مشرق وسطی کی جن شخصیات نے یورپ اور امریکہ میں اشاعت
اسلام ،فروغ تعلیم اور اسلامی تہذیب وثقافت کو عام کرنے کا کارنامہ انجام
دیاہے ان میں ایک نمایاں نام بیسویں صدی کے عظیم مفکر ڈاکٹر اسماعیل راجی
الفاروقی کا بھی ہے ۔ڈاکٹر اسماعیل راجی الفاروقی نے مشرق وسطی کو الوادع
کہ کر امریکہ کو اپنا مسکن بنایا جہاں نے انہوں نے علم کی آبیاری کی ،اسلامی
تہذیب وثقافت کو فروغ دیا،افکارمحمدی کو دنیا کے سامنے پیش کیا ،قرآن وحدیث
پر مبنی نصاب تعلیم اور تدرسی نظریہ کا خاکہ پیش کیا،مسلمانوں کے مستقبل
اور ان کامیابیوں کے بارے میں لائحہ عمل تیا رکیا ۔راجی الفاروقی نے یہ سب
ایسے دور میں کیا جب مشرق وسطی سمیت دینا کے بیشترمسلم ممالک زوال کے شکار
تھے ،معاشی ،تعلیمی اور اقتصادی انحطاط کا سامنا کررہے تھے ،برٹش حکومت سے
آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ان کے ذہن میں برٹش حکومت اور
فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلیوں کو آباد کرانے اورایک ناجائز ریاست کے وجود
کا واقعہ بھی ہمہ وقت گردش کررہاتھا کیوں کہ انہوں نے یہ پورا منظرنامہ
اپنی نگاہوں سے دیکھا تھا ۔ اپنی زمین کوہڑپتے او رقابض ہوتے دیکھاتھا۔جہاں
کے گورنر تھے وہاں صہونیوں نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیاتھا۔اس لئے
مسلمانوں کے تئیں ان کے ریسرچ ،ان کے افکار ،ان کی کتابیں بہت اہمیت کی
حامل ہیں ۔یورپ ،امریکہ کے ساتھ مشرق وسطی ،عرب افریقہ اور برصغیر ہندوپاک
میں بھی ڈاکٹر اسماعیل راجی الفاروقی کو قدر کی نگاہوں سے دیکھاجاتاہے ،ان
کے افکاروخیالات کی روشنی میں لائحہ اور مستقبل کا منصوبہ تیارکیاجاتاہے۔
ان کے نظریات سے استفاد ہ کیا جاتاہے۔ان کی شخصیت کا مطالعہ کرنے والوں کا
مانناہے کہ بیسوی صد ی کے اس عظیم مفکر کے افکار وخیالات اکیسویں صدی کے
حالات کے عین مطابق ہیں،مسلمانوں کو وہاں سے روشنی ملتی ہے اور اس کے مطابق
ایک بہتر مستقبل کی تخلیق کی جاسکتی ہے ۔
ڈاکٹر اسماعیل راجی الفاروقی کا وطن اصلی فلسطین کا جافہ علاقہ ہے ،آپ کا
خاندان وہاں کے اہم ترین اور بااثر قبیلہ میں شمار کیا جاتاتھا،1940 میں
فلسطین کے مفتی اعظم کے منصب پر فائز شیخ عبد القادر الحسینی بھی اسی
خاندان سے تعلق رکھنے والے تھے ۔،آپ کے والد شیخ عبد الہدی الفاروقی خطہ کی
مشہورشخصیت ہونے کے ساتھ وہاں کے قاضی ( جج) تھے ،یکم جنوری 1921 میں آپ کی
ولادت ہوئی ،ابتدائی مذہبی تعلیم آپ نے اپنے والدگرامی سے حاصل کی ،وہاں کی
مقامی مسجد میں بھی جاکر آپ نے دینیات اور قرآن ناظرہ پڑھنا سیکھا ۔
ابتدائی تعلیمی اور مذہب کا بنیادی علم سیکھنے کے بعد آپ نے French
