دو قومی نظریہ کی بنیا د پر معرضِ
وجود میں آنے وا لی اس کرہِ ارض کی پہلی ریا ست بننے کا اعزا حا صل کرنا
انتہا ئی غیر معمولی وا قعہ تھا تبھی تو دنیا تخلیقِ پاکستان کے معجزا تی
عمل پر آج بھی انگشت بدندان ہے ۔ انگریز مورخ کا یہ کہنا با لکل بجا ہے کہ
ا گر مہا تما گا ندھی نہ بھی ہو تے ہندوستان پھر بھی آزاد ہو جا تا لیکن
اگر قائدِ اعظم محمد علی جناح نہ ہو تے تو پاکستان کبھی معرضِ وجود میں نہ
آتا۔ پاکستان در حقیقت قائد اعظم کی کی فہم وفراست اور عقل و دانش کا لا
جواب شاہکار ہے۔ پنڈت جوا ہر لال تحریکِ آزادی کا ایک روشن ستارہ تھا اسی
پنڈت جواہر لال نہرو کی بہن لکشمی پنڈت جو کہ اپنے بے باک اظہارِ بیان کی
وجہ سے کا فی شہرت رکھتی تھیں انھیں کون بھو ل سکتا ہے۔ وہ کہا کرتی تھیں
کہ اگر مسلم لیگ کے پاس ایک سو گاندھی اور دو سو ابو ا لکلام آزاد ہو تے
اور کانگرس کے پاس صرف ایک محمد علی جناح جیسا آدمی ہو تا تو ہندوستان کبھی
تقسیم نہ ہوتا۔
عشق کی منزل ہے وہ عقل کا حا صل ہے وہ
معرکہ وجود میں گرمیِ محفل ہے وہ (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)
قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اپنے خلوصِ نیت ، کردار کی عظمت ، دلائل کی
قوت اور جرات و بسالت کی شمشیرِ بر ھنہ سے مخالفین کو سانس لینے کا موقعہ
نہ دیا۔ انگریز مورخ اپنی پچیس سال کی ریسرچ اور تحقیق کے بعد لکھتا ہے کہ
دنیا میں ایسی نامور شخصیتیں گزری ہیں جن میں سے کچھ نے دنیا کے جغرافیے کو
تبدیل کیا کچھ نے نئی قوم کی تخلیق کا معجزہ سرانجام دیا اور کچھ ایسے تھے
جنھوں نے تاریخ کے دھا رے کو بدل کر رکھ دیا لیکن قائدِ اعظم محمد علی جناح
اس جہت سے سب میں ممتاز ہیں کہ انھوں نے یہ تینوں معرکے تن تنہا سر انجام
دئیے ہیں وہ جدید تاریخ کی سب سے سحر انگیز شخصیت ہیں۔ ان جیسی دوسری شخصیت
تلاش کرنا ممکن نہیں ہے کیو نکہ خدا نے ان کو جن اوصاف سے نواز رکھا تھا ان
اوصاف کی حامل شخصیات روز روز جنم نہیں لیتیں۔ وہ اپنی ذات میں ایک تحریک
بھی تھے انجمن بھی تھے اور کوہِ گراں بھی تھے جنھیں ان کے عزائم سے ہٹانا
کسی کےلئے بھی ممکن نہیں ہو تا تھا۔ وہ جب ایک دفعہ فیصلہ کر لیتے تھے تو
پھر اس پر چٹان کی طرح جم جا تے تھے اور اپنے ھدف کو حا صل کر کے دم لیتے
تھے۔ پاکستان ان کے عزمِ مصمم کا جیتا جا گتا شا ہکار ہے۔
نگاہ بلند سخن دل نواز جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لئے (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)
برطانوی وزیرِ اعظم ا ٹیلی کہا کرتا تھا کہ میں تقسیمِ ہند کا شدید مخا لف
تھا لیکن قائدِ اعظم محمد علی جناح کے دلائل کے سامنے بے بس ہو گیا۔ میں
متحدہ ہندوستان کا خوا ہاں تھا اور متحدہ ہندوستان ہی چھوڑ کر جا نا چاہتا
تھا لیکن مسٹر جناح نے مجھ سے تقسیمِ ہند کی بات منوا لی۔ جسے میں ہر گز
پسند نہ کرتا تھا۔ مجھے نہ چا ہتے ہو ئے بھی تقسیم ہند پر اپنی رضا مندی کا
اظہار کر نا پڑا کیونکہ مسٹر جناح کے د لا ئل کا میرے پاس کو ئی مثبت جواب
نہیں تھا۔ ہیکٹر بو لا تھو جس نے قائدِ اعظم محمد علی جناح کی سوا نح حیات
لکھی ہے رقم طراز ہے کہ میں نے دنیا کی سات عظیم شخصیات کی داستانِ حیات
