نواز شریف کی چشم پوشانہ پالیسیوں کے نقصانات

عمران خان صحیح کہتے ہیں کہ نواز شریف کی شخصیت میں بادشاہوں جیسی خوبیاں موجود ہیں ۔وہ مسائل کوفوری طور پر حل کرنے کی بجائے غیر ضروری طول دیتے ہیں۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے انہوں بھارت کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب برتا ۔لوگ طنزیہ طور پر یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ نواز شریف اگر کلبھوشن کے خلاف بیان دے دیں تو وہ ان کو حقیقی وزیراعظم مان لیں گے ۔ تنقید کے باوجود بھی وہ خاموش رہے ۔ شاید ہی کوئی دن جاتا ہوگا جب بھارتی فوج کنٹرول لائن پر گولہ باری نہ کرتی ہو ۔نواز شریف کی زبان اس حوالے سے بھی خاموش رہی ۔ پاک فوج کے افسراور جوان ٗ وطن کی سلامتی پر جانیں نچھاور کررہے ہیں ٗ نوازشریف کوکبھی فرصت نہیں ملی کہ وہ ان شہداء کے جنازوں میں شریک ہوں اور لواحقین سے اظہار تعزیت کریں ۔بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف آصف علی زرداری نے سازشوں کا آغاز کیا تو دفاع کرنے کے بجائے ایک بار پھر نواز شریف نے خاموشی کی چادر اوڑھے رکھی۔ پانی جب پلوں کے اوپر سے گزرنے لگا تب بھی لاہور میں بیٹھ کر سیاسی بیان داغ دیا ۔ جو خفیہ ہاتھ بلوچستان حکومت کو ختم کرسکتے ہیں ان کی دستبرد سے مسلم لیگی اراکین کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ سینیٹ کے الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود چیئرمین شپ حاصل نہ کرنا لیڈر شپ کی ناکامی ہے ۔ ہارنے کے بعد چیئرمین سینیٹ کو ہدف تنقید بنانا اپنی ہی آگ میں خود جلنے کے مترادف ہے ۔اس مخالفانہ بیانات کا ردعمل یقینا بلوچستان میں سامنے آنا تھا اور حقیقت میں وہاں ایسی فضا قائم ہوئی جو اگلے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے لیے مشکلات کا باعث بنے گی ۔ جلتی ہوئی آگ پر تیل ڈالنے کا فریضہ ٗ شاہد خاقان عباسی نے یہ کہہ کر انجام دیا کہ وہ چیئرمین سینیٹ کو نہیں مانتے ۔ جب چیئر مین سینیٹ منتخب ہو گئے تو بات ختم ہوجانی چاہیئے لیکن اس کو طول دینے اور مخالفانہ بیانات جاری کرنے سے بلوچستان میں اچھا تاثر نہیں ابھرا ۔صرف یہاں تک ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ نواز شریف کو کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ سندھ اور بلوچستان کے عوام کے پاس جاکر انہیں بھی ووٹ کے تقدس کی جنگ میں اپنے ساتھ شامل کریں ۔ یقینایہ امر بھی احساس محرومی پیدا کرتا ہے کہ نواز شریف سندھ اور بلوچستان کو اہمیت نہیں دیتے اور وہاں جانے سے کتراتے ہیں ۔ وزیر اعلی بلوچستان نے اپنی پریس کانفرنس میں جو الزامات مسلم لیگی قائدین اور نواز شریف پر لگائے ٗ وہ دو سو فیصد درست ہیں ۔اس سے نواز شریف کے سیاسی قد میں اضافہ نہیں بلکہ کمی ہوئی ہے ۔ نواز شریف کی چشم پوشی کاایک اور عظیم مظاہرہ پاکستانی دریاؤں میں اڑتی ہوئی ریت ہے ۔ پاکستان کی 80 فیصد آبادی زراعت پر مبنی ہے ٗ زراعت کا دار ومدار پانی کی وافر فراہمی پر ہے۔ مسلم لیگی حکومت کی تغافلانہ پالیسی کی وجہ سے نہ بھارت سے ڈیموں میں بند پانی چھڑایا جاسکا اور نہ ہی سیلابی پانی کو نشیبی علاقوں میں ڈیم بنا کرمحفوظ کیاجاسکا۔ 2013ء کی الیکشن مہم کے دوران نواز شریف چھ مہینوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کر نے کا اعلان کرتے رہے ٗاقتدار ملتے ہے مدت کو دو سال کردیاگیاجب اس عرصے میں بھی لوڈشیڈنگ ختم نہ ہوئی تو مدت 2018ء تک بڑھا دی گئی گویا عوام کو ٹرک کی سرخ بتی کے پیچھے لگائے رکھا۔ وزیر اعظم شاہدخاقان عباسی کے علاوہ مسلم لیگی قائدین عوامی جلسوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا دعوی کرتے رہے ۔ اپریل کا مہینہ شروع ہوتے ہی یہ خوش فہمیاں بھی دم توڑ گئیں اور ایک بار پھرلوڈشیڈنگ کا جن بے قابو ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ اب جبکہ حکومتی مدت ختم ہونے کو ہے تو مولانا فضل الرحمان اور محمود اچکزئی کی بلیک میلنگ سے متاثر ہوکر قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخواہ میں ضم نہیں کیاجارہا ہے ۔کل جب وقت ہاتھ سے نکل جائے گا تو پھر سوائے پچھتاوئے کچھ نہیں بچے گا ۔یہ بھی شنید ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں فاٹا کو پاکستان سے الگ کرنے کے لیے فنڈنگ کر رہی ہیں اور نقیب محسود کے قتل کی آڑ میں وہاں ایک ایسی فضا قائم کی جارہی ہے جو آگے چل کر پاکستان کے خلاف تحریک کی شکل اختیار کرسکتی ہے ۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ نواز شریف بر وقت پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے عاری کیوں ہیں۔؟ جب سانپ گزر جاتاہے تو اس کی لکیر پیٹنے سے کیا فائدہ۔ چوہدری نثار احمد ٗ کاشمار سینئر ترین مسلم لیگیوں میں ہوتا ہے ان کی خدمات کااعتراف کرنے کی بجائے ان کو بھی متنازعہ بنا کر ایسے حالات پیدا کیے جارہے ہیں کہ وہ پارٹی کو خیرباد کہہ دیں۔اگر شہباز شریف کو مسلم لیگ ن کا صدر بنایا ہے تو انہیں پارٹی کی تنظیم نو کے حوالے سے اہم فیصلے کرنے کا اختیار بھی ہونا چاہیئے ۔ جنوبی پنجاب میں جو صوبہ محاذ سامنے آیا ۔ ان کے بارے میں نواز شریف کچھ اور کہہ رہے ہیں اور شہباز شریف کی پالیسی کچھ اور ہے ۔ اگر یہی حالات رہے تو 2018ء کے الیکشن میں ہر سطح پر کنفوژن بڑھتا ہی رہے گا اور اس کا نقصان یقینا مسلم لیگ ن کو منفی نتائج کی شکل میں ہوسکتا ہے ۔ نواز شریف اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے بھی مشہور ہیں ۔اسحاق ڈار ٗ نیب عدالت سے اشتہاری قرار پا چکے ہیں لیکن انہیں مسلم لیگ ن کی جانب سے سینیٹ کا ٹکٹ جاری کردیا گیااور وہ منتخب بھی ہوگئے نشست اب تک خالی ہے کیا فائدہ ان کو منتخب کروانے کا ۔ بیگم کلثوم نواز اگر شدید علیل تھیں تو انہیں این اے 120 سے الیکشن لڑانے اور جتوانے کی کیا ضرورت تھی وہ اب تک حلف نہیں اٹھا سکیں ۔کیااس نشست پر جاوید ہاشمی جیسے جانثار مسلم لیگی کو ٹکٹ جاری نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ جنہوں نے نواز شریف حکومت بچانے کی خاطر عین اس وقت عمران خان کا فیوز اڑا دیا جب کامیابی دو ہاتھ لب بام رہ گئی تھی۔ذوالفقار کھوسہ ٗ غوث علی شاہ ٗسمیت درجنوں پرانے اور آزمودہ مسلم لیگی اب بھی پس پردہ ہیں جن کو اگر خود جاکر منائیں تو مان سکتے ہیں لیکن نواز شریف کی انا اپنے ناراض دوستوں کو منانے سے رکاوٹ بنی ہوئی ۔ ایسٹیبلشمنٹ ٗ عمران خان ٗ آصف علی زرداری ٗ بلاول اور چوہدری گروپ ٗ مسلم لیگ ن کو شکست سے ہمکنار کرنے کے لیے اکٹھے ہورہے ہیں لیکن نواز شریف ہواؤں کا رخ دیکھ کر بروقت جوابی حکمت عملی وضع کرنے کی بجائے صرف پیشیاں ہی بھگت رہے ہیں ۔ آخری بات یہ کہوں گا کہ قومی الیکشن کاشیڈ ول کسی بھی وقت جاری ہوسکتا ہے لیکن مسلم لیگ کے منتخب ایم پی اے اور ایم این اے عوام سے رابطے بحال کرنے کی بجائے لمبی تان کر سو رہے ہیں ۔جب قیادت ہی غافل ہوتو دوسروں کو کیسے متحرک کیا جاسکتا ہے ۔ قصہ مختصر نواز شریف اپنی چشم پوشانہ پالیسیوں کی بنا پر اب تک کافی نقصان اٹھا چکے ہیں اگر شہباز شریف کو فری ہینڈ نہ دیا اور خود بھی خواب خرگوش کے مزے لوٹتے اور پیشیاں بھگتتے رہے تو پھر اس کے منفی نتائج کا سامنا کرنے کے لیے بھی انہیں تیار رہنا چاہیئے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 659693 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.