حالیہ ہفتوں میں تھائی لینڈ اور فلپائن میں حکام نے اپنے
دو مشہور سیاحتی مقامات کو سیاحت کے لیے بند کر دیا ہے۔ پہلے، تھائی لینڈ
کے حکام کا کہنا تھا کہ ساحلی مقام خلیج مایا پر یہ وقفہ نافذ کرنا ضروری
تھا جہاں سنہ 2000 میں ریلیز ہونے والی فلم ’دی بیچ‘ کے بعد سے سیاحوں کا
رش لگا رہتا ہے۔
پھر فلپائن کے صدر رودریگو دوترتے نے اعلان کیا کہ بورا کا جزیرہ بھی کچھ
ماہ کے لیے بند رہے گے جو ان کے الفاظ میں ’گندگی کا پرہجوم ڈھیر بن چکا ہے۔‘
|
|
لیکن یہ صرف ایسی جگہیں نہیں ہیں۔ کئی یورپی شہر جس میں وینس اور دبروونک
اور سکاٹ لینڈ کا آئل آف سکائی بھی شامل ہیں سیاحوں کی بہتات کے بارے میں
شکایات کر چکے ہیں۔
سنہ 2017 میں بارسیلونا نے ’ایئر بی این بی‘ نیٹ ورک کے ذریعے بغیرلائسنس
والی عارضی رہائشوں کے خلاف حکام نے کارروائی کا آغاز کیا تھا، ان کا کہنا
تھا کہ اس سے مقامی آبادی کے لیے کرایوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔
دیگر سیاحتی اور تاریخی نوعیت کے مقامات کے تحفظ کے لیے سیاحوں کی فیسوں
میں اضافہ کر دیا ہے۔ روانڈا میں اب گوریلے دیکھنے کے پرمٹ کی ایک دن کی
فیس 1500 ڈالر ہے۔
ذیل میں دنیا کے پانچ ایسے مقامات کا ذکر ہے جو اپنی شہرت کی وجہ سے سیاحوں
کے رش سے نبرد آزما ہونے کے راستے تلاش کر رہے ہیں۔
تھائی لینڈ: مایا ساحل پر چار ماہ کی پابندی
|
|
مارچ میں تھائی حکام نے اعلان کیا کہ وہ ملک کے مشہور مایا ساحل کو بند کر
رہے ہیں تاکہ سیاحوں کو کچھ عرصہ یہاں سے دور رکھا جا سکے۔
لیونارڈو ڈی کیپریو کی فلم ’دی بیچ‘ یہاں فلمائی گئی تھی جس کے بعد سے اس
ساحل پر روزانہ چار سے پانچ ہزار سیاح آتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مایا ساحل کے 77 فیصد مونگوں کی جھاڑیوں کو سخت خطرے
کا سامنا ہے خاص طور پر کشتیوں کے لنگر سے انھیں نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس سال
جون سے ستمبر تک مجوزہ چار ماہ کا وقفہ اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتا۔
تو کیا اس کو بچانے کے کام میں تاخیر ہوگئی؟
بنکاک میں مقیم میرین سائنسدان تھون تھمرونگناوسوت کے خیال میں ایسا نہیں
ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’اگر ہم یہ سمجھتے کہ بہت دیر ہوچکی ہے، تو ہم
کچھ نہ کرتے۔‘
’ہم نے تین سال پہلے کوہ یونگ جزیرہ بند کر دیا تھا اور وہاں اب مونگے اچھی
طرح بڑھ رہے ہیں۔ ہم مایا ساحل پر بھی یہی عمل دہرائیں گے اور کچھ مونگے
یہاں پیوند کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔‘
تھائی لینڈ نے سنہ 2011 میں درجنوں پیراکی کے مقامات سیاحوں کے لیے بند کر
دیے تھے۔ پھی پھی جزائر میں کوہ یونگ اور سیمیلن آئی لینڈز نیشنل پارک میں