قلم بند کی ہے، میں نے دنیا بھر کے چکر لگا ئے ہیں اور عظیم انسا نوں سے
ملا ہوں لیکن جس قدر احترام اور خلوص کا احساس میں قائدِ اعظم محمد علی
جناح کی نسبت کرتا ہوں وہ کسی دوسری شحصیت کی نسبت نہیں کرتا ۔ اپنے وقت کی
ایک اور عظیم شخصیت سر آغا خان یوں گو یا ہو تے ہیں ۔ میں بادشا ہوں سے ملا
ہوں فرما نروا ﺅں کو دیکھا ہے۔ ساری عمر ا علیٰ دماغ لوگوں میں اپنی زندگی
گزاری ہے ۔ قوموں کے عروج و زوال کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے اور میں و ثو ق
سے کہہ سکتا ہوں کہ جناح کے پائے کا رو ئے زمین پر ایک بھی راہنما نہیں ۔
قدرت نے اسے بسمارک سے فزوں تر قوتِ فیصلہ عطا کی تھی ۔
ہندوستا ن کا آخری وائسرا ئے لارڈ ما ﺅنٹ بیٹن کہا کرتا تھا کہ مسلما نوں
کے لیڈر مسٹر جناح اپنی بات پر اڑ جا نے والے اور نہ جھکنے وا لی شخصیت
تھے۔ صرف موت ہی وہ واحد دشمن تھا جس کے سامنے مسٹر جناح کو جھکنا پڑا وگر
نہ دنیا کی کو ئی طاقت ا نھیں جھکا نہیں سکتی تھی۔ وہ سچا ئی اور حق کی
ایسی شمشیر ِ برہنہ تھے جس سے اس کے سارے مخالفین ایک ایک کر کے گھائل ہو
تے رہے اور آخرِ کار اس کے کردار کی عظمت کے سامنے سب کو اپنی شکست تسلیم
کرنی پڑی۔ قیامِ پاکستان اس کی عظمتوں کا سب سے بڑا نشان ہے اور جب تک یہ
قائم رہے گا پاکستان کے مخالفین کے سینوں پر سانپ لوٹتے رہیں گے کیونکہ ان
کی ہزار ہا کو ششوں کے باوجود پاکستان کا قیام عمل میں آگیا تھا ۔ ایٹمی
قوت کے حصول کے بعد اس کے استحکام کو جو مزید قوت ملی ہے اس نے دشمنوں کی
نیندیں حرام کر دی ہیں۔تخلیقِ پاکستان کا واقعہ کو ئی معمولی واقعہ نہیں
تھا بلکہ پاکستان کا حصول لوگوں کے عقیدے اور ایمان کا معا ملہ تھا تبھی تو
لاکھوں لوگوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور دنیا کی سب سے بڑی ہجرت
کا کرب سہا تھا۔ تحریکِ پاکستان کا ایک نامور سپا ہی پرو فیسر اصغر سودائی
تحریکِ پاکستان کی اہمیت اور قیامِ پاکستان کی خا طر دی گئی قربا نیوں کا
جس دلدوز، کربناک اور جگر پاش انداز میں اظہا ر کرتا ہے آپ بھی سنئے اور اس
کے محسو سات کا حصہ بن جا ئیے ۔۔
کتنے پیکر کٹے تب یہ پیکر بنا
کتنے ما تھے جلے تب یہ جھو مر بنا
کتنے سپنو ں کی بنیاد پہ ہے گھر بنا
میرا سندر سنہرا سجیلا وطن (پرو فیسر اصغر سودائی)
انگریزوں کی مکاریوں ہندوﺅں کی عیا ریوں اور اپنو ں کی ریشہ دوانیوں کا
قائدِ اعظم محمد علی جناح نے جس پامردی سے سامنا کیا اس نے ان کی عظمتوں
میں چار چاند لگا دئیے ہیں ۔ کفر کے فتوو ں کے درمیان اس نے مذہبی پیشو ئیت
کو جس بری طرح شکستِ فاش سے دوچار کیا مذہبی پیشو ئیت اس پر آج تک اپنے زخم
چاٹ رہی ہے۔ ایک ایسا شخص جو یہاں کے رہنے وا لوں کی زبا ن نہیں بو لتا تھا
جسکا لباس یہا ں کے لوگوں سے مختلف تھا جو مذہب کی مروجہ توہم پرستا نہ
تعلیم سے بے بہر ہ تھا ، جو ایک دفعہ بو ٹوں سمیت مسجد میں گھس گیا تھا ،
جو شعبدہ با زی سے نا واقف تھا،جو مکرو فریب کی سیاست سے نفرت کرتا تھا جو
جھوٹ اور فریب سے کامیا بی کو انسا نیت کی تذلیل تصور کرتا تھا جو اصول
پسندی کی سیاست کا علمبردار تھا، جو سچا ئی اور صداقت کی میزان کا نقیب تھا
