وردہ صدیقی نوشہرہ کینٹ
یہ اﷲ رب العزت کا خاص کرم ہے کہ اﷲ نے آپ کو اپنے دین کیلئے قبول فرما کر
اپنے حبیب ﷺ کا وارث بنایا۔جس مقصد کیلئے اﷲ نے اپنے نبی کو مبعوث فرمایا
تھا اب اس مشن کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔ اب اس عہد کے
وفا کا وقت آگیا ہے۔ اب تک تو آپ علمی میدان میں تھے لیکن فراغت کے بعد سے
عملی میدان کا آغاز ہوجائے گا ۔ اصل کام تب شروع ہوگا اور وہ ہے "دعوت
وتبلیغ " -
یہ کام کوئی آسان کام نہیں بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔ جب آپ فاران کی چوٹی پر
کھڑے ہوکر کلمہ حق کلمہ اسلام کہیں گے تو ہر جانب سے مصائب و مشکلات کا
سامنا کرنا پڑے گا۔ ابو لہب کی گالیاں سننی پڑیں گی ابو جہل کی سازشیں اور
سرکشیاں سہنی پڑیں گی طائف کے پتھر بھی کھانے پڑیں گے ممکن ہے شعب ابی طالب
بھی اپنی تاریخ دہرائے۔ ایسا بھی وقت آئے کہ حدیبیہ جیسی صلح کرنی پڑے ۔
ایسے وقت میں ہمت و حوصلہ ہار کر مایوس نہیں ہونا بلکہ صبر کا دامن تھامے
رکھیے ۔ لوگوں کی مخالفت سے گھبرا کر پیچھے نہیں ہٹیے بلکہ " تمہارے لیے تو
اﷲ ہی کافی ہے وہ بہتریں کارساز اور بہترین دوست ہے ۔ ایسے وقت میں اسوہ
رسول کو آنکھوں کا سرمہ اور دل کی دھڑکن بنالیجیے۔ اس راستے میں پیارے آقا
کا طرز اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیجیے عفو درگزر رحم وکرم ، حلم وبرداشت کو
تھامیے کیونکہ اﷲ نے ' علم القران ' سے قبل اپنی صفت رحمن کو ذکر کیا۔
اگر ان باتوں پر عمل ہوجائے تو وہ دن دور نہیں جب اس محنت کا آفتاب طلوع
ہوگا تو بدر جیسی نصرت اترے گی اور فتح مکہ جیسی جیت ہوگی۔ ان شااﷲ
انبیا کی طرح فرد فرد پر محنت کریں۔ گھر والوں پرخصوصی توجہ دیں۔ رنگ، نسل
، زبان اور قوم کے اختلاف کو پس پشت ڈال کر دعوت کا کام کیجیے۔
دراصل ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے ۔ جس میں ہمارے بہت سے
داعین و داعیات غلطی کرتے ہیں اور اس کا بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ وہ
ہے " قدرت و استطاعت "۔
حدیث شریف ہے : ترجمہ ۔حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے وہ
فرماتے ہیں کہ حضورﷺنے فرمایا تم میں سے جو شخص خلاف شرع کام کو دیکھے تا
اس کو چاہیے کہ اپنے ہاتھ سے روک ڈالے اور اگر وہ ہاتھوں کے ذریعے اس کام
کو توروکنے کی طاقت نا رکھتا ہو تو زبان کے ذریعے روکے۔ اگر زبان کے ذریعے
سے بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو پھر دل میں اس کام کو برا جانے اور یہ ایمان کا
سب سے کمزور درجہ ہے۔ (رواہ مسلم)
علما ء نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ ٓادمی پہلے نرمی سے سمجھائے اگر
نہیں مانے تو پھرسختی کرے اور اگر قدرت وطاقت ہو تو ہاتھ سے منع کرے۔ مثلا
شراب کو ضائع کرنا، طبل باجے کے آلات کو توڑ ڈالے۔
