تحریر۔۔ سید کمال حسین شاہ
آج سے 18 سال پہلے کشمیر کے ایک علاقے پلندری جانے کا اتفاق ہوا۔ وجہ لوگوں
کی محبت۔اور ان میرا نام کے ساتھ سید سے عشق تھا ان کے گھروں کے پاس صرف
جنگل تھا۔ کوئی راستہ نہ تھا۔ کچھ لوگ پہاڑ کے اوپر رہتے تھے ۔ان لوگوں کو
دوسری طرف سے گھوم کر جانا پڑھتا۔ اس زمین کی کوئی قیمت نہ تھی ایک ہفتہ
پہلے اس علاقہ سے ایک شحص ملنے آیا بات چیت ہوئی۔ میں بولا دکان بنائے روڑ
کے ساتھ۔ اس نے بتایا کہ اس کافی جگہ روڑ کے ساتھ ہے ۔ میرے حساب سے میں جب
گیا تو اس کی زمیں پر صرف جنگلی پودے تھے ۔ اس نے بتایا شاہ صاحب۔ ہم لوگوں
نے خود اپنی زمین روڈ کے لئے فری دی ہے اب وہ جگہ ترقی کر گیا ہے روڑ کی
وجہ سے لوگ آباد ہیں اب مسافر گاڑیاں چلتی ہے ۔ شیر کا فاصلہ کم ہو گیا۔
راستے میں لوگوں نے دکانیں بنا لی ہے ۔ میں کچھ دکانیں بنا رہا ہوں۔صرف ایک
روڈ جو لوگوں نے اپنی زمیں دے بنایا۔ کئی لوگوں کام اور روز گار ملا جو لوگ
پہلے ایک جگہ پر آباد تھے ۔ اب پھیل گئی نئی مارکیٹ بن گئی۔ لوگوں کا سفر
احسان ہوگیا ہے ۔اس طرح عہدِ قدیم میں گرینڈ ٹرنک روڈ یا جسے مختصرًا جی ٹی
روڈ بھی کہتے ہیں……ایشیا کی طویل ترین اور قدیم ترین شاہراہوں میں سے ایک
ہے ۔
مضبوط چوڑے پتھروں کو جوڑکر تیار کردہ پختہ اور کشادہ ’جرنیلی سڑک‘ 558 برس
گزرنے کے باوجود اب بھی بڑی شاندار دکھائی دیتی ہے ۔ یہ سڑک بہترین منصوبہ
ساز، بیدار مغز اور بہادر افغان سردار شیر شاہ سوری نے اپنے 5 سالہ دورِ
حکومت میں بنوائی۔اس کی عمر 2000 سال ہے ۔ یہ شاہراہ جنوبی ایشیا کو وسطی
ایشیا سے ملاتی ہے جو بنگلادیش سے شروع ہوکر بھارتی علاقوں سے ہوتی ہوئی
پاکستانی پنجاب پھر خیبر پختونخوا اور آخر میں افغان شہر کابل تک جاتی ہے ۔
اپ دیکھا سکتے ہیں یا ترقی کے اپنی مثال تھی ……وجہ صرف ایک روڈ ، اک سڑک جس
نے فاصلہ کم کیا اور لوگوں نے ترقی کی ……اسی طرح عہدِ قدیم کے ان تجارتی
راستوں کو مجموعی طور پر شاہراہ ریشم……یہ گزر گاہیں کل 8 ہزار کلو میٹر (5
ہزار میل) پر پھیلی ہوئی تھیں۔ شاہراہ ریشم کی تجارت چین، مصر، بین
النہرین، فارس، بر صغیر اور روم کی تہذیبوں کی ترقی کا اہم ترین عنصر تھی
اور جدید دنیا کی تعمیر میں اس کا بنیادی کردار رہا ہے ۔اب یہ اصطلاح
پاکستان اور چین کے درمیان زمینی گزر گاہ شاہراہ قراقرم کے لیے بھی استعمال
ہوتی ہے ۔پاکستان کو چین سے ملانے کا زمینی ذریعہ ہے ۔یہ دنیا کے عظیم
پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہے ۔ درہ خنجراب کے مقام پر
سطح سمندر سے اس کی بلندی 4693 میٹر ہے ۔ یہ چین کے صوبہ سنکیانگ کو
پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے ۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی
شاہراہ ہے ۔بیس سال کے عرصے میں 1986ء مکمل ہوئی اسے پاکستان اور چین نے مل
کر بنایا ہے ۔ اس کو تعمیر کرتے ہوئے 810 پاکستانیوں اور 82 چینیوں نے اپنی
جان دے دی۔ اس کی لمبائی 1300 کلومیٹر ہے ۔ یہ چینی شہر کاشغر سے شروع ہوتی
ہے ۔ پھر ہنزہ، نگر، گلگت، چلاس، داسو، بشام، مانسہرہ، ایبٹ آباد, ہری
پورہزارہ سے ہوتی ہوئی حسن ابدال کے مقام پر جی ٹی روڈ سے ملتی ہے ۔شاہراہ
قراقرم کے مشکل پہاڑی علاقے میں بنائی گئی ہے اس لیے اسے دنیا کا آٹھواں
