شاہ‘ اس کے چیلے چمٹے گماشتے اور دفتری اہل کار زبانی
کلامی قسموں یہاں تک کہ لکھتوں پڑتوں پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کے نزدیک جعل
سازی کا عمل شروع سے چلا آتا ہے۔ لالچ لوبھ میں آ کر انسان ایمان تک بیچتا
آیا ہے۔ دوسرا چور یار ٹھگ کی قسموں پر یقین کر لینا کھلی حماقت کے مترادف
ہے۔ زبانی کا کون یقین کرے‘ رائی سے پہاڑ بنتا چلا آیا ہے۔ وہ پریکٹیکل پر
یقین رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک‘ کرنسی ثبوت ہی حق سچ کا علم بردار ہوتا ہے۔
ساتھ میں‘ نفیس خوش بو اور پرذائقہ پکوان حق سچ کو جلا بخشتا ہے۔ پیٹ میں
کچھ ہو گا تو ہی حق سچ کی کہی جا سکتی ہے۔ خالی پیٹ جو بھی فیصلہ ہو گا غلط
ہو گا۔ غلط فیصلے سوسائٹی میں انتشار اور فساد کا دروازہ کھولتے ہیں۔
اگرچہ اس سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیوں کہ وہ ہر نئے آنے والے
کے بھی اس کی آمد کے بعد وفادار بن جاتے ہیں۔ جی حضور جی سرکار جی جناب کا
انہوں نے پوری توجہ سے وظیفہ کیا ہوتا ہے۔ گیے کی کمیاں‘ کمزوریاں‘
کوتاہیاں اور خامیاں دل کے دفتر پر رقم کی ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود موجود کے
معقول ہونے کی صورت میں‘ نئے کی کچھ زیادہ خوہش نہیں کرتے۔ خدا جانے نیا
کیسا ہو اور ساتھ آئے چمچے کڑچھے‘ انہیں اس کے نزدیک جانے دیں یا نہ جانے
دیں۔ گویا نئے کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے میں‘ کچھ تو وقت لگے گا ہی۔
نیا آنے کی بجائے‘ محدود وقت تک سہی‘ موجود پرانا گرہ سے جائے گا۔ گرہ کا
احساس کہتری انہیں کسی بھی حالت میں گوارہ نہیں ہوتا۔ رہ گئی عزت یا وقار
کی بات‘ اس کا کیا کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ ہاں کھیسہ جتنا فربہ ہو گا‘
عزت میں اسی تناسب سے اضافہ ہو گا۔
لاڈو کا اصل نام تو منزہ خانم تھا لیکن اس کے مائی باپ اکلوتی ہونے کے سبب‘
اسے پیار سے لاڈو کہا کرتے تھے۔ پھر یہ ہی نام عرف میں آ گیا۔ سسرال میں آ
کر بھی‘ یہ ہی نام رواج پا گیا۔ یہاں تک کہ اس کا بندہ جیجا بھی اسی نام سے
پکارنے لگا۔ لاڈلی ہونے کے باعث اس کی عادتیں ہی نہ بگڑی تھیں‘ مزاج بھی
بگڑ گیا تھا۔ سوہنی سونکھی اور اچھا لباس زیب تن کرنے سے اور بھی نکھر نکھر
جاتی تھی۔ محلے کے گھبرو مر مر جاتے لیکن وہ کسی کو گھاس نہ ڈالتی۔ جب تک
مائی باپ کے گھر رہی‘ اس کا کردار یہ سب ہونے کے باوجود صاف ستھرا رہا۔
کوئی اس کے کردار پر انگلی نہ اٹھا سکتا تھا۔ ہر کوئی اس کے باکردار ہونے
کی گواہی دیتا تھا۔
سسرال میں میں آ کر کچھ عرصہ سگنوں کا گزار کر اسے اپنے گھر کی ذمہ داری
سمبھالنا ہی تھی۔ کوئی ہنر اور کسب اس کے ہاتھ میں نہ تھا‘ پکی پکائی کھاتی
تھی۔ اب اسے پکا کر کھانا اور خاوند کو کھلانا تھا۔ جیجا سارا دن کام میں
جان کھپاتا تھا‘ رات کو گھر کی پکی کھانا اس کا حق تھا۔ لیکن سوائے لاڈ
نخرے کچھ ہاتھ نہ لگتا۔ بےچارہ صبر شکر کے گھونٹ پی کر رہ جاتا۔ آتی بار
بازار سے کچھ لے آتا۔ مزے کی بات یہ کہ وہ بھی بھوکی رہتی اور اس کے آنے کا
انتظار کرتی کہ آتے ہوئے بازار سے کھانے کے لیے کچھ لیتا آئے گا۔ یہ سلسلہ