کوہ ٹچائی کو بھی سنہ 2016 کے وسط سے سیاحوں کے لیے بند کیا گیا ہے۔
اٹلی: چنکوئے ٹیرے میں ٹیکنالوجی کا
استعمال
شمالی اٹلی میں چنکوئے ٹیرے کے نام سے معروف رنگ برنگے پانچ پہاڑی قصبے
سیاحوں کا پسندیدہ مقام ہیں۔ اس علاقے میں 5000 رہائشی آباد ہیں اور سنہ
1999 میں یہ قومی پارک بن گیا تھا، اور اب ہر سال یہاں 20 لاکھ سیاح آتے
ہیں۔
|
|
لوگ ان قصبوں اور انگوروں کے باغات تک جانے والے راستوں پر ہائیکنگ کرتے
ہیں۔ کئی سالوں سے استعمال ہونے والے راستے اب حد سے زیادہ استعمال اور
کٹاؤ کی وجہ سے خراب ہورہے ہیں۔
رئیومگوئر اور منرولا قصبوں کے درمیانی راستے کو ستمبر 2012 سے بند کر دیا
گیا ہے، جب آسٹریلوی سیاحوں کا ایک گروہ تودہ گرنے سے زخمی ہوا تھا۔ لا
نزوئن ویب سائٹ کے مطابق سنہ 2018 میں ایسٹر کی چھٹیوں میں ایک دوسرے راستے
پر ایک ہائیکر زخمی ہوا تھا۔
سیاحوں کی تعداد محدود کرنے کے بارے میں بہت سی باتیں ہوئیں لیکن تاحال
ایسا کچھ نہیں ہو سکا۔
حال ہی میں پارک حکام نے ایک ٹریلنگ ایپ متعارف کروائی ہے، جس کےذریعے
سیاح دیکھ سکتے ہیں کہ اس وقت مختلف راستوں پر کتنے افراد ہیں۔
جب ایپ سرخ نشان دکھائے تو اس کا مطلب ہے کہ راستہ پرہجوم ہے اور وہ اپنا
ذہن بنا سکتے ہیں کہ وہ اس بھیڑ میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا نہیں۔
سیاحوں کو چنکوئے ٹیرے کارڈ خریدنے کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جس کے
ذریعے وہ پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ کارڈ حاصل کرنا
لازمی نہیں ہے لیکن یہ عمل راستوں کی مرمت اور دیگر امور کی جانب ایک قدم
ہے۔
گرین ٹریولر ڈاٹ کام سے منسلک رچرڈ ہموڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ دنیا بھر
میں یہ تبدیلی کا بہترین وقت ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’لوگ اس بارے میں مزید باشعور ہو رہے ہیں کہ وہ کیسے سفر
کر رہے ہیں اور وہ کیسے رہ رہے ہیں۔‘
’مثال کے طور پر، صرف گذشتہ ایک سال میں پلاسٹک کے استعمال کے بارے میں
مزید آگہی پھیلی ہے اور یہ دیگر علاقوں کے لوگوں کی زندگیوں میں پھیل رہی
ہے، جو تبدیلی کے لیے مزید سازگار ماحول بنا رہی ہے۔ یہ حکومتوں اور مقامی
حکام کے لیے راستہ فراہم کرتی ہیں کہ وہ اپنا کردار ادا کریں کیونکہ انھیں
اب اس ردعمل کا سامنا نہیں ہوگا جو ماضی میں رہا تھا۔‘
پیرو: ماچو پیچو میں مقررہ وقت
پیرو میں ماچو پیچو کا قدیم انکا قلعہ بہت سی معروف سیاحتی فہرستوں میں
شامل ہے۔
|
|
اس کے مشہور انکا ٹریل کے ذریعے سیاح اینڈین علاقے کے خوبصورت منظر اور
بادلوں میں گھرے جنگلوں کا نظارہ کر سکتے ہیں جس کے بارے میں بہت سے لوگوں
کا کہنا ہے کہ یہ ایک بھرپور تجربہ ہے۔
