تحریر : طہ منیب
مسئلہ کشمیر اپریل کے مہینے ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہوا
ہے۔ صرف اسی مہینے میں تین بڑے ایشوز پر مسئلہ کشمیر عالمی میڈیا میں زیر
بحث آیا ہے۔پہلا بڑا ایشو یکم اپریل کو وقوع پذیر ہوا جب فجر سے قبل حریت
پسندوں کی موجودگی پر بھارتی آرمی نے شوپیاں میں دو مختلف جگہوں پر کریک
ڈاؤن کیا جسکے نتیجے میں 13 حریت پسندوں کی شہادتیں ہوئیں۔ یہ سب کشمیری
تھے جنہوں نے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا۔ بہرحال کشمیریوں عوام اور مجاہدین
ایک ہو چکے ہیں۔ مجاہدین اور عوام میں فرق ختم ہو چکا ہے ‘ جب جہاں کہیں
اطلاع ملتی ہے وہاں عوام پہنچ جاتی ہے اور حریت پسندوں کے دفاع میں بھارتی
فوج کے خلاف نعرے بازی اور پتھر بازی کرتی ہے جواب میں آرمی ان پر یا
توپیلٹ گن سے فائرنگ کر کے انکے جسموں کو چھلنی کرتی ہے جس میں بعض کی
بینائی تک چھن جاتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہ گن ہے جسکا استعمال جانوروں کیلئے
بھی ممنوع ہے لیکن انڈین فوج دھڑلے سے معصوم اور نہتے کشمیریوں پر استعمال
کر رہی ہے یا دوسرا ان کے خلاف سیدھی فائرنگ کرکے انہیں شہید کر دیا جاتا
ہے۔شوپیاں میں بھی اسی طرح ہوا جب مجاہدین کے دفاع میں انکاونٹر سائٹس پر
کشمیری عوام پہنچی اور آرمی کے خلاف نعرے بازی اور پتھر بازی کی تو اس کے
نتیجے میں 20 کے قریب شہادتیں اور دو سو سے زائد زخمی ہو گئے۔دوپہر تک
لاشوں اور زخمیوں کا ڈھیر تھا تفریق مشکل ہو گئی تھی۔ ایمبولینسیں بھر بھر
کر جا رہی تھیں۔شوپیاں کے تینوں بڑے ہاسپٹل فل ہو گئی تھے۔ ایسے میں آپا جی
سیدہ آسیہ اندرابی کا غم اور دکھ سے بھرا وائس میسج ملا جس میں پاکستانی
عوام اور حکومت سے درخواست تھی کہ ہم پاکستان کے پرچم اٹھائے سینہ سپر ہیں
اور ترانے چلائے ہوئے اور لاشیں اٹھا رہے ہیں تو حکومت پاکستان کم از کم
اپنے کشمیری پاکستانیوں کیلئے ایک دن یوم سیاہ کا اعلان کرے۔
بھارت نے شوپیاں میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی تاکہ تازہ
ترین معلومات نہ پہنچ سکیں۔ سیدہ آسیہ اندرابی کا میسج پاکستان میں سوشل
میڈیا پر وائرل ہوا۔ حافظ محمد سعیدنے سب سے پہلے ویڈیو مسیج جاری کیا جس
میں کشمیریوں کو مدد و تعاون کی یقین دہانی کرائی اور اگلے ہی دن یوم
احتجاج کا اعلان کردیاجس پر ملک بھر میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے
پروگرام منعقد کیے گئے اور شہدا کے جنازے ادا کیے گئے۔سوشل میڈیا پر
ایکٹوسٹس نے #KashmirBleeds کی مہم شروع کر دی گھنٹے دو میں پاکستان میں یہ
ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا بعد ازاں تین چار دن تک یہ ٹرینڈ جاری رہا۔حکومت
پاکستان، وزیر اعظم، وزیر خارجہ، آرمی چیف سمیت سیاسی و مذہبی قیادت نے
کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کیا۔وزیراعظم پاکستان نے 6اپریل بروز جمعہ کو
یوم کشمیر کا اعلان کیا۔اسی طرح سفارتی سطح پر بھی کشمیر ایشو کو ہائی لائٹ
کرنے کیلئے دوست ممالک سے رابطے کیے گئے۔ بڑی دیر بعد پاکستان کے تمام
