیلی فوجی انھیں باآسانی نشانہ نہ بنا سکیں۔مگر اس کے
باوجود اسرائیلی فوجیں نے پہلے سولہ جبکہ تازہ ترین واقعات میں دس
فلسطینیوں کو قتل کردیا۔
تیسری طرف کشمیرکے دو اضلاع شوپیاں اور اسلام آبادمیں اپریل کی پہلی ہی
تاریخ کودو الگ الگ جھڑپوں کے دوران 12عسکری نوجوانوں کے علاوہ 4عام شہری
جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہو ئے ہیں ۔ ضلع شوپیاں میں 1ا پریل کو درگڈ
علاقے میں شبانہ جھڑپ کے دوران 7عساکر جان بحق ہوئے،اور اس دوران2مکانات کو
بھی نقصان پہنچا۔ذرائع کے مطابق رات کے تین بجے طرفین میں جھڑپ ہوئی جو
اتوار صبح دس بجے تک جاری رہی۔پولیس کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند علاقے میں
تین بھائیوں کے مکانوں میں چھپے ہوئے تھے،جن میں ایک پولیس افسر کا مکان
بھی شامل تھا۔ 6بجکر30منٹ پر عسکریت پسند مکان سے باہر آئے اور نزدیکی باغ
میں داخل ہوئے،جہاں سے انہوں نے محاذ سنبھالتے ہوئے فوج پر فائرنگ شروع
کردی۔اس دوران جھڑپ میں 7 مقامی مجاہدین شہید ہو ئے جن کی شناخت حزب
المجاہدین کے زبیر احمد ترے شوپیان، اشفاق احمد ملک پنجورہ،یاور ایتو ساکن
صف نگری،ناظم نذیر ڈار ساکن ناگہ بل امام صاحب،عادل احمد ٹھوکر،عبیدشفیع
ملہ ساکن ترنج اور رئیس احمد ٹھوکر ساکن مل ڈیرہ کے بطور ہوئیں۔ یہ تمام
نوجوان شوپیاں کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔میڈیا ذرائع کے مطابق یہ
جھڑپ جہاں ہوئی اس کے نزدیک مشتاق احمد ٹھوکر نامی ایک شہری کوبھی اپنے ہی
مکان کے اندر گولی لگی اوروہ موقع پر ہی جاں بحق ہوا۔
اسی دن شوپیاں سے چند کلو میٹر دور کچھ ڈورہ گاؤں میں ایک اور معرکہ آرائی
ہوئی جو پورا دن جاری رہی۔فوج اور ٹاسک فورس نے مصدقہ اطلاع ملنے پر علاقے
کا محاصرہ کیا،جس کے دوران جنگجوؤں اور فوج کے درمیان جھڑپ شروع ہوئی۔معلوم
ہوا ہے کہ طرفین کے درمیان دن بھر گولیوں کا تبادلہ جاری رہا،جس کے دوران
خود کار ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا،جس کی وجہ سے پورا علاقہ گولیوں کی گن
گرج سے گونج اٹھا۔دن بھر جاری رہنے والی جھڑپ میں4جنگجوجاں بحق ہوئے،جبکہ
جھڑپ میں3فوجی اہلکار ہلاک اور کئی ایک زخمی ہوئے۔ جاں بحق ہوئے جنگجوؤں کی
شناخت اعتماد احمد ساکنہ امشی پورہ،سمیر احمدساکنہ ہیلو اور اشفاق احمد پڈر
ساکنہ پڈرپورہ شوپیاں کے بطور ہوئی۔اس جھڑپ میں2مکانات بھی زمین بوس
ہوگئے۔اس جھڑپ کے دوران عوام سڑکوں پر نکل کر فوج کے خلاف احتجاج کرنے لگے
۔پولیس اور فوج مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے دوران ایک سو سے
زائد افراد زخمی ہوئے جن میں سے تین زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ بیٹھے
جبکہ ایک زخمی زبیر احمد پال ساکنہ گوپال پورہ امام صاحب کولگام اسپتال میں
دم توڑ بیٹھا جبکہ محمد اقبال بٹ صورہ اسپتال میں چل بسا اور معراج الدین
میر سرینگر لیجانے کے دوران پلوامہ میں دم توڑ بیٹھا۔جھڑپ کے دوران لوگوں
نے جائے وقوع پر حملہ کیا جس کے دوران ملبے کے نیچے چھپے بیٹھے دو عسکریت
پسند زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے جبکہ ایک کی لاش کو لوگوں نے زندہ سمجھ
کر شوپیان اسپتال لایا جس کے فوراً بعد اسپتال پر فورسز نے دھاوا بول دیا
اور اندھا دھند فائرنگ کے علاوہ شدید شلنگ کی۔اس سے قبل جب شوپیان کے جنگجو
کمانڈر زبیر احمد ترے کی نماز جنازہ عید گاہ شوپیاں میں پڑھائی جارہی تھی
تو ہزاروں لوگوں کو منتشر کرنے کیلئے شلنگ کی گئی جس میں قریب20 افراد زخمی
ہو گئے۔(روز نامہ بلند کشمیر)
اسی روز جنوبی کشمیر کے معروف اور قدیم ترین ضلع اسلام آباد(اننت ناگ) کے
دیا لگام میں دوران شب معرکہ آرائی کے دوران ایک مقامی جنگجو جاں بحق
ہوا۔پولیس کے مطابق دیالگام میں جنگجوؤں کی موجودگی سے متعلق خفیہ اطلاع
ملنے پر فوج نے ہفتہ و اتوار کی درمیانی شب اسد اﷲ خان نامی شخص کے مکان کو
