اکثر فلموں میں دیکھا کرتے تھے کہ دو دلوں کے درمیان ظالم
سماج دیوار بن کر کھڑا ہو جاتا تھا ۔ اُس وقت سماج کی سمجھ نہیں آتی تھی ۔
اب سمجھ آی کہ سماج تو ہم خود ہیں اور فلم میں ولن villain کے کردار کو
پسند نہیں کرتے مگر حقیقت میں ولن کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں ، کسی گھر
کے افراد دوستوں اور دو محبت کرنے والوں کے درمیان اور اسٹبلشمنٹ کی صورت
یا بے جا مخالفت حزب اختلاف کی صورت اور اب تو بات انصاف کے کٹہرے تک جا
پہنچی ہے
میرا زاتی تجربہ رہا کہ لوگوں کو باپ بیٹے کی محبت بھی اکثر پسند نہیں آئ
اور اُس کو بھی متأثر کر کے ہی چھوڑا اور کسی کا دل توڑا اور کسی اور رستے
کی طرف موڑا
ازدواجی رشتے کے ساتھ بھی جو کچھ ہوتا آیا ہے اُس کے نتائج منظر عام پر آتے
رہتے ہیں اور لوگ کیا کیا گُل کِھلاتے رہتے ہیں یہاں تک کے عدالتوں میں
رُلاتے رہتے ہیں
کسی کے گھر میں بے جا مداخلت کیا رنگ دکھاتی ہے اور کسی ادارے کی بے جا
مخالفت کا اُس کی کارکردگی پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں یہ ہے غور طلب ، توجہ
طلب کہ روشن ہو جاۓ دماغ میں بلب
سماج ظالم تب ہوتا ہے جب ہم اسے اہمیت دے کر اُسے سر پر بٹھاتے ہیں
سماج کی دیوار آدمی خود بنیاد سے اُٹھا کر تیار کرتا ہے ، اُس کی ترائ کر
کے مضبوط کرتا ہے اور پھر اُسی کو بُرا بھلا کہتا ہے اور پریشان ہوتا ہے۔
ہم کہنے کو آزاد مگر سماج کی زنجیروں میں جکڑے قیدی ہیں
سماج بتاتا ہے کہ کیا کھانا ہے کیسے رہنا ہے کیا پہننا کیا اوڑھنا کیا
خریدنا کیا بولنا
وغیرہ وغیرہ
اب تو سماج اون لائن ہو گیا ہے اور دوسروں کے فیصلے سزا اور جزا بھی وہی طے
کرتا ہے اور کب کس کی عزت اُچھالنا ہے اور جزبات اُبالنا ہے اور اپنے من
پسند کو اُجالنا ہے
انسان اپنے فیصلے خود کرتا ہے یا سماج کرتا ہے لیکن پھر تقدیر اپنا اٹل
فیصلہ سُنا دیتی ہے
کچھ لوگ سماج کی دیوار بنّے کے بجاۓ سماجی کارکن بننا پسند کرتے ہیں اور
ایسے افراد ہر گلی ہر شہر میں موجود ہوتے ہیں
جو دوسروں کے لیے آسانیاں فراہم کرتے ہیں اور ایسے بہت سے مثبت سوچ والے
سماجی ، جگہ جگہ ایدھی کی صورت موجود ہوتے ہیں
فلموں میں تو سماج دو محبت کرنے والے مرد اور عورت کے درمیان آتا ہے مگر
حقیقی زندگی میں تو ہر بات میں ٹانگ اڑانا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے اور اب
تو سماج نئ نئ مزہبی اشکال میں آکر حقیقی مزہب سے دور کرنے کا سبب بھی بن
رہا ہے
میں نے اکثر دیکھا ہے ایک آدمی اچھا خاصا خوش اور مطمئن ہوتا ہے مگر کوئ
دوسرا شخص ایسا جُملہ بول دے گا یا کسی محرومی کا احساس دلاۓ گا جس سے وہ
غمزدہ ہو جاۓ گا اگر کمزور سوچ کا ہو گا ۔ اسی صورت حال میں مضبوط خیال کا
آدمی ایک جملے سے سماج کی بے جا مداخلت کا دروازہ بند بھی کر سکتا ہے
اس وقت لوگوں کی اکثریت پر جو معیشت کا بوجھ ہے وہ بھی سماج کی عائد کردہ
خود ساختہ ضروریات اور بے مقصد رسومات ہیں جن کی کچھ عرصہ پہلے ضرورت ہی نہ
تھی اور اُن کے بغیر بھی اچھی بھلی زندگی گزر رہی تھی
سماج کو جتنا بھی راضی کرتے جائیں وہ راضی ہو کر نہیں دیتا اور اسے راضی
کرتے کرتے خدا سے دور نہ ہو جائیں |