امن اور تہذیب لازم و ملزوم ہیں، انسان کی تہذیب کا
پیمانہ اس کی امن پسندی ہے، کوئی شخص جتنا شدت پسند ہوتا ہے اتنا ہی غیر
مہذب بھی ہوتا۔ غیر مہذب لوگ امن پسندی کی جدوجہد کو بزدلی اور شدت پسندی
کو بہادری سمجھتے ہیں، دنیا میں اپنے آپ کو سپر پاور کہنے والا امریکہ کس
قدر مہذب ہے اس کا اندازہ عراق، افغانستان اور شام کے کھنڈرات سے لگایا جا
سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ہم لوگ بحیثیت پاکستانی کتنے مہذب ہیں اس کا بخوبی اندازہ،
قبرستانوں میں بے گناہوں کی قبروں سے کیا جا سکتا ہے۔ اور بحیثیت قوم ،
مسلمان اس وقت تہذیب و تمدن کے کس درجے کو چھو رہے ہیں اس کا پتہ ۱۴ اپریل
۲۰۱۸ کی شب سے لگایا جا سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے کی شب کو شام کے مقامی وقت کے مطابق تین بج کر پچپن منٹ پر
امریکہ فرانس اور برطانیہ کی جانب سے مسلمان ممالک کی پشت پناہی کے سبب شام
پر110 میزائیل حملے کیے گئے۔
ان حملوں کے لئے شام کے بشار الاسد پر وہی الزام لگایا گیا جو عراق کے صدام
پر لگایا گیا تھا یعنی کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام۔الزام لگانے
والے اتنی عجلت اور جلدی میں تھے کہ انہوں نے کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام
کی عالمی تنظیم او پی سی ڈبلیو کے نمائندوں کو اپنی تحقیقات بھی مکمل کرنے
کی مہلت نہیں دی۔ان کی تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے ہی حملہ کردیا گیا۔کچھ
لوگ اس حملے پر افسردہ ہیں کہ یہ حملہ ایک بڑی جنگ کی دستک ہے اور کچھ اس
پر خوش ہیں کہ یہ حملہ ناکام رہا جبکہ ایک طبقے کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ
کامیاب رہا۔
اگرچہ ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ حملہ ناکام ہی رہا ہے تاہم اس حملے میں
عالمِ بشریت کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے، چونکہ حملہ بالآخر حملہ ہی ہے
اور جنگ پھولوں کی مالا نہیں بلکہ آگ کا شعلہ ہوا کرتی ہے۔
اس جنگ کے آغاز پر بغلیں بجانے والوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ و
روس صرف اپنے مادی مفادات کے حصول کے لئے اس جنگ کے پارٹنر ہیں، اگر جنگ کے
شعلے بھڑکتے ہیں اور امریکی و روسی مفادات کو زِک پہنچتی ہے تو کبھی بھی
دوسروں کی خاطر امریکہ و روس اپنے ممالک کو جنگ میں نہیں دھکیلیں گے اور اس
کا سارا خمیازہ مسلمان ریاستوں کو ہی بھگتنا پڑے گا۔
سعودی عرب اپنے اتحادیوں کے ساتھ یمن اور بحرین میں جس آگ کو اپنے دامن کی
ہوا دے رہا ہے وہ آگ ایک طرف اور اسرائیل کو مضبوط کر کے اپنے لئے جو
شکنجہ تیار کررہاہے یہ دوسری سے طرف سعودی عرب کےمستقبل کے لئے بڑا خطرہ
ہے۔
اس خطرے کا اندازہ اس سے بھی لگا لیجئے کہ ۱۴ مئی ۱۹۴۸ کو جیسے ہی تل ابیب
ریڈیو سے اسرائیلی رہنما بن گوریان نے اسرائیل کی آزادی کا اعلان نشر کیا
تھا تو فوراً بلا فاصلہ سب سے پہلے امریکہ نے اسے آزاد ملک کے طور پر
تسلیم کیا تھا۔
بعد ازاں ایک صحافی نے امریکی صدر ہیری ٹرومین سے سوال کیا کہ ہمیں اسرائیل
کو تسلیم کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی کہ ہم نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اس سے دس
کروڑ عرب ہم سے ناراض ہوجائیں گے!
امریکی صدر نے برجستہ جواب دیا کہ میرے حلقہ انتخاب میں عرب نہیں بستے یعنی
مجھے ۶۰ لاکھ یہودیوں نے ووٹ دے کر صدر بنایا ہے دس کروڑ عربوں نے نہیں۔
یہ بڑی طاقتوں کی مشترکہ نفسیات ہے، انہیں اکثریت و اقلیت، جمہوریت اور
انسانی حقوق وغیرہ کے بجائے صرف اپنے مفادات عزیز ہوتےہیں۔
یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ اسرائیل تقریبا چار مرتبہ عرب ممالک کو شکست
دے چکا ہے لیکن یہ بھی پتھر پر لکیر ہے کہ خود اسرائیل وقت آنے پر ایران
اور شام سے ایک شکست بھی افوررڈ نہیں کر سکتا اور اس وقت سعودی عرب جو
وہابی ازم کے بعد لبرل ازم کے ذریعے اسرائیل اور یورپ کا سہارا لینا چاہتا
ہے اسے یہ نوشتہ دیوار ابھی سے پڑھ لینا چاہیے کہ روس اگر اپنے مفادات کے
پیشِ نظر شام سے نکل بھی جائے تو ایران کبھی بھی شام کو میدانِ جنگ میں
تنہا نہیں چھوڑے گا جبکہ امریکہ و اسرائیل کبھی بھی مشکل وقت میں سعودی عرب
کے کام نہیں آئیں گے۔
سعودی عرب پہلے بھی اس تلخ حقیقت کو چکھ چکا ہے کہ امریکہ اور یورپ نے
وہابی مدارس ،داعش، القائدہ اور طالبان کو صرف اپنے مفاد کے لئے استعمال
کیا ہے اور بے شک آج شام پر ایک سو دس میزائل داغے گئے ہیں لیکن اگر ایران
اور شام کی طرف سے جنگ کی اس دستک کا جواب دیا گیا تو پھر سعودی عرب یاد
رکھے کہ امریکہ کبھی بھی نقصان کے سودے میں حصہ دار نہیں بنتا۔
یہ سوال ہمیشہ اپنی جگہ موجود رہے گا کہ اگر شام پر حملہ کامیاب رہا ہے تو
پھر وہ کیمیائی ہتھیار کہاں گئے جن کی وجہ سے حملہ کیا گیا تھا اور اگر
میزائل اپنے ہدف پر نہیں لگے تو پھر کامیابی کس بات کی!?؟
|