Dominican College Des Frères میں داخلہ لیا جہاں سے 15 سال کی عمر میں آپ
نے ہائی اسکول یعنی میٹرک کی تکمیل کی ۔آپ کے سوانح نگاروں نے لکھاہے کہ جس
وقت آپ نے ہائی اسکول مکمل کیاتھا عربی اور فرینچ دونوں زبانوں میں آپ کو
اچھی خاصی مہارت ہوگئی تھی ،یکساں عبور حاصل تھا اور زبان پر آپ کی اس گرفت
کا پورے اسکول میں چرچا تھا۔اگلے سال 1937 میں بیروت میں واقع امریکن
یونیورسیٹی کے آرٹ اینڈ سائنس کالج میں آپ نے داخلہ لیا جہاں آپ نے انگلش
زبان سیکھی اور فلسفہ کے موضوع سے گریجویشن مکمل کیا ۔
1941 میں بی اے مکمل ہوجانے کے بعد 1942 میں برٹش حکومت کی جانب سے فلسطین
حکومت میں بطور رجسٹرار کے آپ کی بحالی ہوگئی ،ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے تین
سالوں تک آپ نے وہاں کام کیا ،اس کے بعد آپ کو ترقی مل گئی اور رجسٹر ار کے
بجائے آپ غلیلی ضلع کے سربراہ بنادیئے گئے جسے وہاں حاکم کہاجاتاتھا ،ہندوستان
میں اس عہدہ پر فائزہ شخص کوڈی ایم کہاجاتاہے ۔حاکم کا یہ عہدہ محض 24
سالوں کی عمر میں آپ کو مل گیا تھا ، حاکم بننے کے بعد غلیلی کو بہتر بنانے
اور تعمیر وترقی پر آپ نے خصوصی توجہ دی ،بہترین انتظامی صلاحیت کا ثبوت
دیا ،برٹش حکومت کے ماتحت ہونے کے باوجود آپ نے فلسطینیوں کے کاز کو ہمیشہ
اور ہر ممکن ترجیح دینے کی کوشش کی ۔لیکن زیادہ دنوں تک اس پر فائز نہیں رہ
سکے کیوں کہ وہاں صہیونی آبادی کا سلسلہ جاری تھا، برٹش حکومت ایک نئی ملک
کی بنیاد رکھنے والی تھی ،سوانح نگاروں نے لکھاہے کہ صہیونیوں کی بڑھتی
ہوئی آبادی آپ کیلئے ناقابل برداشت ہوتی گئی ،اسی کشمکش میں شب روز گزرتے
رہے ،دوسری طرف صہیونی آبادی میں اضافہ ہوتارہاہے اوربالآخر 1948 میں
باضابطہ اسرائیل نام کی ریاست کے قیام کا اعلان ہوگیا ۔ قیام اسرائیل سے
الفاروقی شدید بے چین اور مایوس ہوئے ،صہیونی تحریک کی انہوں نے پرزور
مخالفت بھی کی ،کچھ روایات کے مطابق الفاروقی نے صہیونیوں کے خلاف ہتھیار
کا بھی استعمال کیا۔ بہر حال الفاروقی خطے کے آخری گورنر ثابت ہوئے اور ان
کے گورنر ہوتے ہوئے وہاں اسرائیل حکومت قائم ہوگئی جس کے بعد یہ منصب باقی
نہیں رہا اور انہیں وہاں سے کوچ کرنا پڑا ۔
اسرائیل کے قیام کے بعد فلسطین کی تصویر بدل گئی ،ہزاروں لوگوں کو بے گھر
ہونا پڑا ،اسرائیلی دہشت گردی کے شکار مسلمانوں کو وہاں سے جاناپڑا ،ڈاکٹر
راجی الفاروقی بھی انہیں لوگوں میں شامل تھے جنہیں مجبور ہوکر اپنا وطن
چھوڑنا پڑا اور انہوں نے لبنان میں جاکر پناہ لی ۔لبنان جاکر امریکی
یونیورسیٹی سے وہ دوبارہ وابستہ ہوگئے ،ایم اے میں داخلہ لیکر حصول تعلیم
میں مشغول ہوگئے ،محنت اور جدو جہد کی وجہ سے امریکہ کی انڈیانا یونیورسیٹی