طبقات کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے ایک پیج پر نظر آئے۔اس دن کی مناسبت
سے بھی سوشل میڈیا پر #KashmirDay کے نام سے مہم چلائی گئی اور تین دن تک
ٹویٹر ٹاپ ٹرینڈ رہا۔ جمعہ کے دن ایک بار پھر پورا پاکستان کشمیریوں سے
اظہار یکجہتی کیلئے سڑکوں پر تھا۔کشمیریوں تک زبر دست پیغام یکجہتی پہنچا۔
انٹرنیشنل میڈیا نے زبردست کوریج کی۔کشمیریوں نے اپنے شہدا کے بڑی شان سے
جنازے ادا کیے۔ پاکستانی پرچموں میں پاکستانی نعرے لگاتے ہزاروں کے مجمعے
عالمی میڈیا کی زینت بنے۔ پاکستانی میڈیا نے بھی زبردست کوریج کی اور
بھارتی چیرہ دستیوں کے خلاف کشمیریوں کی تحریک آزادی کو زبردست اجاگر کیا۔
پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی نے بھارتی دہشتگردی پر ٹویٹ کیے۔ ٹویٹر پر
انہیں لاکھوں لوگوں نے فولو کیا ہوا ہے جس میں بہت بڑی تعداد بھارتیوں کی
بھی ہے۔ شاہد آفریدی کے خلاف پورا بھارت کھڑا ہوا گیا اور یکطرفہ پروپیگنڈہ
شروع کر دیا۔کبھی انہیں آئی ایس آئی کا ایجنٹ کہا گیا تو کبھی حافظ سعید کا
ساتھی‘بہر حال ایک طوفان بدتمیزی تھا جو تھمنے میں نہیں آ رہا تھا۔شعیب
اختر سمیت پاکستانیوں نے بھی زبردست طریقے سے شاہد آفریدی کو حق گوئی پر
خراج تحسین پیش کیا۔ شوبز سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی ایک بڑی تعداد
نے بھارتی ریاستی دہشت گردی کو بے نقاب کیا۔شہداء شوپیاں کو خراج تحسین پیش
کرنے کیلئے حریت قیادت نے شوپیاں مارچ کا اعلان کیا تو پورا کشمیر امڈ آیا۔
آسیہ اندرابی کی سربراہی میں قائم دختران ملت کے سات بہنوں پر مشتمل ایک
وفد کو پولیس نے شہید کے گھر جاتے ہوئے گرفتارکر لیا گیااور پھر انہیں
عدالتی ریمانڈ کے بعد انہیں دوبارہ جیل بھیج دیا گیا جو ابھی تک زیر حراست
ہیں۔کشمیری خواتین میں جذبہ حریت کی بیداری میں سیدہ آسیہ اندرابی کی
گرانقدر خدمات ہیں۔ وہ شہادتیں بھی پیش کر رہی ہیں اور شہداء کے جسد خاکی
بھی بھارتی فوج سے لڑ جھگڑ کر لیتی ہیں۔شہداء کی مائیں مٹھائیاں بانٹتی
ہیں۔تازہ تحریک میں خواتین کردار شاندار ہے۔حالیہ دنوں میں بچیاں، بیٹیاں،
بہنیں زبردست انداز میں بھارتی جارحیت کے سامنے سینہ سپر ہیں۔طالبات کی
بھارتی آرمی پر پتھراؤ کی تصاویر عام ہیں۔ معصوم بچیاں بھی آگے آگے نظر آتی
ہیں۔دوسرا ایشو کولگام میں شہادتوں کا ہے جہاں چار حریت پسندوں کی موجودگی
پربھارتی فوج نے جب کریک ڈاؤن کیا تو ایک بار پھر کشمیری اپنے محسنوں کے
دفاع میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ بھارتی فوج نے حسب معمول نہتے کشمیریوں پر فائرنگ
کی جسکے نتیجے میں ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 4 نوجوان شہید ہوئے
اور 50 زخمی ہوئے لیکن سلام ہے کشمیریوں کی عظمت کو 4 قربان کرا دئے درجنوں
زخمی کرا دیے لیکن حریت پسندوں پر آنچ نہیں آنے دی انہیں بحفاظت بھارتی فوج
کے چنگل سے نکلوا دیا۔شہید ہونے والے چار نوجوانوں میں ایک نوجوان کی ٹھیک
چار دن بعد یعنی 15 اپریل کو شادی تھی۔شادی سے چار دن قبل بچے کی شہادت
