معروف ناول نگار، افسانہ نگار،ٹی وی ڈراموں کے تخلیق کار
مرزا اطہر بیگ کی قلمی خدمات کو خراجِ تحسین
یوایم ٹی کے زیر اہتمام ’’لاہوری ناشتہ اور ادبی بیٹھک‘‘
نئی نسل میں ادب کا رحجان نہایت ہی خوش آئند بات ہے:مرزا اطہر بیگ
جونیئرز اور سینئرز کو ایک ہی پلٹ فورم پر ا پنے خیالات کا اظہارکرنے اور
دوسروں کے خیالات سے مستفید ہونے کیلئے جو موقع یو ایم ٹی ’’لاہوری ناشتہ
اور ادبی بیٹھک‘‘ کے بہانے فراہم کر رہی ہے اپنی مثال آپ ہے،یہ تقریب ادبی
حلقوں میں ہر پہلو سے نہایت ہی منفرد قرار دی جاتی ہے جہاں ایک طرف تو
لاہور کے روایتی اور ذائقے دار ناشتے ،حلوہ پوری، نان چھولے،انڈہ ٹوسٹ سمیت
دیگر کئی ڈیشز سے شرکاء لطف اندوز ہوتے ہیں وہاں اُنہیں بھرپور خالص ادبی
گفتگو سے تسکین کا سماں بھی میسر ہوتا ہے ۔ تقریب کا ایک اور دلچسپ قابل
دید قابل ذکر پہلویہ بھی ہے کہ ایک طرف قلمی اُفق کے آفتاب و ماہتاب بحثیت
مہمانِ خاص سٹیج پر جلوہ افروز ہوتے ہیں تو دوسری طرف قلمی اُفق کے درخشاں
ستارے پورے آب و تاب کیساتھ جگ مگ کررہے ہوتے ہیں اور سامعین کی حیثیت سے
دلجمعی سے اختتام تک اپنی موجودگی سے تقریب کی رونق کو دبالاکئے رکھتے ہیں
ہر ماہ کی پہلی اتوار کو انعقاد ہونے والی’’ لاہوری ناشتہ اور ادبی بیٹھک‘‘
چندغیر متوقع انتظامی وجوہات کے باعث اِس بارچند ماہ کے وقفے کے بعد منعقد
کی گئی ،یہی وجہ ہے کہ شرکاء کی آمد قدرے لیٹ شروع ہوئی مگر تعداد توقعات
سے زیادہ رہی ۔ آج کی محفل غلام باغ’’صفر سے ایک تک‘‘ بے افسانہ اور کامیاب
ٹی وی ڈراموں کے تخلیق کار مرزا اطہر بیگ کے اعزاز میں سجائی گئی تھی ۔ اگر
ناول نگاری کی بات کی جائے تو مرزا اطہر بیگ کا نام محتاجِ تعارف نہیں،تعلق
فلسفہ سے رہا اور ادبی سفر کا آغاز کہانی نگاری سے کیا، ’’سوپہلا دن
ہوا‘‘اِنکا پہلا افسانہ1980 میں لکھا گیا ۔پھر ڈرامہ نگاری میں اپنے قلمی
جوہر دیکھائے،’تقریباًنو سو صفحات اور تیس ابواب پر مشتمل انکا پہلا ناول
غلام باغ جو ۲۰۰۱ میں مکمل ہوا ،مگر۲۰۰۶میں باقاعدہ منظر عام پر آیا،جسے
ادبی حلقوں میں ایک طرف تو خوب پذیرائی حاصل ہوئی تو دوسری جانب ناقدین
کیلئے بھی مرکز نگاہ بن گیا، پاکستان اور بھارت میں اس پر پر تنقیدی مقالے
لکھے گئے۔مرزا اطہر بیگ نے شرق پور میں ایک ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی
،انکے والد محترم مرزا طاہر بیگ کاتصوف اور مذہب کے حوالے سے بہت معتبر نام
ہے ۔ ابتدائی تعلیم شرق پو رسے ہی حاصل ہوئی اور پھر کچھ کرنے کا عزم لئے
لاہو رچلے آئے ،پی یو سے فلسفہ میں ماسٹرز کیا اور جی سی لاہور سے منسلک
