بانی و تحریک پاکستان کے دشمن

جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام دونوں نے تحریک پاکستان،بانی پاکستان اور پاکستان کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔مولانا مودودی کی اس کتاب کا اصل نسخہ ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے جس میں انہوں نے پاکستان کے بارے میں انتہائی نازیبا ریمارکس دیے تھے۔پاکستان بنتے دیکھ کر اس کتاب میں تحریف کر دی گئی اور یہ ریمارکس حذف کر دیے گئے لیکن قلم اور منہ سے نکلی ہوئی بات آخر کیسے واپس ہو سکتی ہے۔

یہی قصہ جے یو آئی کا ہے جو کانگریس کا ایک دست و بازو تھی۔اور جس نے قائداعظم کے سامنے گاندھی کا اوتار کھڑا کر رکھا تھا۔اس تجزیے میں علامہ اقبال کی ایک رباعی بھی کام آ سکتی ہے۔جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ۔۔ز دیو بند حسین احمد ایںچہ بو العجبیست۔۔ میں معذرت خواہ ہوں کہ میرے بیشتر قارئین کو اس کا مطلب نہیں آتا لیکن علامہ اقبال نے جن کے بارے میں یہ رباعی لکھی تھی ان کو اس کی اچھی طرح سمجھ آ جاتی ہے۔

پاکستان بننے کے بعد بھی ان دونوں جماعتوں کو زیادہ عقل نہیں آئی۔کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوا تو مولانا مودودی نے جہاد کشمیر کے خلاف فتویٰ دے دیا اور یوں پاکستان کی شہ رگ اور اس کے ایک اٹوٹ انگ پر کاری ضرب لگائی۔مولانا مودودی نے یہ رکاوٹ نہ کھڑی کی ہوتی تو صرف قبائلی لشکری ہی نہیں پاکستان کے چپے چپے سے مجاہدین کا بگولہ اٹھتا۔کشمیر میں ڈوگرہ اور بھارتی افواج کو خس و خاشاک کی طرح " رول" دیتا۔کشمیریوں کی محکومی اور قتل عام کی ذمہ داری بڑی آسانی سے مولانا مودودی کے اس فتوے پر ڈالی جا سکتی ہے۔

مولانا سمیع الحق کی پوزیشن بے حد کمزور ہے۔ان کا مدرسہ تو بڑا سادہ سا ہے لیکن اس نے طالبان کی کئی نسلوں کی تربیت کی ہے اور افغانستان اور پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں اس نے ایک فساد کی بنیاد رکھی ہے۔ان طالبان کی فہرستیں آج بھی اکوڑہ خٹک میں جامع حقانیہ سے ملحقہ مدرسے کے ہر کلاس روم کے باہر آویزاں ہیں۔اس فہرست کی روشنی میں مولانا سمیع الحق اور ان کے خاموش طبع فرزند مولانا حامد الحق پر فرد جرم عائد کرنا مشکل کام نہیں ہونا چاہیے۔

حافظ حسین احمد تو اتنا بولتے ہیں کہ ان کے خلاف مزید مواد کی ضرورت نہیں۔ان کے خلاف اصل الزام یہی ہونا چاہیے کہ مولوی اور حافظ ہو کر سنجیدہ نہیں ہیں اور مخولیہ طبیعت کے مالک ہیں۔جو شخص بات بات پر مذاق کرنے کا عادی ہو،اس کی بات کو سنجیدگی سے کیسے لیا جا سکتا ہے،حافظ حسین احمد پر یہ الزام بھی عائد کیا جا سکتا ہے کہ وہ اسمبلی میں نہیں بولتے لیکن ہر ٹی وی چینل پر چہکتے دکھائی دیتے ہیں۔وہ تنخواہ تو پارلیمنٹ کے خزانے سے لیتے ہیں لیکن اپنی صلاحیتوں کے جوہر ایوان سے باہر دکھاتے ہیں۔

مولویوں کے بارے میں عمومی تبصرے یہ بھی ہو سکتے ہیں۔ فتوے تو دے سکتے ہیں،استعفے نہیں دے سکتے۔ان کا اپنا انجن جام ہے،پہیہ جام کیسے کریں گے۔72فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، وہ ایک ایم ایم اے کی گدڑی میں اکٹھے کیسے رہ سکتے ہیں۔حالیہ بلدیاتی انتخابات میں الگ الگ الیکشن لڑنے سے ان کی جو درگت بنی ہے، خاص طور پر جماعت اسلامی کو جو سبق حاصل ہوا،اس سے اسے اپنی اوقات سمجھنے میں غلطی نہیں کرنی چاہیے ۔سینیٹ کے الیکشن میں مولویوں نے کروڑوں کی رقم حلوہ سمجھ کر ہضم کی ہے ،جہاں مسلم لیگ کا نام و نشان نہیں تھا، وہاں سے سیف اللہ خاندان کی جیت اسی چمک کا نتیجہ ہی تو ہے۔

جماعت اسلامی اور جے یو آئی میں پاکستان کی مخالفت کے سوا کوئی قدر مشترک نہیں۔مذہب سے ان جماعتوں کا کوئی لگاﺅ ہوتا تو مذہب دشمن تحفظ حقوق نسواں بل پر یہ استعفے دینے میں دیر نہ کرتیں۔یہ جماعتیں دراصل اقتدار کی بھوکی ہیں پارلیمنٹ سے ملنے والی مراعات کو چھوڑنا ان کے بس کی بات نہیں۔

مولانا فضل الرحمن کے لئے ہوا صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے سینیٹرز خاندان جس نے ڈیرہ اسماعیل خان سے ان کی سیاست کا صفایا کر دیا ہے۔اگر جونئیر سینیٹر کو کھل کھیلنے کا موقع دیا جائے تو اپوزیشن لیڈر کا تیا پانچاکرنے کے لئے کسی اور کو زور آزمائی کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔

دھشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے میں ایم ایم اے کی کس پارٹی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔۔ یہ بھی بڑے پتے کا سوال ہوسکتا ہے مگر اگر جواب دینے والا کوئی جواب دینا چاہے۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 532789 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.