بہنوں اور ماں کی بیٹے کے ساتھ تصویر نہایت غمناک تھی۔تیسرا اور اہم ترین
ایشو کٹھوعہ جموں سے متعلق ہے جہاں ہندوانتہاپسندوں نے سات سالہ معصوم بچی
کی بے حرمتی اور اس کے قتل کا ارتکاب کیا ۔ معصوم بچی آصفہ بانو کی تشدد
زدہ لاش سات دن بعد ملی۔ اس کی ٹانگیں ٹوٹی ہوئی تھیں، ناخن سیاہ اور
انگلیوں اور بازوؤں پر سرخ نشان تھے۔اس خوفناک حرکت کے پیچھے ایک 60 سالہ
ریٹائرڈ ہندو افسر سنجی رام اسکے ساتھ 4 ہندو پولیس افسر سرندر ورما ،آنند
دتہ، تلک رام اور خجوریہ کی منصوبہ بندی تھی جس کا مقصد مسلم گجر برادری کو
خوفزدہ کر کے جموں چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا۔ملزمان نے بچی کو سات روز تک
مندر میں زیادتی و تشدد کا نشانہ بنایااور بعد ازاں قتل کر دیا۔پولیس نے
ملزمان گرفتار کیے لیکن ہندو وکلاء اور بی جے پی کے دو وزرا نے ملزمان کو
عدالت پیش کرنے میں رکاوٹ ڈالی۔گجر برادری نے انصاف کے حصول کیلئے مین جموں
ہائی وے بند کر دی۔ اسی طرح کشمیری حریت قیادت نے بھی انصاف کیلئے مظاہرے
کیے۔ سوشل میڈیا پر بھی آواز بلند کی گئی لیکن کوئی شنوائی نا ہو سکی۔گزشتہ
ہفتے ایک بار پھر یہ کیس ہائی لائٹ ہو گیا کیونکہ انٹرنیشنل میڈیا بی بی
سی، نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، الجزیرہ سمیت بے شمار انٹرنیشنل نیوز کے
اداروں نے اس سٹوری کو شئر کیا جس پر کشمیر سمیت بھارت میں دوبارہ ایشو
ہائی لائٹ ہو گیا۔انٹرنیشنل میڈیا سے عالمی بے عزتی کے بعد بھارتیوں کا
جزبہ انسانیت جاگا۔یوں ٹویٹر پر #JusticeforAsifa بھارت میں ٹاپ ٹرینڈ بن
گیا جسمیں دونوں ممالک کے عوام و خواص نے آصفہ کیلئے انصاف کا مطالبہ
کیا۔کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی اور لبرل طبقہ آصفہ کی حمایت میں جبکہ
انتہا پسند ہندو اور بی جے پی حکومت ملزمان کی حمایت کر رہی ہے اور آصفہ کا
کیس لڑنے والی وکیل کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ پاکستانیوں
نے بھی سوشل میڈیا پر ایشو کو اٹھایا اور 12 اپریل جمعرات کو یہاں پاکستان
میں بھی ٹویٹر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ اسی طرح ہفتے کو کشمیر یوتھ الائنس اور
پاک یوتھ ایکٹوزم نے اسلام آباد پریس کلب میں آصفہ کے انصاف کیلئے مظاہرہ
کیا۔ پاکستانی بچی زینب کے کیس میں پورا پاکستان ایک پیج پر تھا ملزم کو
گرفتاری کے ٹھیک 72 گھنٹوں بعد تین مرتبہ سزائے موت سنائی گئی لیکن بھارت
میں تاحال تین ماہ گزرنے کے بعد بھی آصفہ کا کیس حل طلب ہے۔کشمیر میں
بھارتی جبر و تشدد کا شکار ہزاروں مائیں بہنیں انصاف کی منتظر ہیں وہ چاہے
کنعان پوش پورہ کے پورے گاؤں کی اجتماعی زیادتی ہو یا 2009 شوپیاں میں آسیہ
اور نیلوفر کا ریپ و قتل ہو۔کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے بھارت
کی جانب سے جاری ریاستی دہشتگردی کے نتیجے میں ہونیوالی لاکھوں شہادتیں
ہوں، گرفتاریاں ہوں، یا خواتین کی عصمت دری ان شا اﷲ تعالٰی بھارت ان
ہتھکنڈوں میں ناکام ہوگا اور کشمیری آزادی سے ہمکنار ہونگے۔ |