قومی اور بین الاقوامی سطح پر اکادمی ادبیات پاکستان کی
ادب کی ترویج واشاعت کے حوالے سے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ،جبکہ ادارہ
خیال و فن بھی جس تسلسل کے ساتھ منظم ادبی محافل کا انعقاد کر رہا ہے ادبی
حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل ہے ، اکادمی ادبیات میں جناب صابر ظفر کے نئے
شعری مجموعہ ’’روح قدیم کی قسم‘‘کی تقریب رونمائی اِس حوالے سے بھی منفرد
اور بھروپور ادبی رہی ، کہ یہ ادارہ خیال وفن کے اشتراک سے منعقد کی گئی
تھی ۔ ادارہ خیال وفن لاہور کے صدر ممتاز راشد لاہوری نجی مصروفیات کے باعث
شرکت سے قاصر رہے ،مگر سیکریٹری انیس احمد نے اِن کی ذمہ داریوں کو خوش
اسلوبی سے سنبھالا ۔ ڈاکٹر تبسم کشمیری کی زیرصدارت اِس تقریب میں کتاب اور
صاحب کتاب کے حوالے سے مضامین بھی پیش کئے گئے مضامین پیش کرنے والوں میں
نویدصادق، غافر شہزاد، جواد جعفری، غلام احمد حسن، غلام حسین
ساجد،عبدالکریم خالد، ایاز کنورراجہ، نجیب احمد شامل تھے ،انیس احمد نے
نظامت سنبھالتے ہوئے صدر محفل اور مہمانانِ خاص کو سٹیج کو مدوح کیا ۔تلاوت
قرآن پاک کی سعادت اسلم شوق نے حاصل کی جبکہ انیس احمد نے ہی نعتیہ کلام
پیش کر کے محفل کیلئے روحانیت کا سماں کیا ۔
نوید صادق نے صاحب کتاب کے اِس شعر’’بکھرا پھول جیسے شاخ پر اچھا نہیں
لگتا۔۔محبت میں کوئی بھی عمر بھر اچھا نہیں لگتا‘‘ کیساتھ گفتگو کا آغاز
کرتے ہوئے کہا موضوعات محبت کے ساتھ ساتھ ہلکے پھلکے انداز میں معاشرتی
مسائل کی پیچیدگیاں صابر ظفر کے قلم کا شاہکار ہیں ۔
غافر شہزاد نے کہا کہ نوید صادق نے بڑی خوش اسلوبی سے ایک اجمالی جائزہ
ہمارے سامنے رکھا ہے ۔اِنکے اشعار ہمیشہ یاد رہ جانے والے محبت کا اظہار
کرنے والے ہیں ۔ شاعری کے حوالے سے یہی صابر ظفرکے ابتدائی دور کی پہچان
رہی جب اِس پہچان کیساتھ کراچی پہنچے تو کچھ عرصہ تک تو یہ پہچان جاری رہی
،لیکن کراچی کی چکاچوند نے زندگی کی نئی پرتیں اُن پر کھُولی ،زندگی اتنی
محدود نہیں جتنی بکثرت شعراء نے موضوعات کی حد تک شاعری کو محدود کر دیا
ہوا ہے،اُن حدوں کو توڑنا اور اُس سے باہر نکلنا حوصلہ مندی کا تقاضا کرتی
ہے ۔ صابر ظفر بڑی تسلسل سے لکھ رہے ہیں اور اِن کی شاعری میں اُن کی زندگی
اور جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اُس کے تمام نشیب و فراز دیکھائی دے رہے ہیں
۔
ڈاکٹر جواذ جعفری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس کشادگی اور
تازگی کا خواب غالب نے دیکھا تھا اُس کی تعبیر بڑی حد تک ہمیں اقبال کی
شاعری میں ملتی ہے ،وہ ہماری غزل سے یکسر مختلف ہے لیکن اقبال کے اس خواب
کو جس نسل نے اجتماعی طور پر ستر کی دہائی میں تعبیر دینے کی کوشش کی ،صابر
ظفر اِن میں بڑا نام ہے ۔ مزید کہا کہ اِن لوگوں نے غزل کے اندرون کوبدلنے
کی قابل قدر کاوشیں کی ہیں۔
جب کہ ادارہ خیال و فن کی جانب سے غلام احمد حسن کو اظہار خیا ل کیلئے مدوح
کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ صابر ظفر ایک فطری شاعر ہیں ہمیشہ سچے جذبوں
کا اظہار کیا ہے، جو اِن کی شخصیت ہے وہ ان کے کلام میں بھی نظر آتی ہے
،اِس کتاب کا منظرعام پر آنا ان کی بھرپور تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہے
بہت آہستگی سے چل رہی ہے یہ نبضِ جاں جیسے
یہ گاڑی رُکنے والی ہے ،مسافر جانے والا ہے ۔
ڈاکٹر ضیاء الحسن نے صابر ظفر کے کچھ شاعروں کو سماعتوں کو نذر کرکے خوب
داد وتحسین سمیٹی۔
غلام حسین ساجدنے صابر ظفر کی شخصیت و فن کے حوالے سے مضمون باعنوان’’چلتے
رہو چال سرکشی‘‘ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ غزل میں صنف کے تجربوں کے حوالے
سے بہت معروف ہیں ۔ پاکستان کی قومیت سمیت ہر اہم موضوع پر طباع آزمائی کر
