معاشرے میں جہاں جگہ جگہ افراتفری پھیلانے والے اور
بدامنی و تفرقہ ڈالنے والوں کی اکثریت ہوتی ہے وہیں کچھ ایسے ادارے ،افراد
اور تنظیمیں بھی ہوتی ہیں جو معاشرے میں مثبت تبدیلیوں کے لیے اپنا کردار
اداکرتے ہیں ۔ملک پاکستان میں بہت سے افراد اور ادارے اپنی حیثیت و بساط کے
مطابق ملکی ترقی و بقاء کے لیے کام کرتے نظر آتے ہیں۔مختلف ادوار میں مختلف
محب وطن پاکستانیوں نے مختلف اقسام کی تنظیمیں بنائیں جن کا کام بھی مختلف
ہوتا تھا ۔کوئی تعلیمی اعتبار سے کام کرتی رہی تو کوئی فرسٹ ایڈجیسے کام پر
لوگوں کی تربیت کرکے مفید شہری بنانے میں اہم کردار کرتی رہیں ۔ پاکستان کی
تاریخ میں جماعۃ الدعوہ غیر سرکاری وہ واحد تنظیم ہے جو ملک و معاشرے کی
ترقی و اصلاح میں ہمہ جہتی کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ جماعتہ الدعوہ کا
فلاحی کا اس قدر بہترین ثابت ہوا کہ 2005ء کے زلزلہ میں ان کے تربیت یافتہ
کارکنان نے کندھوں پر سامان خدمت رکھ کر دور دراز اور کٹھن راستوں کی
سختیوں کو جھیلتے ہوئے پاکستانیوں کے زخموں پر مرہم رکھا ۔سیلاب کے دنوں
میں ڈوبتے پنجاب و سندھ کے باسیوں کی کشتیوں کے ذریعے محفوظ مقامات پہ
منتقلی اور پانی میں محصور لوگوں تک ضروریات زندگی کی سپلائی جماعۃ الدعوہ
کا ہی خاصہ ہے۔ فری ڈسپنریز اور ہسپتالوں میں صحت کی سہولیات جماعۃ الدعوہ
کے ذیلی اداروں میں بنا تفریقِ مذہب و نسل ملک کے تمام باشندوں کو مہیا کی
جا رہی ہیں۔
تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کا کردار ادا کرتی
ہے۔نسل نو کو اپنے نظریات، عقائد اور تاریخ کے اندر رہتے ہوئے جدید تعلیم
کی تمام سہولیات مہیا کی جاتی ہے۔ہمارا ملک اسلام اور نظریئے کی بنیاد پر
بنا ہے۔پاکستا ن کی تعلیمی پالیسی بنانے والوں نے نظریہ پاکستان اور اسلام
کے بنیادی اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے اسے جدیدیت کی طرف گامزن کرتے ہوئے
الحاد و سیکولرازم کا دروازہ کھولا ہے ۔پاکستان کے تعلیمی ادارے نظریاتی
منہج سے ہٹ کر عصری الحاد و مغربی طرز فکر کا شکار ہو چکے ہیں۔ایسے میں
جماعۃ الدعوہ نے اسلامی تعلیمات کو تعلیمی اداروں میں لانے میں اہم کردار
ادا کیا ۔اس کے ذیلی ادارے تعلیمی اداروں کی سطح پر جاکر نظریہ پاکستانی کی
آبیاری کرنے اور نسل نو کو اپنے اسلاف کا سبق پھر سے یاد دلارہے ہیں ۔قوموں
کی خوشحالی کو امن وامان سے نتھی سمجھا جاتا ہے ۔ملک پاکستان میں پچھلے ایک
لمبے عرصے سے اسلام و ملک دشمنوں نے فتنہ تکفیر، لسانیت ،صوبائیت اور دیگر
لایعنی اختلافات کی وہ آگ لگائی جو پورے ملک کو جلا کے راکھ کرنے کے درپے
تھی۔ان فتنوں کے خلاف جماعۃ الدعوہ ہی تھی جس نے علمی سطح پر اولین دستے کا
کام کیا ۔’’موجودہ اسلامی تحریکوں میں فکری بگاڑ اسباب،نقصانات ،تجزیہ
‘‘’’حرمت مسلم اور مسئلہ تکفیر ‘‘ اور ’’فتنہ تکفیر اور خوارج کی ابتداء و
اصلیت ‘‘ایسی کئی کتابیں جید علما ئے کرام سے لکھوائی گئیں ۔مولانا امیر
حمزہ کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو ’’سیرت‘‘ نامی کتاب
ارسال کی گئی جس کے جواب میں چھوٹے میاں نے ان کا شکریہ ادا کیا ۔قومی
سلامتی کے مشیر لیفٹینٹ جنرل (ر) نصیر خان جنجوعہ صاحب کو’’خارجی دماغ اور
ردالفساد ‘‘نامی کتاب بھجوائی گئی جس کے جواب میں مشیر قومی سلامتی نے
ممنونیت بھرے احساسات سے خط لکھا گیا ۔فتنہ تکفیر کے حوالے سے جماعۃ الدعوہ
والوں کی خدمات قابل ستائش ہیں ۔جب سارے مسالک کے ٹھیکیدار دہشت گردوں کے
ڈر سے خاموش تھے تو ی محب وطن جماعت ہی تھی جس نے ان خوارج کے خلاف