میں حصول تعلیم کیلئے ان کا انتخاب ہوگیا اور غیر متوقع طور پر لبنان سے
امریکہ حصول تعلیم کیلئے پہونچ گئے ۔انڈیانا یونیورسیٹی سے فلسفہ میں ایم
اے مکمل کرنے کے بعد انہوں نے ہارورڈ یونیورسیٹی میں داخلہ لیا اوروہاں سے
دوسر ی مرتبہ 1951میں آپ نے ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔اس طرح امریکہ کی
دویونیورسیٹیوں سے آپ ڈبل ایم اے ہوگئے ۔ ماسٹرس مکمل کرلینے کے بعد فاروقی
ملازمت سے وابستہ ہوگئے ،ایک کمپنی میں انہوں نے عربی ۔انگلش ترجمہ کا کام
شروع کردیا،اس دواران انہوں نے کئی اہم کتابوں کا عربی سے انگلش میں ترجمہ
کیا 1952 میں دوبارہ انڈیا نا یونیورسٹی میں آکر انہوں نے پی ایچ ڈی کی
ڈگری حاصل کی۔
تعلیمی سلسلہ مکمل کرلینے کے بعد کئی ادارے اور یونیورسیٹیزسے راجی فاروقی
کی وابستگی رہی ،کچھ سالوں تک جامعہ ازہر مصر میں انہوں نے تعلیمی خدمات
انجام دی ۔ٹیمپل یونیورسیٹی فلاڈلفیاامریکہ میں مذاہب کے پروفیسر رہے جہاں
انہوں نے اسلامیات کے شعبہ کی بنیاد رکھی ،اس کے علاوہ شکاگو یونیورسیٹی
میں وزیٹنگ پروفیسر اور سائریکس یونیورسیٹی کے شعبہ مذاہب میں ایسوسی ایٹ
پروفیسر کی حیثیت سے بھی انہوں نے خدمات انجام دی ۔ امریکہ میں اسلام ،عیسائیت
اور دیگر مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیداکرنے کیلئے بھی آپ کی خدمت سر فہرست
ہے ،انہیں مقاصد کیلئے وہاں 1971 میں امریکن مسلم سوشل سائنٹسٹ (The
American Muslim Social Scientists (AMSS) )کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے
صدر راجی الفاروقی بنائے گئے ۔ڈاکٹر راجی الفاروقی کا ایک اور تاریخی اور
قابل فخر کا رنامہ عالمی ادارہ برائے فکر اسلامی (The International
Institute of Islamic Thought)ہے جسے انہوں نے 1981 میں ڈاکٹر عبد الحمید
ابو سلیمان (سابق ریکٹر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسیٹی ملیشیا) کے ساتھ مل کر
قائم کیا ۔اس ادار کے قیام کا مقصد مذہب اسلام کا فروغ ،علوم اسلامی کا
ریسرچ ،دنیابھر میں اس کا فروغ اور بین المذاہب مکالمات ہے ۔یہ ادارہ دنیا
کے چند معتبر ریسرچ اداروں میں سرفہرست ہے ،بیشتر ممالک میں اس کی شاخیں
ہیں ،ہزاروں کتابیں ،لیکچرس اور مقالات یہاں سے شائع ہوچکے ہیں ۔
ڈاکٹر راجی تمام چیلنجوں کو تعلیم کے راستے حل کرنے پر یقین رکھتے تھے ،اسی
کے پیش نظر انہوں نے تعلیم اور علم پر اپنی ذہنی اور فکری صلاحتیں صرف کی ،ان
کا ماننا تھاکہ امت کی اصل طاقت اس کا مذہب ہے اور مذہب کی اصل طاقت اس کا
عقیدہ ہے ،ان کا یہ بھی نظریہ تھاکہ سترہوں صدی کا آغاز مستشرقین اور
عیسائی مشنریوں کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف علمی ماحول سازی کا