چکے ہیں اور خوب کرچکے ہیں ۔مگر اِس مجموعہ کلام میں نئے اسلوب اور فکر کے
حوالے سے کسی تجربہ کی بنیاد نہیں رکھی ۔اور اِسے سراسر ایک غزلیہ مجموعہ
ہی رہنے دیا ہے ۔ صابر ظفر نے غزل میں ہر طرح کے تجربے کئے ہیں ۔
ؑ عبدالکریم خالدنے کہا کہ صابر ظفر نے اپنے نسل کے شاعروں میں بہت شہرت
پائی ہے ،اِنکی غزل انسانی زندگی کی تمام پہلو کو اپنی ذات میں جذب کرتیہے
جو اُس کا اپنا عہد ہے اپنا خواب ہے۔ اُنہوں نے صابر ظفر کی غزلوں سے
انتخاب بھی پیش کر کے سماعتوں میں خوب رس گھولا ۔۔
اعجاز کنور راجہ کا کہنا تھا کہ صابر ظفر کے کلام کو ہر سطح پر قبولیت بھی
ملی اور مقبولیت بھی ۔ ۔ صرف محبت ہی انکا موضوع نہیں رہا اِن کی شاعری کے
ہم جہت پہلو ہیں ۔میرا یہاں آنے کا مقصد فقط صابر ظفر کو دیکھنا اورصابرظفر
کا کلام باذبان صابرظفر سننا تھا-
نجیب احمد نے کہا کہ اِن کی شاعری میں ایک جذبہ ہے جسے ہم عشق و محبت کہتے
ہیں ، یہ عمدہ شاعر ہیں، بہت بڑا تخلیقی سرمایہ ہیں ،ہم دعاگو ہ ہیں کہ یہ
اسی طرح ہمیں تازہ اشعار سے نوازتے رہیں ۔ مجھے تو اس کی گفتگو میں بھی
شاعری ہی سنائی دیتی ہے ۔
صابر ظفر کو ڈائس پر مدوح کیا گیا تو حاضرین محفل نے تالیوں کی گونج میں
اِن کا استقبال کیا۔صابر ظفر عہد حاضر کے ایک اہم غزل گو شاعر ہیں۔ ان کی
شاعری میں دو مختلف جہتیں ہیں۔ روایتی غزل اور گیت نگاری ۔صابر ظفر حساس دل
اور سادہ طبیعت کے مالک ہیں، ان کی غزلیں پر غلام علی، منی بیگم، نیرہ نور،
گلشن آرا سید ۔ جبکہ گیت گانے والے گلوکاروں میں نازیہ حسن، زوہیب حسن،
محمد علی شہکی، سجاد علی، شہزاد رائے، نجم شیراز، حدیقہ کیانی، فاخر، راحت
فتح علی خان، شفقت امانت علی خان، وقار علی سمیت پاکستان کے مشہور گلوکاروں
نے اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔ صابر ظفر کے لکھے ہوئے درجنوں گیت پاکستانی
ڈراموں کے ٹائٹل سونگ بھی بن چکے ہیں جنہیں بہت مقبولیت ملی، ان میں
سرفہرست میری ذات ذرہ بے نشاں ہے۔ دو قومی گیتوں’’ہے جذبہ جنوں تو ہمت نہ
ہار‘‘ اور دوسرا ہالی وڈ فلم جناح کا ’’جناح‘‘کا ٹائٹل سونگ ہے۔اِس موقع
پراُنہوں نے تمام شرکاء کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور اپنے نئے مجموعہ
کلام سے منتخب کلام بھی پیش کیا جس کے ہر شعر پر پسندیدگی کا اظہار کیاگیا
۔ اُنہوں نے فرمائشی کلام بھی پیش کیا ۔ صابر ظفر کی ایک منتخب غزل قارئین
کے ذوق کیلئے حاضر ہے ۔
میں نہ چاہوں کسی فانی میں فنا ہوجان
تم اگر ملنا مجھے، میرے خدا ہوجانا
بول بن جاؤں کوئی، گیت کوئی بن جاؤں
چاہتا ہوں ترے ہونٹوں سے ادا ہوجانا
ایک احساس رفاقت کو سُبک رکھتا ہے
کبھی خوشبو تو کبھی تیرا ہَوا ہوجانا
رنگِ تنہائی لپکتا ہے تمہیں چَھونے کو
ہو اگر بس میں تمہارے تو جُدا ہوجانا
اب خموشی کی سزا ملتی رہے گی شاید
ہے مکّرر تو کٹھن کُن کی صدا ہوجانا
دلِ وحشی کا چلن ورنہ بغاوت ہے ظفر
عشق سکھلاتا ہے راضی بہ رضا ہوجانا
صدرِ محفل ڈاکٹر تبسم کشمیری نے صابر ظفر کے چالیسویں مجموعہ کلام کی تقریب
کا انعقاد کو اپنے لئے قابل اعزاز قرار یتے ہوئے مزید کہا کہ مسلمانوں کے
تہذیبی روایات کا تجزیہ صاحب کتاب نے بڑی ہی خوش اسلوبی سے کیا ہے ۔ ان کا
کہنا تھا کہ غزل میں شناخت کا مسئلہ آج کا نہیں بلکہ بہت پُرانا ہے اُنہوں
نے غزل کے فن کے حوالے سے بھی اظہار خیال کیا۔
تقریب کے اختتام پر صابرظفر کو پھولوں کے گلدستے بھی پیش کئے گئے ،تقریب
میں عقیل اختر، وسیم عباس، شازیہ مفتی، مظہر سلیم منجوکہ، مرزا نوید،وحید
ظفر بھٹی سمیت معروف ادبی شخصیات نے شرکت کی شرکاء کا کہنا تھا کہ صابر ظفر
ہمارے اُردو ادب کا اثاثہ ہے اِنکی یہاں ہمارے درمیان موجودگی ہمارے لئے
باعث مسرت و باعث اعزاز ہے ،ہم دعاگوہ ہیں کہ اِن کا یہ شعری سفر جاری و
ساری رہے اور یوں ہی ان کے اعزاز میں ادبی چمن سجتے رہیں ۔ |