تاہم بہت زیادہ لوگ اور بہت زیادہ غیررسمی آپریٹرز کی وجہ سے راستوں کو
نقصان پہنچا ہے، گندگی کے ڈھیر اور حد سے زیادہ خیمہ گاہیں ہیں۔
سنہ 2005 میں پیرو کی حکومت نے ہر سیزن میں ہائیک کرنے والے افراد کی تعداد
محدود کر دی تھی۔ یہ ہر سال فروری میں صفائی اور مرمت کے لیے بند بھی کر
دیا جاتا ہے۔
سیاح اب پہلے سے بکنگ کرواتے ہیں اور ٹور کمپنیاں کو اپنے مقررہ پرمنٹس
قائم رکھنے کے لیے ضابطہ کار پر عمل کرنا پڑتا ہے۔
لیکن اس کے باجود سیاح اپنے طور پر ماچو پیچو جاتے ہیں جہاں بذریعہ سڑک
پہنچا جا سکتا ہے۔
گذشتہ سال حکام نے ایک نیا نظام متعارف کروایا۔ سیاحوں کی تعداد پر قابو
پانے کی کوشش میں سیاحوں کو صبح کے وقت یا شام کے وقت کا ٹکٹ خریدنے کا عمل
بھی شامل تھا۔
تاہم ایک مقامی ماہر ماحولیات نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں ڈر ہے کہ یہ
جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ ہے۔ اس مقام پر یونیسکو کے تجویز کردہ 2500
یومیہ سیاح کی حد سے زیادہ لوگ آتے ہیں۔
جیجو جزیرہ: جنوبی کوریا
کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دنیا کا مصروف ترین فضائی روٹ کون سا ہے؟
|
|
گذشتہ سال یہ جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول سے جیجو جزیرے کا تھا، جو
ساحل سے 90 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک سیاحتی مقام ہے۔
لوگ یہاں آتش فشانی مناظر، دلکش آبشاریں اور دلربا تفریحی پارک دیکھنے آتے
ہیں جو ہنی مون منانے والوں میں معروف ہے۔
سنہ 2017 میں ان دونوں ہوائی اڈوں کے درمیان 65,000 پروازیں اڑیں، یعنی 180
پروازیں یومیہ۔ چائنہ مارننگ پوسٹ کے مطابق ہر سال ڈیڑھ کروڑ سیاح اس جزیرے
پر آتے ہیں۔ 2000 مربع کلومیٹر پر پھیلے اس جزیرے کے حساب سے یہ تعداد بہت
زیادہ ہے۔
ایک احتجاج کرنے والے مقامی گروپ کے ڈائریکٹر کینگ وون بو نے کوریا ٹائمز
کو بتایا: ’(جیجو میں) کبھی جراثیم سے پاک ماحول تھا، غیرمقامی افراد میں
اس کی شہرت سے اس کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ اب زیادہ ٹریفک جام اور گندگی ہے۔‘
سیئول میں مقیم سیاحتی مشیر کیتھرین گرمیئر ہمل نے بی بی سی کو بتایا کہ
’جزیرے پر بہت سے سیاح سمندری راستے سے آتے ہیں، جو یہاں چند گھنٹے قیام
کرتے ہیں اور مقامی معیشت پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوتے۔‘
گرمیئر ہمل کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں سیاحت کی کامیابی کو آنے والے
افراد کی تعداد میں ناپا جاتا ہے، اور اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس جانب جلد توجہ نہیں دی جائے گی۔ جنوبی کورین
حکومت جنوبی جیجو میں ایک اور ہوائی اڈے کی تعمیر پر غور کر رہی ہے، اور ان