دور تھا ۔اس لئے ایسا علمی وتحقیقی لٹریچر پیش کرنا ہوگا جو ان سے زیادہ
معروضی اور تحقیقی انداز میں اسلام کے صحیح پیغام کو پیش کرسکے ۔ تعلیم کو
مغربی رنگ میں رنگنے سے تعلیم نے اپنا اصلی فائدہ کھودیاہے ،اس کا سب سے
بڑا نقصان یہ ہواہے کہ انسا ن کا خدا سے تعلق ختم ہوگیاکیوں کہ مغربی تعلیم
اور افکار ونظریات نے تعلیم کو خداسے کاٹ دیاہے۔اس لئے ایسے نظریہ اور نصاب
تعلیم کی ضرورت ہے جس کی بنیاد قرآن وسنت پر ہو۔وہ امت مسلمہ کے موجودہ
فکری ذخیرے پر از سر نو ناقدانہ نظر ڈالنے اور اصول فلسفہ کو نئے انداز سے
مرتب کرنے کے پرزور حامی نظر آتے ہیں،انہوں نے تعلیم جدید،علم کلام،تہذیب
وتمدن،انسانی صلاحیتوں اور انسانی اقدار کیلئے وہ اصول وقواعد ترتیب دیئے
ہیں جن کی اساس پر امت کیلئے نئے فکری سرمایہ کو وضع کیا جاسکتاہے ۔وہ وحی
الہی اور عقل کو مربوط کرنے کے علمبردا رتھے ،ان کا مانناتھاکہ اگر یہ
دونوں چیزیں باہم مربوط نہ ہوئیں تو نہ امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کا خواب
شرمندہ تعبیر ہوسکتاہے اور نہ انسانیت کی فلاح وکامرانی کی امید کی جاسکتی
ہے ۔
ڈاکٹر راجی الفاروقی نے دنیا کے متعدد ممالک کا سفر کیاہے ،وہاں کے مفکرین
،دانشوران اور ماہرین تعلیم سے ملاقات ہوئی ،متعدد مقامات پر انہوں نے
لیکچر دیا ،ثقافت کو فروغ دینے ،اسلامی افکار وخیالات کو ترویج دینے اور
زوال پذیرقوم کو حوصلہ دینے والوں میں انہیں نمایاں مقام حاصل ہے ۔ بین
المذاہب مکالمات ،توحید کی اعلی تشریح اور اسلامی افکار پر مشتمل دو درجن
کتابیں ان کی خدمات میں سر فہرست ہے ۔1986 میں راجی الفاروقی کے مکان پرایک
جان لیوا حملہ ہواجس میں اہلیہ اور بیٹی سمیت ان کی شہادت ہوگئی ۔راجی
الفاروقی کی اہلیہ لائس لمیا فاروقی ایک عیسائی خاتون تھیں جس نے شادی کے
بعد اسلام قبول کرلیاتھا ۔
خلاصہ کلام یہ کہ ڈاکٹر اسماعیل راجی فاروقی کی شخصیت عظیم اور ہمہ گیر ہے
،کئی موضوعات کا احاطہ کررکھاہے ،تعلیم پر توجہ دینے کے ساتھ سماجی علوم کو
بھی ان کے یہاں غایت درجہ اہمیت حاصل ہے ،امت مسلمہ کی ترقی مستشرقین کو
مضبوط دلائل دیکر مذہبی حقانیت ثابت کرنا اور قرآن وسنت کو کو ہر جگہ بنیاد
بنانا ان کا اصل فکری محور ہے ،اپنی کتابوں میں انہوں نے جہاں اسلام کے
آفاقی نظریہ ،علم کی اہمیت ،بین المذاہب مکالمات ،اور امت مسلمہ کے فکر ی
مسائل پر بحث کی ہے وہیں انہوں نے صہوینت پر بھی شدید تنقید کی ہے ،ایک
فلسطینی اور عرب نژاد مفکر ہونے کا انہوں نے مکمل حق ادا کیا ہے۔ ان کے
افکار وخیالات کو فروغ دینے اور زمانہ کو اس سے ہم آہنگ کرنے کی اشد ضرورت
ہے ۔ |