کب تک چل سکتا تھا۔ بازار کا کھانا وارہ بھی نہیں کھاتا۔
ابتدا میں کام سے لیٹ ہو جاتا تو رٹا ڈال کر بیٹھ جاتی کہ اتنی دیر کیوں ہو
گئی۔ کہاں اور کس کے پاس جاتے ہو۔ ضرور تم نے باہر کوئی رکھی ہوئی ہے۔ لاکھ
قسمیں کھاتا لیکن کہاں‘ وہ کسی قیمت پر یقین کرنے پر تیار نہ ہوتی۔ اس کا
اسے ایک حل مل گیا آتے ہوئے کوئی ناکوئی تحفہ ساتھ لے آتا۔ کبھی نقدی دے
دیتا تو اس کی زبان کو تالہ لگ جاتا۔ اگر کبھی کوتاہی یا کم زور گرہ آڑے آ
جاتی تو وہی کل کلیان شروع ہو جاتی۔ شک کی زد میں آ کر سکون غارت کر لیتا۔
اب اس کی سمجھ میں آ گیا کہ یہ شاہ اور شاہ والوں کے قدموں پر ہے۔ قسموں
وغیرہ کی یہاں کوئی قدر قیمت نہیں‘ یہاں تو کرنسی ثبوت ہی کام آ سکتے ہیں۔
محنت اور حلال کی کمائی میں‘ اوپر تلے کرنسی ثبوت فراہم کرنا ممکن ہی نہیں۔
ہاں ایک بات اس کے کریڈٹ میں جاتی تھی کہ لاڈو معمولی سے کرنسی ثبوت پر بھی
راضی ہو جاتی بل کہ بھرپور خوشی کا اظہار کرتی۔
بازار سے کھانا لانا اور ہر روز بازاری کھانا کھانا‘ بلا شبہ بڑا کھٹن گزار
کام تھا۔آخر اس نے اس سے چٹھکارے کا بھی طریقہ سوچ ہی لیا۔ کام سے آ کر
تحفہ یا نقدی لاڈو کی تلی پر دھرتا پھر تھوڑا ریسٹ کرنے کے بعد کچن میں گھس
جاتا۔ لاڈو کو آواز دیتا۔ کچن کا کام جانتا تھا۔ لاڈو کو بھی بڑے پیار سے
ساتھ میں مصروف کر لیتا۔ ابتدا میں اس سے چھوٹے موٹے کام لیتا رہا۔ آہستہ
آہستہ لوڈ بڑھاتا گیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ لاڈو کچن کے امور سے واقف ہو
گئی۔ بعد ازاں تقریبا اس نے کچن کے کام سے ہاتھ کھینچ لیا۔ وہ ہی کام کرنے
لگا جو ابتدا میں لاڈو کیا کرتی تھی۔ لاڈو کو یہ محسوس تک نہ ہوا کہ جیجا
کچن کے اصلی کام سے دور ہٹ گیا ہے۔
ایک دن وہ دونوں کچن میں مصروف تھے کہ جیجے کا پاؤں اللہ جانے قدرتی یا جان
بوجھ کر پھسلا اور وہ بلاتکلف کچن کے فرش پر آ رہا۔ ہائے ہائے کی آوازیں
نکالنے لگا۔ لاڈو اسے سمبھالا دے کر چارپائی تک لے آئی۔ اس کی کمر اور
ٹانگیں دبانے لگی۔ پریشانی اس کے چہرے پر صاف دکھائی دینے لگی۔ اس کا مطلب
یہ تھا کہ وہ اس سے پیار بھی کرتی تھی۔ ٹانگیں دباتے پورا زور لگا رہی تھی۔
جیجے کو بڑا ای سواد آیا۔ یہ مزا ہی الگ سے تھا۔ پھر وہ گھبرا کر محلہ کے
ڈاکٹر کے پاس جانے لگی۔
اس نے کہا: رہنے دو‘ میرے پاس اتنے فالتو پیسے نہیں جو ڈاکٹر کی دواؤں پر
خرچ کرتا پھروں۔ یہاں سے فارغ ہو کر ریت گرم کرکے ٹکور کر دینا۔ ان پیسوں
سے تمہارا گوٹے کناری والا دوپٹہ لانا ہے۔ کتنی اچھی اور پیاری لگو گی۔
جیجے کی بات سن کر لاڈو کا چہرا خوشی سے سرخ ہو گیا۔ اس نے دل میں سوچا
جیجا مجھ سے کتنا پیار کرتا ہے۔
لاڈو نے جوابا کہا: ہائے میں مر جاں تم سے پیسے اچھے ہیں۔ بہرطور اس نے نہ
جانے دیا کیوں کہ وہ اس مزے سے ہاتھ دھونا نہیں چاہتا تھا جیجا شام تک ناز
نخرے دکھاتا رہا لیکن اس نے کرنسی ثبوت لاڈو کی ہتھیلی پر نہ رکھا کہ کہیں
پیسوں کے نشہ میں‘ اپنا جاری کرتوے ہی نہ فراموش کر دے۔
اس نے نے اگلا دن بھی گھر پر گزارا اور لاڈو سے نازبرداریاں کرواتا رہا۔