کے مطابق یہاں 2035 تک سیاحوں کی تعداد تین گنا زیادہ ہوتے ہوئے ساڑھے چار
کروڑ سالانہ ہو جائے گی۔
جیجو جزیرے پر آنے والے افراد میں زیادہ تر چینی سیاح شامل ہیں۔
تاہم گذشتہ سال چین نے ٹریول ایجنسیوں پر جنوبی کوریا کے ٹور پیکجز کی
فروخت پر پابندی عائد کر دی تھی، جس کی وجہ سیئول کی جانب سے امریکی تیار
کردہ میزائل دفاعی نظام کی تنصیب کے خلاف چین کا احتجاج تھا۔ یہ پابندی اب
ہٹا دی گئی ہے۔
کولمبیا: کائنیو کریستالیس میں ضابطہ کار
کولمبیا میں کائنیو کریستالیس ایک غیرحقیقی مقام ہے۔ یہ ایک دریا ہے جو
سرخی مائل رنگ کا نظر آتا ہے۔
|
|
آبی پودوں اور روشنیوں کے منعکس کرنے سے یہ سرخ، گلابی، سبز اور پیلا
دکھائی دیتا ہے۔ وسطی میٹا صوبے کے مقامی افراد اسے بہتی ہوئی قوس و قزع
کہتے ہیں۔
یہ مقام پہلے فارک گوریلا باغیوں کے قبضے میں تھا یعنی یہاں علاقائی اور
غیرملکی سیاحت بالکل نہ ہونے کے برابر تھی۔
لیکن حالیہ برسوں میں بالخصوص سنہ 2016 میں امن معاہدے پر دستخط کے بعد
سیاح ملک کے ان حصوں میں جا رہے ہیں اور اس چھوٹے سے قصبے میکارینا میں
قیام کرتے ہیں۔
کائنیو کریستالیس میں آنے والے سیاحوں کی تعداد دیگر سیاحتی مقامات کے
مقابلے میں خاصی کم ہے (سنہ 2016 میں 16،000) لیکن اسے اس غیرمتوقع آمد اور
یہاں کے ماحولیاتی نظام کے درمیان توازن قائم رکھنے میں مشکل صورتحال کا
سامنا ہے۔
اس بارے میں خدشات پائے جاتے ہیں کہ علاقے میں زیادہ لوگوں سے آلودگی میں
اضافہ ہونے کا خطرہ ہے اور قیمتی آبی پودوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
|
|
ایک ابھرتے ہوئے سیاحتی مقام کے طور پر یہاں کئی قواعد وضوابط نافذ کیے گئے
ہیں: پلاسٹک کی بوتل اور پانی میں سن سکرین یا مچھر مار دوا ممنوع ہے، کچھ
علاقوں میں تیراکی پر پابندی ہے۔ سگریٹ نوشی، مچھلیوں کا کھانا ڈالنے پر
بھی پابندی ہے۔
یہاں آنے والے سیاحوں کو اس بارے میں مکمل طور پر آگاہ کیا جاتا ہے۔
کائنیو کریستالیس کے سیاحتی بورڈ کے صدر ہینری کوئیویڈو کا کہنا ہے کہ یہاں
سینکڑوں کی تعداد میں ٹور گائیڈز اور میزبانی کے فرائض انجام دینے والے
خاندانوں کو اب تربیت اور دیگر زبانیں سکھائی جارہی ہیں۔
بہرحال اس کے باوجود پروازوں میں اضافے (زیادہ تر لوگ بوگاٹا سے آتے ہیں جو
170 میل شمال میں واقع ہے) اور میکارینا سے دریا تک اپنی گاڑیوں تک کے سفر
سے ماحولیاتی خدشات پائے جاتے ہیں۔
دسمبر میں دریا تک رسائی محدود کر دی گئی تھی۔ ایکوٹورازم پروگرام کے
کوآرڈینٹر فیبر راموس نے سیمنا سوسٹین اینل ویب سائٹ کو بتایا: ’انسانوں کی
موجودگی پودوں کی نشوونما کے عمل کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس لیے ہم نے
پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘ |
Partner Content: BBC URDU
|