سونے کے پانی سے رنگین سکندر خان کا ماؤزر اس کے ہاتھ میں
تھا،،،،! اس کا
رخ آفندی کا ماتھا تھا،،،!!
تیری دونوں آنکھوں کے بیچ اک سوراخ اور بنانا ہوگا،،دیکھوں تو کسی بے وقوف
سے بہادر کے خون کا رنگ اور اس کے بہنے کی رفتار کس قدر ہوتی ہے،،،!!!!
آفندی نے اپنے آپ کو سکندر خان کے اور بھی قریب کرلیا،،،!
بزدل جتنا بھی گوشت کھا لیں،،،انکی ہڈی کھوکھلی ہی ہوتی ہے،،،بےغیرت
انسانوں کی طاقت خدا سلب کرلیتا ہے،،،جو دوسروں کی جان،،،مال،،،عزت کو
پاؤں تلے روندھنا بہادری سمجھتےہیں،،،ان کا لہو دوڑتا نہیں،،،بس بہتا ہی ہے
آفندی کو اپنی گن کے اس قدر قریب آتا دیکھ کر سکندر خان کے ہاتھ کپکپا
سے گئے۔۔۔!
اس نے ہمیشہ انسانوں کو اپنے سامنے گڑگڑاتے ہی دیکھا تھا،،،اس نے کسی
انسان کی چنگھاڑ پہلی دفعہ ہی سنی تھی،،،!
کیا تم پاگل ہو،،،یا،،،موت کو دیکھ کر ہوش و حواس کھو بیٹھے ہو،،،؟
سکندر خان کی بات کے جواب میں آفندی طوفانی گرجدار لہجے میں بولتا چلا،،
گیا،،،!!
تیری بنک لوٹنے والی پارٹی حیدر آباد سے پکڑی گئی ہے،،،!
تیرا ڈاکٹر پورے عملےسمیت ہیڈ کوارٹر میں اک اک کہانی سنا رہا ہے،،،!
تیرے دوست جو وادی میں پھیلے ہوئے تھے ،،ہمارے لوگوں کے پاس رحم کی
بھیک مانگ رہے ہیں،،،!
بارڈر پر موجود تیرے غلام اب اوپر جانے کو ہیں،،،!!
بارڈر پار کے لوگ گن سلپ ہیلی کاپٹر کی نظر ہورہے ہیں،،ان بزدلوں کو انتظار
تھا
تمہارے ساتھیوں کا،،،ملی موت،،،!!
سکندر خان کےساتھیوں میں بے زبان سی کھسر پسر شروع ہوگئی تھی،،،بکواس بند
کرو،،،خنزیر،،،!!
سکندر خان کے آخری الفاظ اس کے حلق سے پوری طرح باہر ہی نہیں آ
پائے،،،اور،،،
۔۔۔۔(جاری)۔۔۔۔
|