پاکستانی حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے تھے اور رائے عامہ ہموار کی تھی ۔
پاکستانیوں کی پیاس بجھانے کی بات آئی تو یہ لوگ اٹھے اور تھرو بلوچستان
میں کنویں اور پمپ لگا کر پیاس بجھانے میں اہم کردار ادا کیا۔بھارت نے
کلبھوشن یادیو ایسے جاسوسوں کے ذریعے بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کے لیے
کام شروع کیا تو یہ جماعت تب وہاں پہنچی جب پنجابی کو دیکھتے ہی گولی مار
دی جاتی تھی اور پنجابی کے لیے بلوچستان کے بڑے بڑے شہر نوگواریازبن چکے
تھے ۔آج بلوچستان اور سندھ میں پاکستانیت کے علمبردار لوگ جماعۃ الدعوہ کے
ہی ہیں۔ اپنے اور پرائے اس بات کو ماننے پہ مجبور ہیں کہ مسئلہ کشمیر کی
ترجمان اگر کوئی ہے تو صرف اور صرف جماعۃ الدعوہ اورحافظ محمد سعیدکی ذات
ہی ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر سے اٹھنے والی صداؤں میں حافظ محمد سعید کے نام
کی گونج لازمی ہوتی ہے ۔دختران ملت کی سربراہ آپا آسیہ اندرابی کی ویڈیو
میں حافظ محمد سعید کو محسن ایسے الفاظوں سے یادکیا گیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ
جماعۃ الدعوہ اور پروفیسر حافظ محمد سعید بھارتی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں ۔
کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنا ہی وہ جرم ٹھہرا جس کی
پاداش میں انڈیا کی خواہش پر امریکہ حافظ سعید کے خلاف ثبوت دینے والے کے
لئے دس لاکھ ڈالر کا اعلان کرتا ہے۔ایسے میں ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ان
تمام اعمال اور مقاصد کی بجاآوری پہ حکومت پاکستان اور اس کے ادارے جماعۃ
الدعوہ اور حافظ سعیدکے خدمت انسانیت کے کارناموں کو بطور دلیل دنیا کے
سامنے پیش کرتے لیکن مقام افسوس تو یہ ہے کہ ارباب اختیار مودی اور ہندوتوا
کے پروپیگنڈے کے زیر اثر امریکہ اور اقوام متحدہ کے ناروا اور ظالمانہ
فیصلوں اور پابندیوں کو بنا کسی ثبوت و دلیل مانگے اندھی چاپلوسی کے تحت
جماعۃ الدعوہ پہ پابندیاں لگانے کے لیے کبھی کوئی حکم جاری کرتی ہے تو کبھی
کوئی۔ان احکام کی بجا آوری کے تحت جماعت کے فلاحی ادارے فلاح انسانیت کو
کام کرنے سے روکا جاتا ہے کبھی حافظ سعید کو نظر بند کر دیا جاتا ہے۔ان
تمام ہتھکنڈوں کی ناکامی بذریعہ آزاد اور قابل تکریم عدالتوں کے شاہ سے
زیادہ شاہ کی وفادار حکومت وقت امریکہ انڈیا اور اقوام متحدہ سے بڑھ کر
بناکسی ثبوت کے صدر پاکستان کے ہاتھوں ایک ایسا متنازعہ اور ظالمانہ آرڈینس
منظور کرواتی ہے جو اپنا آپ باندھ کر دشمن کے آگے ڈالنے کے مترادف ہے۔کل کو
کوئی ایسا قانون اقوام متحدہ کے فورم سے پاکستان مخالف لابی منظور کروانے
میں کامیاب ہوجاتی ہے جس میں ایٹمی اثاثے لپیٹنے کی بات ہوتی ہے یاپھر پاک
فوج کے خلاف کچھ ایسا ویسا منظور ہوجاتا ہے تو اس قانون کے تحت ماننا ہوگا
! الامان الحفیظ حکومتی مشیران اور وزراء کیا سوچ کر اس طرح کے معاملات کو
منظور کررہے ہیں ۔ اب حکومت اس کو قانوں بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں پیش
کرنے جا رہی ہے۔سمجھ سے بالاتر ہے حکومتی اعمال مودی و ٹرمپ دوستی میں
پاکستان کو کس سمت لیکر جا رہے ہیں۔یہ بظاہر تو جماعت الدعوہ دشمنی میں
اٹھایا گیا قدم نظر آتا ہے۔لیکن یہ اصل میں پاکستان کی سالمیت وقار اور
مستقبل کو داؤ پہ لگانے والا قانون ہے۔اس قانون کے ذریعے اقوام متحدہ اور
اس کے کرتا دھرتا جب اور جیسے چاہیں گے پاکستان کو اپنے اشاروں پہ نچا سکیں
گے۔ |