گھیرے میں لیا۔ اس بیچ مکان کے اندر چھپے مجاہد کو ہتھیار ڈالنے کی پیش کش
کی گئی مگراس نے پیش کش کو ٹھکرا یا اگر چہ مذکورہ نوجوان کوآمادہ کر نے کے
لئے اس کے ماں باپ کو بھی جھڑپ کے مقام پر لاکر سرنڈر کرنے کی پیش کش کی
گئی لایا گیا مگر اس نے پیش کش ٹھکرا کر مر جانے کو ترجیح دیدی ۔جس کے بعد
طرفین کے درمیان مسلح تصادم ہوا جو دیر رات گئے تک جاری رہا۔ا س بیچ
فورسزنے مکان کو دھماکوں سے زمین بوس کر دیا۔ جس کے سبب مکان پوری طرح تباہ
ہوگیا جبکہ مکان کے صحن میں کھڑی ماروتی کارجل کر راکھ ہو گئی۔معرکہ آرائی
کے دوران رؤف احمد کھانڈے ولد بشیر احمد کھانڈے ساکن دھرنہ ڈوروجاں بحق ہو
گیا۔اس دوران جنگجوں کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی لوگوں کی بڑی تعداد جائے
موقع پر پہنچی اور اسلام و آزادی کے حق میں نعرے بلند کئے۔شہیدکی نماز
جنازہ تین مرتبہ ادا کی گئی ۔(روزنامہ رائزنگ کشمیر)
فوج اور مقامی مجاہدین کے درمیان جھڑپ کی خبریں گشت کرنے کے ساتھ ہی کچھ
ڈورہ میں مرد و زن گھروں سے باہر آئے اور احتجاج کرنے لگے۔عینی شاہدین کے
مطابق اسلام اور آزادی کے حق میں نعرے بلند کرتے ہوئے مظاہرین نے جب جھڑپ
کے مقام کی طرف پیش قدمی کرنے کی کوشش کی توپولیس اور فورسز نے مظاہرین کو
منتشر کرنے کیلئے ٹیر گیس گولے داغے۔طرفین میں جھڑپ کے دوران مظاہرین نے
سنگبازی کی،جبکہ فورسز نے پیلٹ اور گولیوں کا استعمال کیا جس میں 80 نوجوان
زخمی ہوئے۔عینی شاہدین کے مطابق کچھ ڈورہ شوپیان میں جاں بحق ہوئے نوجوان
جن میں رئیس احمد اور یاور احمد شامل ہیں کوجونہی اپنے آبائی علاقوں میں
پہنچایا گیا تو وہاں کہرام مچ گیا۔۔ اس دوران جھڑپ کے مقام پر نوجوانوں کے
علاوہ خواتین نے بھی احتجاج کیا جن کو منتشر کرنے کے لیے فورسز نے طاقت کا
استعمال کیا۔ فورسز نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ، آنسو گیس
اور پیلٹ کا سہارا لیتے ہوئے عوام کو جھڑپ کے مقام سے پیچھے دھکیلنے کی
کوششیں کیں۔ دن بھر درگڈ اور کچھ ڈورہ میں جاری رہنے والے احتجاجی مظاہروں
میں قریب130شہری زخمی ہوئے۔
فلسطین سے لیکر قندوز اور کشمیر تک سینکڑوں مسلمان نوجوانوں ،بچوں اور
بوڈھوں کی شہادتوں کے پیش نظر پورا کشمیر مسلسل چھ روز تک بند رہا ۔ مگر
افسوس یہ کہ پوری عالم انسانیت یہ سب جاننے کے باوجود خاموش ہے گویا کہ
کہیں بھی انسان نہیں بلکہ جانور مر رہے ہیں ۔خدا جانے عالم اسلام میں رہنے
والے مسلمانوں کے پیمانے کیا ہیں وہ عسکری حمایت نا صحیح سیاسی یاسفارتی
حمایت کیوں نہیں کرتے ہیں ؟وہ فلسطین ،کشمیر یا افغانستان پر برپا قیامت کو
روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کیوں نہیں کرتے ہیں ؟حکمرانوں کا اس کے خلاف
کچھ بھی کرنا ممکن نہیں ہے اس لئے کہ عالم اسلام پر مسلط حکمرانوں میں
اکثریت بے غیرت مغربی ایجنٹوں کی ہے لہذا وہ نمک حرامی نہیں کر سکتے ہیں
۔رہی عوام وہ یا تو بے خبر ہے یا دبی ہوئی ۔قلمکار صحافی اور دانشور اپنے
اپنے مقامی مسائل میں گرفتار ہیں حالانکہ انسانی جان کے تحفظ کو اولیت ہونی
چاہیے مگر اس قاتلوں اور رہزوں کی دنیا کا کلیہ ہی الٹا ہے یہاں مظلوم کے
برعکس لوگ قاتل اور ظالم کے ساتھ کھڑے ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔یہاں
عوام سے لیکر خواص تک سبھی اپنے مفادات کے اسیر ہیں ایسے میں مظلومین کو
مدتِ مدید تک کٹنا اور مرنا ہے اس لئے کہ اب روئے زمین پر رہزنوں ،ڈاکوں
اور چوروں کی حکمرانی قائم ہے اور اس پر مظلومین کے خون کو پینا اب معمول
بنتا جا رہا ہے اور اس ظلم و جبر میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں
ہے بلکہ اب اس بنیاد پر تقسیم کرنا عملی طور پر ناممکن ہو چکا ہے ۔جن سے
عدل وانصاف کی امید کی جاسکتی تھی وہی اب اس ظلم میں ووحشت میں برابر کے
شریک ہیں ۔
|