، جو ایک معمولی گھرا نے کا چشم و چراغ تھا جس کے باپ کا کارو بار کساد
بازاری کی وجہ سے ٹھپ ہو گیا تھا اور اس کا خاندان مالی مشکلات کے شدید
طوفا نوں میں گرا ہو ا تھا لیکن اسکے با وجود اس نے ا پنی خدا داد صلا
حیتوں سے برِ صغیر پا ک و ہند کے مسلمانوں کی راہنما ئی کا فریضہ سر انجام
دے کر اور ان کےلئے ایک علیحدہ و طن حاصل کر کے سب کو ورطہِ حیرت میں گم کر
د یا تھا ۔
جہانِ تازہ کی ہے افقارِ تازہ سے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہو تے نہیں جہاں پیدا
خودی میں ڈوبنے وا لوں کی عظم و ہمت نے
اس آب جو سے کئے ہیں بحرِ بے کراں پیدا (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)
قائدِ اعظم نے اپنی فہم و فراست عقل و دانش جرات و بسا لت اور حسنِ تدبر سے
جس طرح تحریکِ پاکستان کی قیا دت کا فریضہ سر انجام دیا اس نے ان کی ذات کو
یگانہ روز گار بنا دیا ہے۔ یہ ان کی عظیم قیا دت کا اعجاز تھا کہ قوم کا
سفینہ حیات ایک حسین بط کی طرح تیرتا ہوا ساحلِ مراد سے ہمکنار ہو گیا۔ ۴۱
اگست ۷۴۹۱ کی صبح ہما ری حیاتِ ملی کی وہ درخشاں صبح ہے جس دن آفتابَ جہاں
تاب نے اپنی چشمِ خوا بیدہ واہ کی تو اس نے دنیا کے نقشے پر کرہِ ارض کی سب
سے بڑی اسلامی سلطنت کے معجزے کو حقیقت بنتے ہو ئے دیکھا ۔کون تھا جس نے اس
معجزاتی ل لمحوں میں حقیقت کے رنگ بھرے اور پوری انسانیت کو دکھا دیا کہ جب
قومیں غلامی کا طوق اتارنے کا عزم کر لیں تو پھر دنیا کی کو ئی طا قت انھیں
غلام نہیں بنا سکتی۔
۴۱ اگست ۷۴۹۱ کا دن در حقیقت ایک ایسا آئینہ ہے جس میں مصورِ پاکستان علامہ
اقبال کا خواب شاہینِ افلاک ِ تدبر و سیاست قائدِ اعظم محمد علی جناح کی
فہم و فراست ، شہیدوں کے لہو کی سرخی، ابا ﺅ اجداد کی خون آلود قبا ئیں ،
ماﺅں کے آنچلوں سے لپٹی ہو ئی ممتا، بہنوں اور بیٹیوں کے دعا ﺅں کے لئے
اٹھے ہو ئے معصوم ہا تھ اور عوام کی فقیدالمثال جدو جہد با لکل صاف اور وا
ضح نظر آتی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ آئینہ اپنے اندر حریت کی للکا ریں
اللہ ہو کی پکا ریں اسمِ محمد ﷺ کی مہکاریں ۔اجلی کرنوں کی لشکاریں۔۔ ظلم و
ستم کو کاٹنے والی عد ل و صداقت کی تلواریں بھی سمیٹے ہو ئے ہے لیکن مقامِ
افسوس ہے کہ ہم نے اس حسین و جمیل آئینے کو اپنے مکر و فریب،بغض و عناد ،
ذاتی مفاد ات ، دھشت گردی، شدت پسندی ،نفر تو ں اور کدورتوں سے زنگ آلود کر
کے اپنے درخشاں ما ضی سے منہ موڑ لیا ہے جس کی وجہ سے ہم ذلت و رسوا ئی کے
عمیق گھڑے میں گرے ہو ئے ہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اس عدیم
النظیر آئینے کو محبت ایثار یگانگت در گزر صبر و استقلال جرات و ہمت برداشت
، مفا ہمت اور ایمان کے اعلیٰ و ارفع جذبوں سے صیقل کریں تا کہ اس آئینے کی
وہی دیرینہ چمک واپس لوٹ آئے جو ایک نئی اور حسین صبح کو اپنے دامن میں
سمیٹے ہو ئے ہو ئے ہے اور یہی وہ صبح ہے جو قائد کی آر ز ﺅں کی غماز تھی
اور و جہ تخلیقِ پاکستان بھی تھی۔
چمن چمن ،کلی کلی، روش روش پکار دو
وطن کو سر فروش دو وطن کو جاں نثار دو
نظر نظر میں موجزن تجلیوں کے قافلے
وہ جذبہ حیاتِ نو بشر بشر ابھار دو
(سا غر صدیقی) |