"شعبان المعظم"

اسلامی سال نو کا آغاز ماہِ محرم سے اور اختتام ماہِ ذوالحجہ پر ہوتا ہے. شعبان آٹھواں اسلامی مہینہ ہے جو رمضان المبارک سے پہلے آتا ہے. اس مہینے کو اللہ کریم نے بہت فضیلت عطا فرمائی ہے، جس کی عظیم وجہ تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مہینہ میں ماہِ رمضان کے روزے، تراویح اور دیگر عبادات کی تیاری کا موقع ملتا ہے. رمضان جو اپنی برکتوں، رحمتوں اور عنایات ربانی کا موسمِ بہار ہے. اس کی تیاری کا ماہِ شعبان سے شروع ہونا اس کی عظمت کو چار چاند لگا دیتاہے. گویا شعبان کو رمضان کا ”مقدمہ“ کہنا چاہیے. یہ وہ قابلِ قدر مہینہ ہے جس کی نسبت حضور اکرم ﷺ نے اپنی طرف فرمائی اور اس میں خیر و برکت کی دعاء فرمائی، نیز اس ماہ کو اعمال کی پیشی کا مہینہ قرار دیا اور امت کی اس سے غفلت و بے توجہی کی پیشین گوئی فرمائی. غور کیا جائے تو مستند روایات اور تاریخی واقعات کے تناظر میں اس ماہ کی بڑی فضیلت اور اہمیت معلوم ہوتی ہے.

وجہ تسمیہ: لفظ "شعبان" تشعب سے ماخوذ ہے اور تشعب کے معنیٰ تفرق (پھیلنے اور عام ہونے) کے ہیں، چونکہ اس ماہ میں خیر کثیر پھیل جاتا ہے اس لئے اس کو شعبان کہا جاتا ہے یا اس مہینے میں اہل عرب حرمت والے آخری مہینے رجب المرجب کے بعد لوٹ مار کے لیے منتشر ہو جاتے تھے اس مناسبت سے بھی اس کو شعبان کہتے تھے. بعض علماء نے شَعبان کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ شعبہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی حصہ کے ہیں، اس مہینے میں اللہ تعالی کی رحمت و فضل کے خاص شعبہ جات کام کرنا شروع کردیتے ہیں اس لئے بھی اسے شعبان سے موسوم کیا جاتا ہے.

اہم تاریخی واقعات:
اس مہینے میں آپ ﷺ کی دیرینہ تمنّا پوری ہوئی اور تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا، اسی مہینے میں تاریخ اسلام کا عظیم غزوہ، غزوۂ بنوالمصطلق پیش آیا، اسی مہینے میں آپ ﷺ نے حضرت حفصہ اور جویریہ رضی اللہ عنہما سے نکاح فرمایا، تیمم سے متعلق احکام کا نزول بھی اسی مہینے میں ہوا، اسی مہینے میں حضرت حسین بن علیؓ، حضرت زین العابدین اور حضرت ابوالفضل عباس کی ولادت ہوئی اور صحابہ و تابعین میں حضرت مغیرہ ؓ، حضرت انسؓ، حضرت عرباضؓ، اور امام ابوحنیفہ ؒ کی وفات ہوئی.

بکثرت روزوں کا اہتمام:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں روحانیت اور ملکیت کو بڑھانے کے لیے جہاں فرض روزوں کی تعلیم فرمائی، وہیں نفل روزے رکھنے کی بھی ترغیب دی بالخصوص ماہ شعبان میں آپ کا بکثرت روزے رکھنا منقول ہے.

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب روزے رکھنا شروع فرماتے تو ہم کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب روزہ رکھنا ختم نہ کریں گے اور جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ نہ رکھنے پہ آتے تو ہم یہ کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب روزہ کبھی نہ رکھیں گے. میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان شریف کے علاوہ کسی اور مہینہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا اور میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں کثرت سے روزہ رکھتے نہیں دیکھا.
(صحیح البخاری:رقم الحدیث:1969، صحیح مسلم:رقم الحدیث 1156)

چنانچہ حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں نفلی روزہ رکھتے نہیں دیکھا. رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ رجب اور رمضان کے درمیان واقع ایک مہینہ ہے جس کی برکت سے لوگ غافل ہیں، اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، میری خواہش ہے کہ میرے اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزہ سے ہوں.(نسائی، مسند احمد، ابو داوٴد 2076)

بعض دیگر احادیث میں شعبان کے آخری دنوں میں روزہ رکھنے سے منع بھی فرمایا گیا ہے، تاکہ اس کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے رکھنے میں دشواری نہ ہو.(بخاری، کتاب الصوم. مسلم، کتاب الصیام)

شعبان کے مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کثرت سے روزہ رکھنے کی علماء نے کئی حکمتیں بیان کی ہیں:

* چوں کہ اس مہینہ میں اللہ رب العزت کے دربار میں بندوں کے اعمال کی پیشی ہوتی ہے اس لیے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال کی پیشی ہو تو میں روزے کی حالت میں رہوں، یہ بات حضرت اسامہ بن زیدؓ کی روایت میں موجود ہے.(نیل الاوطار:۴/۲۴۶)

* حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ پورے سال میں مرنے والوں کی فہرست اسی مہینے میں ملک الموت کے حوالے کی جاتی ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بارے میں ملک الموت کو احکام دیے جائیں تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہوں.(معارف الحدیث: ۴/۱۵۵)

* رمضان المبارک کے قریب ہونے اور اس کے خاص انوار و برکات سے مناسبت پیدا کرنے کے شوق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینہ میں روزے کا اہتمام کثرت سے فرماتے تھے، جس طرح فرض نمازوں سے پہلے سنتیں پڑھتے تھے، اسی طرح فرض روزے سے پہلے نفلی روزے رکھا کرتے تھے اور جس طرح فرض کے بعد سنتیں اور نفلیں پڑھتے تھے اسی طرح رمضان کے بعد شوال میں چھ روزے رکھتے اور اس کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے.

پندرہویں شب :
یوں تو مکمل ماہِ شعبان مختلف جہتوں، برکتوں اور سعادتوں کا مجموعہ ہے، خصوصاً اس کی پندرہویں شب جس کو شبِ برأت بھی کہتے ہیں، باقی شعبان کی راتوں بلکہ تمام سال کی اکثر راتوں سے افضل ہے۔

نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عائشہ! کیا تمھیں معلوم ہے کہ یہ کون سی رات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ شعبان کی پندرھویں رات ہے اس رات اللہ رب العزت اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتے ہیں، بخشش چاہنے والوں کو بخش دیتے ہیں، رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتے ہیں اور بغض رکھنے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں.(شعب الایمان للبیہقی:رقم الحدیث 3554)

دیگر ایک اور روایت حضرت عائشہ ؓ ہی سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اے عائشہ! کیا تمھیں معلوم ہے کہ اس رات یعنی شعبان کی پندرھویں رات میں کیا ہوتا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ اس میں کیا ہوتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس سال جتنے انسان پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ اس رات میں لکھ دیے جاتے ہیں اور جتنے لوگ اس سال میں مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اسی رات میں لکھ دیے جاتے ہیں. اس رات بنی آدم کےا عمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی مقررہ روزی اترتی ہے.(مشکوۃ المصابیح: رقم الحدیث1305)

خطبہ ٔ استقبال رمضان:
اللہ کے رسول ﷺ شعبان کے مہینے میں صحابہ کرامؓ کو اکٹھا کرتے اور خطبہ دیتے جس میں انھیں رمضان کے فضائل و مسائل بیان کرتے، رمضان کی عظمت و اہمیت کے پیش نظر اس کی تیاری کے سلسلے میں توجہ دلاتے.
ایسے ہی خطبہ میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "اے لوگو! عنقریب تم پر ایک عظیم الشان ماہ مبارک سایہ فگن ہونے والا ہے. اس ماہ مبارک میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے. اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے فرض کیے، اس کے قیام کو اپنی خوشنودی کا ذریعہ قراردیا، تو جس شخص نے اس ماہ میں ایک چھوٹا سا کار خیر انجام دیا اس نے دیگر ماہ کے فرائض کے برابر نیکی حاصل کرلی، یہ صبر و ہمدردی کا مہینہ ہے.
یہ وہ ماہ مبارک ہے جس میں اللہ اپنے بندوں کے رزق میں اضافہ فرماتا ہے. اس ماہ مبارک میں جس نے کسی روزے دار کو افطار کرایا روزے دار کے روزے میں کمی کے بغیر اس نے روزے دار کے برابر ثواب حاصل کیا اور خود کو جہنم سے بچا لیا. صحابہ کرامؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم میں سے ہر شخص تو روزے دار کو افطار کرانے کی استطاعت نہیں رکھتا ہے.

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے روزے دار کو پانی کا گھونٹ پلایا یا دودھ کا گھونٹ بھی پلایا یا ایک کھجور کے ذریعے افطار کرایا اس کا اجر اسی کے برابر ہے اور اس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے اس سے روزے دار کے اجر میں کمی نہیں ہوگی، جس نے اپنے ماتحتوں سے ہلکا کام لیا اس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے.(مشکوۃ شریف)

اسی لئے ہم ماہ مبارک کی آمد سے پہلے پہلے اس کے مقام، اس کی عظمت، اس کی فضیلت، اس کے مقصد اور اس کے پیغام کو اپنے ذہن میں تازہ کریں تاکہ اس کی برکات سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں اور اس بات کا پختہ ارادہ کریں کہ ہم اس ماہ مبارک میں اپنے اندر تقویٰ کی صفت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جو روزے کا مقصد اور حاصل ہے. اللہ کریم ہم سب کو اس ماہ مقدس سے استفادہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین.

Abdul Mustafa
About the Author: Abdul Mustafa Read More Articles by Abdul Mustafa: 5 Articles with 10513 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.