عجوبہ بھی کہتے ہیں……دریائے سندھ، دریائے گلگت، دریائے ہنزہ، نانگا پربت
اور راکاپوشی اس کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔
شاہراہ سے ریشم ایک ترقی کا دور شروع ھوا۔ یہ ایک مشکل کام تھا۔ لیکن اس
سڑک سے علاقے میں ترقی آئی۔ لوگوں کو نیا روزگار ملے ۔ علاقے کی قسمت بدلی
۔ لوگوں کے رابطہ احسان ھوے ۔ چین کے ساتھ تجارت کو ایک نء منزل ملی۔ سیاحت
کو فروغ ملا۔ راستے میں ھوٹل بنے ۔ بستایاں آباد ھوئی۔ ایک سڑک نے پاکستان
ایک حصے کو نء ترقی کی راہ بر ڈال دیا۔ شمالی علاقے کے پھلوں کی منڈیاں تک
رسائی احسان ھوئی۔ سڑک کء بھی بنائے جائے یہ ترقی کا پہلا قدم ہوتا۔ کوئی
ممالک اس کے نظام کے بغیر ترقی نیہں کر سکتی ۔اس کو اس نظر سے دیکھا جائے
چین کا عالمی شاہراہ ریشم کی شرو ع۔ پاکستان سی پیک کے زریعے پورے ملک میں
سڑکوں کا جال، ترقی کا سفر ۔ سی پیک منصوبے سے پاکستان میں تیز رفتار معاشی
ترقی کی بنیاد رکھی جا چکی ہے ،بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ اس صدی کا سب سے بڑا
منصوبہ ہے ستر سے زائد ممالک اس منصوبے سے استفادہ کررہے ہیں،چین پاکستان
دوستی خطے میں ایک اہم مقام رکھتی ہے ۔اقتصادی راہداری منصوبہ شروع کیا جس
میں توانائی ' خصوصی اکنامک زون اور گوادر پورٹ کی تعمیر شامل ہے ۔ پاکستان
میں تیز رفتار معاشی ترقی کی بنیاد رکھی جا چکی ہے ۔بیلٹ اینڈ روڈ پوری
دنیا کی اقتصادی ترقی اور تعاون کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے سی پیک منصوبے
سے پاکستان میں تیز رفتار معاشی ترقی کی بنیاد رکھی جا چکی ہے ،بیلٹ اینڈ
روڈ منصوبہ اس صدی کا سب سے بڑا منصوبہ ہے ستر سے زائد ممالک اس منصوبے سے
استفادہ کررہے ہیں،چین پاکستان دوستی خطے میں ایک اہم مقام رکھتی ہے ۔
علاقائی تجارت کی وجہ سے ممبرممالک کے درمیان باہمی تعاون سے وہ ایک دوسرے
کے کئی معاملات میں ساتھ دیتے ہیں جن میں، سیاسی ،سماجی معاشی اور دفاعی
معاملات بھی شامل ہوتے ہیں ۔
ون-بیلٹ-ون-روڈ ایک کثیرالجہتی منصوبہ ہے جو کہ چینی حکومت نے شروع کیا ہے
۔ یہ چین کو اپنا اثرورسوخ، ایشیا، یورپ اور افریقہ تک بڑھانے کیلیے سازگار
ماحول فراہم کرتے ہیں۔ چین کے اس وسیع و عریض منصوبے میں انتہائی اہم محلِ
وقوع کی وجہ سے پاکستان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ تجارتی سرگرمیوں کا مرکز
بن سکے ۔ون بیلٹ روڈ اس صدی کا سب سے بڑا منصوبہ ہے ستر سے زائد ممالک اس
منصوبے سے استفادہ کررہے ہیں۔چین عالمی انتظامی نظام کے ستون میں سے ایک بن
گیا ہے اور چین کا کردار دن بدن اہم ہوتا جا رہا ہے ۔ سلک روڈ بنتا ہے تو
پھر دوسرے ملکوں کو بھی اس سے فائدہ پہنچنا چاہیے گا۔اس سے اقتصادی ترقی کو
بڑھانے کے لیے شامل ہو سکتے ہیں ون بیلٹ روڈ ایک کثیرالجہتی منصوبہ ہے جو
کہ چینی حکومت نے اس وقت شروع کیا ہے ۔ یہ چین کو اپنا اثرورسوخ، ایشیا،
یورپ اور افریقہ تک بڑھانے کیلیے سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں۔ چین کے اس
وسیع و عریض منصوبے میں انتہائی اہم محلِ وقوع کی وجہ سے پاکستان کے پاس یہ
موقع ہے کہ وہ تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن سکے ۔ہ، ایک سڑک منصوبہ ایشیاء
اور مغرب کے درمیان رابطہ قائم کرے گا۔
|