زجاجۃالمصابیح میں لکھا ہے اگر امر کی غالب رائے ہو لوگ اس کی بات کو قبول
کریں گے اور منکر سے باز آجائیں گے تو اس وقت نہی عن المنکر واجب ہے اور
اگر گمان ہو کہ لوگ نہیں مانیں گے ، گالیاں دیں گے بلکہ مار دیں گے تو اس
وقت نہی عن المنکر ترک کرنا افضل ہے۔ اسی طرح اگر کسی بڑے فتنے کے اٹھنے کا
خطرہ ہو اس وقت نہی عن المنکر ترک کرنا جائز ہے اور اگر داعی اور امر کرنے
والا آدمی تمام مشقتوں کو برداشت کرسکتا ہے تو پھر نہی عن المنکر کرنا افضل
واعلی ہے اور یہ آدمی عظیم مجاہد ہے۔
اگر اس درجے پر بھی کام نہیں کر سکتے تو کم از کم اس منکر پر دل میں نفرت
ہو جو کہ تیسرا اور ادنی درجہ ہے اگر یہ جذبہ بھی دل میں نہ ہو تو دل میں
کچھ بھی نہیں ۔ افسوس کہ بعض باوجود قدرت کے نہی عن المنکر کیلئے اپنی طاقت
کا استعمال نہیں کرتے ان کا بھی محاسبہ کیا جائے گا ۔
اپنی طاقت کے مطابق کام کیجئے مخاطب اور موقعے کا خاص خیال رکھیے ۔ ہمیشہ "
تکلم الناس بقر عقولھم " کا اصول مدنظر رکھیے۔
فتاوی عالمگیری میں لکھا ہے کہ دعوت کے پانچ شرائط ہیں۔
۱۔داعی کا عالم ہونا۔
۲۔رضا الہی اور اعلا ء کلمۃاﷲ مقصود ہو
۳۔ جس کو دعوت دے رہا ہے اس پر شفقت اور نرمی مقصود ہو۔
۴۔ہر مشقت پر صبر کرنا۔
۵۔داعی جو کہتا ہو اس پر خود عمل بھی کرتا ہو۔
داعی کی سب سے بڑی اور نمایاں صفت یہ ہوتی ہے کہ جس چیز کی تبلیغ کرے اس پر
عمل بھی کرے ، قول وفعل میں تضاد نہ ہو ۔
اﷲ رب العزت نے دوسرے انبیا کی بنسبت اپنے محبوب کی نبوت کا اعلان دیر سے
کیا۔ چالیس سال بعد آپ کی نبوت کا اعلان ہوا۔ اس میں حکمت تھی۔ وہ یہ کہ رب
ذوالجلال نے فرمادیا کہ "اے محبوب پہلے ان لوگوں کو قرآن بن کر دکھائیے پھر
قرآن پڑھ کر سنائیے۔ "
علماء و عالمات کو چاہیے کہ اپنے کردار کو اسلام کا عملی نمونہ بنا کر پیش
کریں۔ کوئی آپ سے یہ نہیں کہے گا کہ بخاری وترمذی کی فلاں حدیث سناؤ بلکہ
وہ آپ کا عمل دیکھیں گے۔
میری مشفق ومہربان استانی صاحبہ محترمہ ومکرمہ ام سعاد صاحبہ کے زیر شفقت
فقط ایک سال دورہ حدیث کا گزارا مگر کبھی ان کے منہ سے یہ الفاظ نہیں سنا
کہ " اہل علم کو ایسا ہونا چاہیے ، عالمات کو ویسا ہونا چاہیے " نہیں بلکہ
وہ تو خود قرآن وحدیث کا چلتا نمونہ ہیں ۔ علم وعمل کا ایسا پیکر کہ طالبات
ان کو دیکھ کر ان جیسا بننے کی تمنا کرتیں۔
یہ وہ شخصیت ہیں جن کو دیکھ وہ حدیث پاک فراغ دل ودماغ سے خوب اچھی طرح
سمجھ آجاتی ہے جس میں صحابہ کے بارے میں آتا ہے ۔۔۔۔ " وہ دیکھو قرآن آرہا
ہے وہ دیکھو قرآن جارہا ہے "
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر آپ کا حسن ہے اس کی کوشش کریں سیکھ کر کریں
۔ فراغت کے بعد بھی اساتذہ کا دامن ناچھوٹے۔ اکابرین واولیا ء سے تعلق
جوڑیے۔ اﷲ ہم سب کو دین اسلام پر مکمل عمل کرنے والا بنائے( آمین) |