ہوئے ۔ بعد ازاں شعبہ فلسفہ کے ہیڈ بھی مقرر ہوئے ۔گھر کے ادبی ماحول نے
اُن کے ادبی سفر میں بہت کارگر ثابت ہوااوراِن کے قلم کی جولانیوں کے سبھی
معترف ہونے لگے ، انکے لکھے ہوئے ’’پاتال‘‘، ’’دھند’‘‘، ’دلدل‘‘،’’دوسرا
آسمان‘‘،’’لفظ آئینہ‘‘، ’’حصار‘‘، ’’گہرے پانی‘‘، ’’یہ آزاد لوگ‘‘ جیسے
شہرہ آفا ق ڈرامے کے خوب چرچے رہے۔پنجابی ڈراموں میں طبع آزمائی کی تو
’’بیلا‘‘ ڈرامہ بھی مقبول عام ہوگیا۔’’صفر سے ایک تک‘‘اِن کا دوسرا ناول ہے
جو ۲۰۱۱میں منطرعام پر آیاجس پر ناقدین نے اِسے ایک منفرد اور پہلی کاوش
قرار دیتے ہوئے کہا کہ ناول نگاری میں پہلا کامیاب تجربہ ہے جس میں
ٹیکنالوجی کے چھاپ کو بڑی خوشی اسلوبی سے برتا گیا ہے ۔ یہ مرزا اطہر بیگ
کا ہی خاصہ رہا کہ ان کے ناولوں کے عنوانات بھی اُچھوتے ہیں۔
تقریب کا آغاز اللہ تعالی کے بابرکت نام سے ہوا اور احمد سہیل نصراللہ نے
تعارف پیش کیا اور عمرانہ مشتاق نے ابتدائیہ کلمات میںیو ایم ٹی کے کاوشوں
پر سرسری جائزہ پیش کیا اور فراخدلی سے شرکاء کا فرداً فرداً شکریہ بھی ادا
کیا ۔حاضرین محفل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ سب بہت قابل احترام اور
محبت کرنے کے قابل ہے،اسی خلوص کے ساتھ آپ آتے رہیے اور ہمارے حوصلے بڑھاتے
رہیے ۔قصرنفسی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ میں اور سہیل تو سہولت کار ہیں اصل
محنت تو مرزاالیاس صاحب کی ہیں ،اِن تقریبات کا سہرا اِنہیں کے سر ہے ۔
یو ایم ٹی کے ادبی فورم کے روح رواں تقریب کے منتظم اعلیٰ نے اظہار خیال
کرتے ہوئے کہ ہم نے بحرانوں کے آگے بند باندھنے ہیں ، یہ کام صرف قلم کارہی
کرسکتے ہیں،خواہ افسانے کی صورت میں ہوں یا ناول کی ،کالم کی،چاہے نثر و
شاعری کی کوئی بھی صنف کیوں نہ ہو۔ یا یہ کام تعلیمی ادارے کر سکتے ہیں، یہ
بتانا ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے بحرانوں سے قومیں کیسے نکل سکتی
ہیں۔امتحان ہر جگہ آسکتے ہیں مگر بحران ہر ایک پر نہیں آتے جس طرح ہم
پرمسلسل آتے ہیں۔ہم کنزیوم ہونے کے بجائے یا کنزیومیزم کا حصہ بننے کے
بجائے بلکہ یہ پیغام دینا چاہیے کہ کنزیوم ہونے کے لئے انسان نہیں چیزیں
ہیں ،کنزیوم ہونے کے لئے اسباب ہیں ،ہمیں یہ فرق رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
تالیوں کی گونج میں مرزااطہربیگ کو ڈائس پر مدوح کیا گیا دلچسپ شگفتہ ا
نداز میں گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا پچھلے کئی ماہ سے آنے والی فون کالز
کو یہ سوچ کر سنجیدگی سے نہیں لیا کہ ناشتہ اور ادبی بیٹھک کیسے ممکن ہے؟
اتوار کے روز اس طرح کی محفل سج جانا میری سمجھ سے بالاترتھا مگر آج گماں