ہاں البتہ اگلے دن چارپائی سے اٹھ گیا اور لاڈو کا کندھا پکڑ کر غسل خانے
وغیرہ جاتا رہا۔ اس دورانیہ میں لاڈو نے کچن سمبھالے رکھا۔ اب وہ ٹھیک سے
کوکنگ کرنے لگی تھی۔ تھوڑی بہت کمی رہ ہی جاتی ہے‘ جو آہستہ آہستہ دور ہو
جاتی ہے۔ اگلے دن کام پر جانے لگا تو لاڈو نے کہا رہنے دو کام تو ہوتے رہتے
ہیں۔ اپنی جان کا خیال کرو۔ وہ مسکرا کر کہنے لگا بھلی لوکے کام نہیں کریں
گے تو کھائیں گے کہاں سے۔ ہاں وہ گوٹے کناری والا دوپٹہ بھی تو لانا ہے۔
پھر وہ لاٹھی کے سہارے چلتا ہوا دروازے سے باہر نکل گیا۔
وہ جانتا تھا‘ آج لاڈو خلاف معمول دروازے پر کھڑی بڑے پیار سے‘ اسے جاتا
ہوا دیکھ رہی ہے۔ وہ جوں کی چال چل رہا تھا اور پیچھے مڑ مڑ کر دیکھ رہا
تھا۔ لاڈو واقعی کھڑی تھی۔ کبھی وہ کسی گھر کی دیوار کی ٹیک لے کر کھڑا ہو
جاتا اور پیار سے ہاتھ ہلاتا۔ اب وہ نظر نہیں آ رہا۔ اس امر کی بہرطور اس
نے تسلی کر لی۔ پھر اس نے لاٹھی بگو نائی کے حمام میں رکھی اور تیز قدموں
اپنے دھندے کی جانب بڑھ گیا۔ شام کو اس نے بازار سے گوٹے کناری والا دوپٹہ
خریدا۔ واپسی پر بگو نائی کے حمام سے لاٹھی لی اور گھر میں داخل ہوتے ہی
صبح والی ایکٹنگ دوہرائی۔ لاڈو نے دوڑ کر اسے پکڑا اور آرام سے چارپائی پر
بٹھا دیا ایسے جیسے ابھی ابھی چوٹ لگی ہو۔ گوٹے کناری والا دوپٹہ لے کر وہ
اور بھی خوشی سے پاگل ہو گئی۔ اس نے جلدی جلدی اس کے ہاتھ دھلائے اور کھانا
جو آج اس نے خود ہی بنایا تھا‘ جیجے کے سامنے پروس دیا۔
یہ عمل کئی دن چلا۔ آخر کب تک‘ اسے پتہ چل گیا کہ جیجا یہ سارا ڈرامہ رچاتا
رہا ہے۔ پھر کیا تھا‘ جوں ہی وہ اداکاری کرتا ہوا گھر میں داخل ہوا‘ لاڈو
نے اس کے ہاتھ سے لاٹھی پکڑ کر زمین پر پٹخ دی۔ قسمت اچھی تھی‘ ورنہ غصہ
میں دو چار اس کی ٹانگوں پر بھی جڑ سکتی تھی۔ اسے معلوم ہو گیا کہ ڈھول کا
پول کھل گیا ہے۔ وہ مردہ قدموں چل کر چارپائی پر آ بیٹھا۔ پھر کیا تھا‘
رانی توپ کا دھانہ اپنے شباب میں آ گیا۔ جھوٹا تھا‘ چپ رہنے کے سوا اور کر
بھی کیا سکتا تھا۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا کہ وہ لاٹھی حمام میں
رکھتا رہا ہے۔ حمام میں بات کا جانا‘ پورے علاقہ کیا پورے ملک میں آ جانے
کے مترادف ہے۔
لاڈو نے گرج دار آواز میں کہا: باہر ٹھیک ہوتے ہو گھر میں داخل ہوتے ہی
تمہیں بیماری پڑ جاتی ہے‘ تمہاری ٹانگیں دبا دبا کر میرے ہاتھ رہ گئے ہیں۔
اس کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا‘ پھر بھی اس نے کہا: گرا گھر میں تھا یا
باہر۔ باہر گرتا تو بیماری باہر پڑتی۔
مزید گرجنے کی بجائے اس کا جواب سن کر لاڈو کا ہاسا نکل گیا۔ جوں ہی لاڈو
کے منہ سے یہ پھول پھوارہ پھوٹا اس نے جلدی سے لاڈو کو گلے سے لگا لیا اور
اس کے گلے میں بڑا ہی خوب صورت ارٹیفیشل ہار ڈال دیا۔ لاڈو کا بولارا خوشی
میں بدل گیا۔ جو بھی سہی‘ اس کے اس ڈرامے کے نتیجہ میں‘ لاڈو کھانا پکانے
کے ساتھ ساتھ گھر کے دوسرے کام بھی انجام دینے لگی۔ یہ ساری کرامت اس کرنسی
ثبوت کی تھی‘ جو لاڈو کے گلے میں پڑا اپنی حیثیت اور اہمیت بڑے دھڑلے سے
جتا اور منوا رہا تھا۔ |