کے برعکس ناشتے کے بعد شرکاء کی کثیر تعداد میں موجودگی قابل رشک ہے جو اس
بات کی غمازی ہے کہ نئی نسل میں ادب کا فروغ رحجان پا رہا ہے جو کہ ایک
نہایت ہی خوش آئند بات ہے ۔ اپنی قلمی سفر کے آغاز سے گفتگو شروع
کی،مزیدکہا کہ میرا رحجان شروع سے ہی سائنس ،ادب اور فلسفے سے رہا ہے ،۔ ۔
علوم کے حوالے سے نئی جدت متعارف کرنا مشکل ہوچکا ہے اسی صورتحال میں ہماری
ساری تعلیم میں تخلیقی پہلو کوئی نہیں ہے ، جدت نہیں ہے،جب تک ہم نالج
پروڈیکشن میں نہیں آتے تب تک علوم حاصل کرنا، آگے پہنچانا اور ڈگریاں حاصل
کرنا بے مقصد ہے ۔اگلے سو سالوں میں ادب کس صورت میں منظرعام پر آئے گا
،ہمیں ابھی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے ،افسانہ نگار کے گردونواح سے باخبر
رہنا بہت ضروری ہے ۔
احمد سہیل نے اچانک تقریب کا ادبی رنگ بدلنے کی بھرپور کوشش کی اور مہمان
خصوصی معروف فلم سٹار نشو کو پُرترنم کلام پیش کرنے کی دعوت دی ۔نشو نے
ڈائس پر آکر نفیس اور دل موہ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ تخلیق کار ہی
خوبصورت کیفیت کو خوبصورت الفاظ میں ظاہر کرنے والے لوگ ہیں ،آپ معاشرے کا
حسن ہیں،اگرآپ نہ ہوں تومعاشرے سے دنیا سے نفاست ،سلیقہ اور قرینہ ختم ہو
جائے ۔ مزید کہا کہ اتنی نفیس گفتگو کچھ ناشتے کا سرور اور گفتگو کا خمار
تمام احباب بہت پُرسکون بیٹھے ہیں ، جس پر تبسم کی ایک لہر شرکاء کے چہروں
پرنظر آئی، بھرپور فرمائش پرمکمل گیت تو نہیں مگر ’’ہماری سانسوں میں آج تک
وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے ‘‘ایک مصرع گننانے میں ہی اکتفا کیا-
تقریب کاایک اور شاندار قابل ذکر پہلو یہ بھی رہا کہ آخری سیشن میں شرکاء
نے مرزاطہر بیگ سے افسانہ نگاری، اور ناول نگاری کے حوالے سے سوالات بھی
کئے جس کے اطہر بیگ نے تسلی بخش اور مدلل جوابات بھی دیئے اِنکا کہنا تھا
کہ تجربات اور ناول لازم و ملزوم ہیں۔زبان کی زندگی اور اس میں ترقی کے
فارمولے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ وہ زندہ رہتی ہے، اگر آپ اسے اس کی مرضی سے
جینے کی آزادی دیں اور اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو اس کا کوئی فائدہ آپ کو
نہیں ہوگا، الٹا ادبی تخلیق میں گراوٹ پیدا ہوگی۔
شرکاء کا خیال تھا کہ مرزا اطہربیگ نے ادبی جمود کے ساکت پانیوں میں اپنی
ادبی کاوش سے ایک ارتعاش پیدا کیا ہے، اور نئے لکھنے والوں کے لئے نئی
راہیں متعارف کروائیں ہیں ۔ اُنہوں نے یو ایم ٹی کی کاوشوں کو سراہا اور
تسلسل برقرار رکھنے کی اُمید کا بھی اظہار کیا ۔ |